بحیثیت قوم ہم پاکستانی بہت خوش گمان ہیں، پاکستان بھارت کا میچ تھا، آٹھ کھلاڑیوں کے آئوٹ ہونے کے باوجود لوگ گمان کئے بیٹھے تھے کہ دلیر کپتان یاسر شاہ کے ہمراہ ٹیم کی گاڑی کو جیت کی منزل پر لے جائیگا، اگرچہ 50 گیندوں پر 100 رنز بارہ کی اوسط سے درکار تھے لوگ یہ بھی بھول چکے تھے کہ بیٹنگ کے اصل ذمہ داروں یعنی مڈل آرڈر نے جو کارکردگی دکھائی ہے اسکے بعد جیت کی منزل پر پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ذمہ داران کارکردگی نہ دکھائیں تو معمولی مسائل بھی بڑے بن جاتے ہیں جیسے معمولی بھارتی بائولنگ نے ’’مضبوط‘‘ پاکستانی بیٹنگ کو تہس نہس کر دیا۔ پلاننگ کے بغیر کئے گئے کام شاید ایسے ہی نتائج کے حامل ہوتے ہیں یا پھر شاید بنائے گئے پلانز پر عملدرآمد ہماری سرشت میں نہیں۔ ایسا ہی حال تقریباََ ہر شعبے، ہر میدان میں دکھائی دیتا ہے ٹریفک کو ہی لے لیجئے، لاہور شہر کی سڑکیں کشادہ کی گئی ہیں، اس مقصد کیلئے بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں کی، اپنے کاروباری مراکز کی قربانیاں دیں‘ بہتری کیلئے قربانیاں تو دینا پڑتی ہیں نا، اگر بہتری آجائے تو! لیکن دکھائی یہ دیتا ہے کہ لاہور جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا تجارتی اور انتظامی مرکز ہے اور روزانہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ کاروبار اور دیگر معاملات کی غرض سے یہاں آتے ہیں، ان کیلئے شہر میں داخل ہونا اور پھر نکلنا ایک عظیم امتحان سے کم نہیں ہے کہ شہر میں داخل ہونے کے راستے پر موجود دریائے راوی کا پل اسی کشادگی کا حامل ہے جو اس کے بننے کے وقت تھی اور ٹریفک کے موجودہ بہائو کو سہنے کی سکت نہیں رکھتا کیا ہی اچھا ہوتا اگر میٹروبس کے اربوں روپے کے منصوبے میں ہی اس پل کو کشادہ کرنے کا منصوبہ بھی شامل کر لیا جاتا کیونکہ میٹروبس کو بھی شاہدرہ سے اپنے سفر کے آغاز کے فوراََ بعد اسی پل پر سے گزرنا ہوتا ہے اور اکثر اوقات شدید ٹریفک وقت کی بچت کے اس منصوبے کی افادیت کو کم کرتی نظر آتی ہے۔گذشتہ دنوں ایک مجلس میں ٹرانسپورٹ کے ایک ماہر نے بتایا کہ ماس ٹرانزٹ یعنی میٹروبس منصوبوں کی افادیت تب ہی ہوتی ہے جب ایسے منصوبوں کے استعمال کرنیوالے پیدل چل کر اس وسیلہ سفر تک پہنچ سکیں کیونکہ ماس ٹرانزٹ کا ایک مقصد کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کرنا بھی ہوتا ہے لیکن اب کیا کہیے کہ ہمارے ہاں میٹرو بس روٹ تک پہنچنے کیلئے زیادہ تر لوگوں کو ’’چنگ چی‘‘ یا ٹوسٹروک رکشہ کا استعمال کرتا پڑتا ہے جو نہ صرف کاربن گیسوں بلکہ سلفر کے اخراج اور آلودگی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ٹریفک کنٹرول کے اداروں کو جب کبھی جوش آتا ہے تو سڑکوں پر ان رکشوں کے چلنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیکٹری میں تیار ہو کر شو روم پر بکنے اور پھر موٹر ڈیپارٹمنٹ سے رجسٹریشن کے بعد سڑک پر آکر چلنے کے بعد ہی ان اداروں کو کیوں خیال آتا ہے کہ یہ رکشے ماحول کو آلودہ کرتے ہیں انکی تیاری پر کیوں پابندی نہیں لگائی جاتی؟ پھر یہ بھی پتہ چلا کہ بڑے شہروں لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور میں ٹریفک کی اوسط رفتار 30 کلو میٹر فی گھنٹہ رہ گئی ہے اور اسی رفتار سے گاڑیوں کی تعداد بڑھتی رہی تو 2020ء تک گاڑیاں صرف 10کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے شہروں میں سفر کر سکیں گی۔ پرائیویٹ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف کراچی میں پرائیویٹ گاڑیوں کا استعمال 60% ہے اور آنیوالے سالوں میں یہ تعداد بڑھتی ہوئی ہی نظر آرہی ہے کیونکہ پبلک سیکٹر میں ٹریفک کے حوالے سے کوئی مربوط منصوبہ راہ عمل میں دکھائی نہیں دیتا جو شہروں میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کے اس عفریت کو قابو میں لانے کیلئے معاون ثابت ہو۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ پاکستان بھر میں ’’ جی ٹی ایس ‘‘ کے نام سے بین الاضلاعی اور روڈ ’’ٹرانسپورٹ کارپوریشن‘‘ کے نام سے اربن ٹرانسپورٹ کا انتہائی مربوط نظام ہوا کرتا تھا لیکن یہ بہترین ادارے اڈوں، جگا ٹیکس اور یونین سیاست کی نظر ہو کر دیکھتے ہی دیکھتے نیست و نابود ہو گئے۔
اسی طرح کراچی میں ٹرام کا نظام بھی ایسے ختم ہوا ہے کہ شاید اب اسکی پٹریوں کے نشان بھی باقی نہیں۔ اس صورتحال نے سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو پہنچایا ہے جو پرائیویٹ اور مہنگا سفر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ بسوں کے ساتھ لٹکنے پر بھی مجبور ہیں، دھواں چھوڑتی گاڑیوں کا دھواں پھانکنے پر بھی، گھنٹوں سٹاپ پر کھڑے ہو کر بس کا انتظار کرنے پر بھی اور بے ہنگم ٹریفک میں گاڑیوں کے آگے بھاگ بھاگ کر سڑک پار کرتے ہوئے حادثوں کا شکار ہونے پر بھی، ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان میں ہر سال 30,000 افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہونیوالی شہادتوں سے بھی زیادہ ہے گویا ہمیں دہشتگردی سے زیادہ خطرہ ’’ٹریفک گردی‘‘ سے ہے۔موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ان تمام معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹریفک کے مسائل کو حل کیا جائے اور ٹرانسپورٹ کا ایک موثر، مربوط اور پائیدار نظام وضع کیا جائے جس میں نہ صرف یہ کہ لوگوں کو ایسے ذرائع آمدروفت مہیا کئے جائیں جو ان کا وقت اور پیسہ بچائیں بلکہ انہیں با عزت سفر کے مواقع بھی مہیا کریں اور اسکے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں بھی معاون ثابت ہوں۔ سننے میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت نے سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کیساتھ مل کر بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کیلئے منصوبہ بندی کی خاطر پاکسٹران کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38