پاک تاریخ سے ایک ورق
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی!
دراصل یہ تحریر ”حقائق نامہ“ ریکارڈ کی درستگی اور قوم کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ پردے کے پیچھے کیا ہوتا رہا؟
میں بعض ان واقعات کا ذکر کروں گا جن کا میں بھی اپنی جلاوطنی کے ایام میں عینی شاہد ہوں کہ وہ کیسے وقوع پذیر ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برطانیہ سے روانگی سے بہت پہلے برطانیہ بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا۔ میرا اشارہ ان ابتدائی مذاکرات کی طرف ہے جو جنرل مشرف سے اسکے قریبی رفقاءبشمول طارق عزیز، جنرل کیانی اور جنرل حامد کے توسط سے محترمہ بے نظیر بھٹو سے شروع ہو چکے تھے جبکہ میں محترمہ کی طرف سے ان میں شریک تھا جو زیادہ تر برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہو رہے تھے۔ ان میں سے ہر ملاقات پاکستان کی تاریخ پر دوررس نتائج اثرات کی حامل تھی۔
اس دوران جب ہمارے (پی پی پی) جنرل مشرف سے سیاسی اقتدار کی منتقلی کے بارے میں مذاکرات ہو رہے تھے تو یہ تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ میاں صاحب (نواز شریف) بھی بریگیڈیئر امتیاز کے ذریعے جنرل مشرف سے رابطے میں تھے۔ شریف برادران بریگیڈیئر امتیاز سے مل کر اپنی جلاوطنی ختم کرانے کیلئے جنرل مشرف سے مفاہمت بڑھانے میں کوشاں تھے۔ بریگیڈیئر نیاز جنرل مشرف کے انتہائی قریبی دوستوں میں تھا جس نے آگے چل کر مشرف کے سیاسی دست و بازو کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ اس کی ایک اور وجہ شہرت یہ تھی کہ اس نے قومی اتحاد کی تحریک کے بعد کے ادوار میں دفاعی سودا بازیوں میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 2007ءمیں سیاسی سرگرمیاں حتمی شکل اختیار کرنے لگیں۔ محترمہ شہید اور میاں صاحب دونوں سے مذاکرات کرنے کو جی پی ایم (جنرل پرویز مشرف) سٹریٹجی کا نام دیا گیا۔
غالباً وسط جولائی 2007ءمیں سعودی عرب سے ایک وفد نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے دبئی میں یہ جاننے کیلئے ملاقات کی کہ اگر میاں صاحب پاکستان جاتے ہیں تو انہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا، محترمہ شہید نے جواب دیا ان کے پاکستان جانے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا بلکہ میں تو چاہتی ہوں کہ ان کی جلاوطنی ختم ہو اور وہ پاکستان جا کر انتخابات میں حصہ لیں۔ انہوں نے نواز شریف کی واپسی کی پرزور حمایت کی۔ محترمہ شہید منصفانہ انتخابات اور آمریت کی جگہ جمہوریت لانے کیلئے دباﺅ بڑھانا چاہتی تھیں۔ اسی وجہ سے ہی محترمہ نے ہر فورم پر میاں صاحب کی واپسی کی حمایت کی۔
حقیقت یہ ہے کہ شہید محترمہ کی واپسی نے نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کی اور یہ محترمہ ہی تھیں جنہوں نے نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔ اس کا فیصلہ محترمہ کی میاں صاحب سے ایک ملاقات میں ہوا۔ اس اجلاس یا ملاقات میں جو زرداری ہاﺅس اسلام آباد میں ہوا محترمہ شہید کی مدد امین فہیم مرحوم اور راقم اور میاں صاحب کی چودھری نثار، اسحق ڈار اور جاوید ہاشمی نے کی۔ راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کے بعد دہشت گردی کی واردات میں محترمہ کی شہادت نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ محترمہ کی شہادت ناقابل تلافی قومی نقصان تھا تاہم مرحومہ کے شوہر آصف علی زرداری نے اس سانحہ کے بعد نوڈیرو میں پریس کانفرنس کی اور ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگا کر سندھ کی شعلہ بداماں اور انتہائی اشتعال انگیز صورتحال پر قابو پا لیا۔
یہ ریکارڈ پر ہے کہ صدر پرویز مشرف، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی واپسی کے حق میں نہیں تھا۔ اس نے ان دونوں رہنماﺅں کو مذاکرات میں الجھائے رکھ کر ان کی واپسی کی راہ روکنے کی کوشش کی لیکن امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کا پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے اس پر شدید دباﺅ تھا۔ علاوہ ازیں محترمہ شہید کی انتھک کوششوں کے باعث جمہوریت کی بحالی کیلئے بین الاقوامی دباﺅ میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اعتراف کرنا پڑے گا کہ سعودی عرب نواز شریف کی پاکستان واپسی کیلئے بہت دباﺅ ڈال رہا تھا لیکن اب محترمہ شہید تنہا ایک ایسی ناقابل شکست قوت کی صورت اختیار کر چکی تھیں کہ جنرل پرویز مشرف ان کی واپسی کی راہ روکنے میں بے بس ہو گیا۔
