جوڈیشل سسٹم یا سارا نظام ؟
عجیب بات ہے کہ جس کو عدالتوں سے ریلیف ملتا ہے وہ تعریف شروع کر دیتا ہے اور جسے نہ ملے وہ اندھی اور بے بنیاد تنقید کے تیر برساناشروع کر دیتا ہے. سال ہا سال سے یہی صورتحال عوام کے سامنے ہے اور حکمرانوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انصاف کا حصول خاصا مشکل ہے مہنگا اور وقت کے حوالہ سے صبر آزما بھی۔رہی انتظامی اور مالی بے ضابطگیاں اور کرپشن تو اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مگر دیانت دار ججوں کی بھی کمی نہیں ۔مسائل بہرحال ہیں اندرونی اور بیرونی طور پر۔ بدقسمتی سے 72سالہ پاکستانی تاریخ ہر لحاظ سے مثبت اور منفی واقعات سے بھری پڑی ہے نظام عدل اور نظام حکومت کے حوالہ سے کسی کو مبراء قرار نہیں دیا جاسکتا کبھی حکومتی حلقوں کی طرف سے اور کبھی عدلیہ کے Commentsاور تنقید دو دہائی سے معمول کی بات ہے ۔وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آج کل کافی معاملات پر بیان داغ رہے ہیں کبھی اسلامی آرڈیالوجی کو کبھی رویت ہلال کمیٹی اور خلائی سفر وغیرہ ۔اب وہ میاں نواز شریف کی لندن میں کسی جگہ چائے پیتے اہل خانہ کے ساتھ تصویر پر خاصے برہم ہیں اور انکی رہائی اور لندن کے حوالہ سے بسلسلہ علاج معالجہ جانا اور لاہور ہائی کورٹ کے احکامات زیر نظر محسوس ہوتے ہیں اور عدالتی نظام پر نالاں ہیں ۔وہ شاید بھول گے ہیں کہ اس سارے سلسلے میں عدالت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت وزارت داخلہ صوبائی اور مرکزی حکومت بھی شامل ہے ۔وجوہ آپ بہتر جانتے ہونگے کہ سب مجبوری یا کچھ اور تھا یا پھر رعایت ہمارے ہاں قانون کو پامال کرنا اور اثر و رسوخ کے تحت فیصلے کرنا کوئی نئی بات نہیں یہ ہر دور میں ہوا اور ہورہا ہے ۔
وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری آج حکومت میں کل اگر حزب اختلاف میں ہوے تو پھر ان کا زاویہ نگاہ یقینا تبدیل ہوجائے گا ۔کاش حکومتیں قانون سازی کے ذریعے مسائل اور معاملات کا متفقہ حل وسیع تر سوچ و بچار کے بعد تلاش کریں مگر سیاستدانوں بلکہ سیاست کاروں کو تو اقتدار اور مفادات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اور 72سال میں یہ سلسلہ جاری ہے ۔جنرل ایوب خان بطور آرمی چیف کیوںوزیر دفاع بن بیٹھے گورنر جنرل غلام محمد کی کابینہ میں اور پھر مارشل لاء اور 1956کا آئین توڑ کر 1962کا آئین بنا دیا پھر یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف نے جو سلوک کیا قانون اور آئین کا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ مجھے یاد پڑتا ہے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سابق غلطیوں پر کچھ تسلیم کیا تھا اگر کچھ ججوں نے مارشل لاء دور میں بھی اچھے آئینی فیصلے کیے تو وہ تاریخ کا حصہ ہیں ۔2007کا تاریخی فیصلہ پرویز مشرف کے مارشل لاء یقینا ایک نئی بات ہے پرویز مشرف کے خلاف سپیشل ٹریبونل کا فیصلہ آڑٹیکل 6،کے مطابق صادر کیا گیا ۔وہ بھی ایک منفرد آئینی پہلو ہے ہمارے ہاں ۔مگر جسٹس شوکت صدیقی کو ذرا کھل کر بات کرنے پر فارغ کرا دیا گیا ۔ آجکل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے انہوں نے بھی فیض آباد دھرنا مقدمہ میں ایک آئینی فیصلہ صادر فرمایا تھا شاید کچھ لوگ ناراض ہوگئے ۔ شاید پاکستان کے نصیب میں یہ ابھی مشکل کام ہے کہیں اقتدار ،کہیں مفاد اور کہیں اور بعض ایجنسیاں اپنا اپنا کردار اداکرتے ہیں ۔اصل میں سول انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں نے بھی سال ہا سال سے پاکستان کو بدنظمی ،بدانتظامی اور مالی کرپشن میں تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ان کو فوجی مارشل لاؤں اور سول حکومتوں میں بددیانتی کو کمال تک پہنچا دیا گیا ۔جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بھی آئین میں عدلیہ اور دیگر ترامیم کیں اور جبر و تشدد مخالفین کے ساتھ روا کیا بہرحال اگر ایٹمی پروگرام کا آغاز نہ کرتا تو آج بھارت 1971کے تناظر میں کیا کرتا غور کریں ۔