خطے کی صورتِ حال، پاکستان کے اندرونی حالات، گری معیشت، بیرونی خطرات، کرونا، ’’را‘‘ کی سرگرمیاں ، ٹینشن والا ماحول، تو ذہنی حالت کیا ہو گی۔ دماغ خودبخود سماجی حالات سے ہٹ جاتا ہے۔ پاکستان اپنے قیام سے لیکر اب تک، اِن 72سالوں کے دوران بہت سے اچھے اور بُرے ادوار سے گزرا۔ تاریخ نے سبق دیا کہ جو قومیں خود انحصاری کا سفر طے نہیں کرتیں وہ آگے بڑھ ہی نہیں سکتیں۔ معاشی ترقی میں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں۔ جہاں مسائل بڑھ جائیں ، وہاں انارکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اِس تناظر میں معاشی استحکام مشکل نہیں، ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کا معاشی نظام یا استحکام اُس کی دفاعی قوت سے جُڑا ہوتا ہے ۔ ہر دشمن ملک اس کوشش میں ہوتا ہے کہ حریف ملک کے معاشی نظام کو برباد کر دیا جائے۔ معاشی نظام غیر مستحکم ہو گا تو اُس ملک کو گرانا نسبتاً زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ افراتفری کے اس ماحول میں کوئی بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا،وہ فیل ہو جاتا ہے جب مسائل کا سونامی اپنے سامنے دیکھتا ہے ۔ہمارے ہمسایہ ممالک میں بھارت، چین، افغانستان اورایران شامل ہیں جن کی سرحدیں بھی ہم سے ملتی ہیں۔ نیپال اور سری لنکا اگرچہ ہم سے دور ہیں لیکن وہاں کی بھی صورت حال کچھ اچھی نہیں۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ خطے میں امن ہو گا تو ترقی آئے گی۔ آپس کے تعلقات کا اچھا ہونا اور علاقائی تنازعات ختم کر کے امن کی شروعات کرنا خطے کے حق میں ہے جب تک ہر ملکی قیادت میں یہ سوچ پیدا نہیں ہو گی ہم اسی طرح کی صورتِحال کا سامنا کرتے رہیں گے۔ عالمی حالات کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں مثبت رجحانات نہیں ملتے۔ بڑی طاقتیں دوسروں کو دبانے، نیچا دکھانے اور اپنے مفادات کیلئے ہمہ وقت سرگرم رہتی ہیں۔ سعودی عرب، یمن اور ایران کی جو آج صورتحال ہے اُس سے سب آگہی رکھتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ان ممالک میں ہونیوالی مذموم سرگرمیوں اور کارروائیوں میں کون ملوث ہے اور کون ان کو جاری رکھ کر دُنیا پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے۔کرونا نے جس طرح دنیا کی معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دن، مہینے اور سال کسی بھی ملک کیلئے کوئی اچھا پیغام نہیں لائیں گے۔ کرونا کے باعث معاشی طور پر مستحکم ممالک کا بھی جنازہ نکل گیا ہے۔ ایسے میں جنگ کرنا، جنگ جیسے حالات پیدا کرنا، یا اس نوعیت کی کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی دنیا کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ۔ اگرچہ سلامتی کونسل تو ہے۔ لیکن وہ صرف نام کی حد تک ہے۔ اُس کا وجود کسی طرح بھی سلامتی کی ضمانت نہیں دیتا۔ عام یا سادہ لفظوں میں یہ عالمی ادارہ غیر فعال نظر آتا ہے۔ ویٹو پاور رکھنے والے ملک اپنے ویٹو کی پاور سے سلامتی کے اس ادارے کو اپنے مفادات کیلئے ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے اُن کی جاگیر ہو۔ اس سے چھوٹے، نسبتاً کمزور ممالک کا اعتماد سلامتی کونسل سے اٹھ گیا ہے۔ امریکہ کے کہنے پر سب کچھ ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس سے ایشیائی ممالک میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔جہاں تک علاقائی صورتحال کا تعلق ہے بھارت، نیپال اور چین کے مابین حال ہی میں کچھ ایشوز سامنے آئے ہیں جس سے معاملات کی پیچیدگی کا احساس اور اندازہ ہوتا ہے۔ جہاں تک بھارت اور نیپال کے درمیان تنائو کا معاملہ ہے تو وہ ایک ایسی سڑک پر ہے جو متنازعہ علاقے سے ہو کر گزرتی ہے ۔ بھارت نے چونکہ اس سڑک کو حال ہی میں آمدو رفت کیلئے کھولا ہے اس پر نیپال کو اعتراض ہے۔ اس مسئلے کو لے کر انکے مابین سخت تنائو اور کشیدگی پائی جاتی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے اس نئی سڑک سے زائرین کو آمدورفت کیلئے آسان سہولت میسر آئیگی۔ بھارت کا دعوی ہے کہ اس سڑک کے ذریعے سفر کا دورانیہ کم ہو جائے گا۔ بھارت کے جنوب میں ’’کالپائی‘‘ نام کا یہ ایسا علاقہ ہے جو بھارت اور نیپال کے درمیان متنازع حیثیت رکھتا ہے اور نیپال، بھارت کے استدلال کو نہیں مانتا۔’’نیولیک پاس‘‘ نامی علاقہ بھی بھارت اور چین کے درمیان تنازع کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔ مبصرین کا خیال ہے بھارت نے ’’کالپائی‘‘ کے علاقے میں جس سڑک کو کھولا ہے اُسکی بہت بڑی اسٹریٹیجک اہمیت ہے۔ اس سڑک کو کھولنے کا مقصد چینی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھنا ہے جبکہ بھارت کا اپنا دعویٰ ہے کہ یہ سڑک زائرین کی سہولت کیلئے ہے۔ہندوستان اور چین کا سرحدی علاقہ 3,500 کلومیٹر پر محیط ہے۔ ہمالیہ کے ساتھ بھی اس کا کچھ حصہ ملتا ہے۔ یہ ایک مشکل ترین سرحدی حصّہ ہے۔ چین نے تبت اور اکسائی میں انفراسٹرکچر اور روڈ نیٹ ورک تیار کیا ہوا ہے تاکہ سرحد تک اُنکو بہتر رسائی حاصل رہے۔ چینیوں نے سرحد کے قریب لداخ میں جو کیمپ لگائے ہیں بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ اُس کا علاقہ ہے۔ تاہم پانچ ہزار چینی فوجی بھی یہاں تعینات ہیں تاکہ کیمپوں کی حفاظت ہو سکے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024