ضیاالحق نے تو انتہا کردی اسلام کے نام پر کوڑے برسا کر۔بہرحال عدلیہ مولوی تمیز الدین مقدمہ میں چیف جسٹس منیر کی سربراہی میں آئین کی انحراف کی طرف چل کر نظیریہ ضرورت پر منتج ہوئی جس کا خمیازہ آج تک قوم بھگت رہی ہے ۔میںنے کہیں پڑھا ہے کہ آخری عمر میں چیف جسٹس منیر نے اپنے غلط فیصلے پر غلطی تسلیم کی شاید۔عدلیہ آخری امید بھی ہے عوام کی اور کام مشکل بھی ہے کیونکہ اگر کسی ادارے پر مثبت تنقید بھی کی جائے تو نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ یہ ہر دور میں ہوا اور اب بھی جاری ہے اس کا سدباب تو صرف آئین اور قانون کی حکمرانی میں مضمر ہے اور عدالتی فیصلے صادر ہونے کے انتظامیہ کے ذریعے عمل درآمد ہونا ہوتا ہے ۔ہم نے چیف جسٹس سجاد علی شا ہ کے وقت انہوں نے آرمی چیف کو سپریم کورٹ کے تحفظ کے لیے کہا مگر نواز شریف آڑے آئے اور سپریم کورٹ بلڈنگ پر حملہ ہوا بے حرمتی بھی ہوئی اور جگ ھنسائی بھی۔پچھلے سال آرمی چیف کے عہدے اور Tenureپر مقدمہ زیر سماعت تھاایک خوف اور دباؤ پایا گیا عوام میں ۔جنرل باجوہ کو اس اس وقت اہم فرائض دھشت گردی اور دیگر حوالوں سے کررہے ہیں ان کو مثبت تنقید اور باہمی مشاورت کے عمل میں سول اور ملٹری Extensionآئین کے مطابق ٹائم کرنی چاہیے یہ پاکستان کی سلامتی اور اداروں کی بہتری کا راستہ ہے جس کی طرف پچھلے دنوں جنرل باجوہ نے اشارہ بھی کیا تھا یہی درست سمت ہے ادارے مضبوط اور مربوط ہونگے تو ریاست کو لاحق اندرونی اور بیرونی خطرات کا مقابلہ آسانی سے ہوگا ۔1965کی جنگ اور 1971کا موازنہ کافی سبق آموز ہے ۔
عدالتی نظام کے مدو جزر اپنی جگہ ہماری انتظامیہ نے بھی مختلف ادوار میں الیکشن میں دھاندلی مقدرو بھر کر حکومتیں بنائیں بیشتر کو Establishment کی جماعت کہا گیا کچھ پارٹیوں کی لیڈرشپ تو جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاالحق کی مرہون منت ہے اور انہوں نے بھر پور اقتدار کا مزا لیا ۔اخبارات ،ٹی وی اور دیگر ذرائع عدالتوں کے ا ندر اور باہر ہجوم عاشقان سیاست ہے اور حکومت کے وزراء اور پی پی،اور ن لیگ کے رہنما ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں ان کو نہ اس بات سے غرض ہے کہ کرونا تباہی مچار رہا ہے اور عوام نت نئے مسائل کا شکار ہیں نہ بھارت کی ریشہ دوائیاں اور خطرات کے الارم ۔نہ مستقبل کی پیش بندی معیشت ،خورات اور خارجہ امورکے حوالہ سے بھار ت نے دو سفارت کار 24گھنٹے میں پاکستان جانے کا حکم دیا ناپسندیدہ قرار د ے کر ۔ ہم نے معطل کیا ہے تعلقات کو مگر 10ماہ میں 56ارب روپے سے زائد کا مال بھارت سے آیا اور 1-1/2ارب کا گیا کوئی عقل اور دانش اور حمیت ہے کہیں ۔خیر سے ہمیشہ سے ہمارے سفارت کار عیش کرتے ہیں کچھ کے علاوہ فرائض سے عاری ہیں جبکہ بھارتی سفارت کاری نے ہمارا عالمی سطح پرکشمیر میں مظالم ،بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و تشد قتل و غارت کے باوجود بے اثر کر دیا ہے ذرا توجہ طلب ہے معاملہ۔ہماری وزارت خارجہ ،سائنس اور ٹیکنالوجی اور دیگر ادارے کتنی ریسرچ کرتے ہیں ایک سوالیہ نشان ہے آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا ۔حالات حاضرہ میں کوئی ادارہ ایک دوسرے پر مکمل ذمہ داری ڈالنے کا اہل نہیں سب کے ہاں خامیا ں ہیں ۔سیاستدان ، سول اور ملٹری بیوروکریسی ،عدلیہ ،میڈیا ، وکلاء اور دیگر ادارے اپنے حقوق و فرائض کا جائزہ لیں اور آئین کی روح میں جو مثلیثTrichotomyہے ان کو زندہ کریں اور آئین اور قانون کی حکمرانی کی راہ ہموار کرلیں اور مثبت تنقید برداشت کریں اور منفی رویوں سے گریز برتیں ۔ہم نے بہت نقصان کر لیا تاریخ کچھ کہہ رہی ہے نہ سمجھنے والوں کو تاریخ سبق سکھاتی ہے اس سے بچیں قومیں ماضی کے تجربات پر حال کی عمارت تعمیر کرتی ہیں اور مستقبل کی پیش بندی کا ڈول ڈالا جاتا ہے ۔کیا قائداعظم محمد علی جناح کی روح ہمارے کردار ،اخلاق اور فکری پستی پرتڑپ نہیں رہی ہوگی ؟