یہاں ایک پریس کانفرنس کا ذکر محض یاددہانی کیلئے.... 8 ستمبر 2007ءکو جنرل پرویز مشرف نے لبنانی سیاستدان سعد الحریری اور سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کی آرمی جنرل ہیڈکوارٹر میں ایک بے مثال مشترکہ پریس کانفرنس کرائی جس میں موضوع زیربحث تھا کہ شریف خاندان کی واپسی تعلقات کو کس طرح متاثر کرے گی۔ شہزادہ مقرن نے بتایا کہ ”(جلاوطنی بارے) ابتدائی معاہدہ دس سال کا تھا لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں باہمی تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوں گی“۔ شہزادہ مقرن نے امید ظاہر کی کہ شریف اس معاہدے کا پاس کریں گے (دراصل دو بڑے اور غیرملکی سٹیک ہولڈروں کی اس مشترکہ پریس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد نواز شریف کی واپسی روکنا تھا۔ غیرملکی بااثر شخصیات کی پاکستان میں مشترکہ کانفرنس اور پھر اس کا جی ایچ کیو میں انعقاد، اس سے پہلے کوئی ایسی مثال موجود نہیں) شہزادہ مقرن نے نواز شریف پر زور دیا کہ وہ اپنے پہلے وعدے (2010ءتک جلاوطنی) کا پاس کریں لیکن یہ سب کچھ اس وقت بدل گیا جب نواز شریف نے سعودی عرب کے شاہ کا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اب وہ سعودی عرب میں بھی نہیں تھے اور اب وہ اپنی واپسی کیلئے اپنے بین الاقوامی دوستوں کا اثر و رسوخ اور دباﺅ استعمال کر سکتے تھے۔ دراصل سعودی عرب نے بھی نواز شریف کو پاکستان جانے کے لئے گرین سگنل دے دیا بشرطیکہ جنرل پرویز مشرف اجازت دے دیں۔ بہرحال یہ مرحلہ طے ہو گیا۔ دراصل یہ ایک طرح سے جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف کے درمیان ایک خاموش این آر او تھا۔ یوں نواز شریف کی واپسی ممکن ہوئی جبکہ محترمہ شہید نے اس دوران ملک کو بامعنی انتخابات کیلئے تیار کیا۔
اب ذرا پیچھے کی طرف چلتے ہیں.... جب دونوں رہنماﺅں کی جلاوطنی کے دوران لندن میں 14 مئی 2006ءکو میری رہائش گاہ پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تب ہم سب جلاوطنی میں تھے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے جنرل مشرف کو اقتدار سے ہٹانے پر اتفاق کیا۔ مزید یہ کہ دونوں قیادتیں جلاوطنی کا عذاب بھگت رہی تھیں۔ بہرکیف میثاق جمہوریت ایک ہی دن میں طے نہیں ہو گیا تھا بلکہ اسے موجودہ شکل دینے کیلئے پس منظر میں کئی طول طویل اجلاس ہوئے اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ مجھے پہلی ملاقات یاد ہے جو پارک لین ہوٹل میں ظہرانے پر میرے اور سینیٹر اسحاق ڈار اور غوث علی شاہ کے درمیان ہوئی اور پھر برطانیہ میں ہی ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ ان ملاقاتوں کے بعد محترمہ شہید اور میاں صاحب کے درمیان لندن میں ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی، اس کا اہتمام راقم اور غوث علی شاہ نے کیا۔ میرا تاثر یہ تھا کہ غوث علی شاہ انتہائی ہوش مند شخص ہیں تب ان کا شمار میاں صاحب کے انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ میں اب حیران ہوں کہ میاں صاحب نے انہیں اپنی قریبی ٹیم سے کیوں الگ کر دیا؟ قدرتی طور پر میری خواہش ہے کہ میاں صاحب ایک انتہائی قریبی، دانا اور ہر دکھ سکھ کے ساتھی کو اپنے سے جدا نہ کرتے بلکہ ان کے مفید مشوروں سے مستفید ہوتے۔
میرے اور خواجہ آصف اور میاں شہباز شریف کے درمیان ادھر ادھر اور ایج ویر روڈ پر گاہے گاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مذاکرات صرف ایک ہی نقطے پر مرکوز رہے کہ دونوں جماعتیں جنرل پرویز مشرف کو نکالنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں گی۔ میاں شہباز شریف نے بعض اچھی تجاویز دیں لیکن میاں صاحب کی حتمی منظوری سے مشروط ہوتیں۔ بالآخر ان تمام ملاقاتوں اور مذاکرات کا نتیجہ میثاق جمہوریت کی صورت میں برآمد ہوا۔ میثاق جمہوریت بنیادی طور پر پاکستان کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد اور سیاسی لائحہ عمل تھا۔ اس میں ایسے اقدام تجویز کئے گئے تھے جن کی بدولت جنرل پرویز مشرف کی 1999ءکی بغاوت کے نتیجے میں قائم ہونے والی فوجی حکمرانی کا خاتمہ اور اس کی جگہ جمہوریت بحال کی جا سکے۔ میثاق جمہوریت کے اہم نکات یہ تھے:
1۔ 1973ءکے آئین کی بالکل اسی شکل میں بحالی جیسی کہ یہ اکتوبر 1999ءکی بغاوت سے پہلے تھی۔
2۔ دونوں جماعتیں انتخابات جیتنے کیلئے موجودہ حکمران ٹولے یا بھاڑے کے ٹٹوﺅں سے گٹھ جوڑ ایسے حربے اختیار نہیں کریں گی۔
3۔ عدلیہ، قانون و الیکشن کمشن کو غیرجانبدار بنایا جائے گا۔
4۔ جو بھی پارٹی جیت گئی وہ اپوزیشن کو تنگ کرنے کی بجائے، سیاسی، معاشرتی، اقتصادی، علاقائی اور عالمی امور میں اس سے رہنمائی، تجاویز اور مشورے حاصل کریگی۔ حکمران جماعت کوئی ایسے فیصلے نہیں کرے گی جو (پارلیمنٹ)، پارلیمانی جمہوریت کے منافی ہوں گے۔ اسی طرح اپوزیشن بھی، حکومت کا بات بات پر ناطقہ بند کرنے سے اجتناب کرے گی۔
5۔ ایل ایف او کو منسوخ کر دیا جائے گا اور وہ ضابطے مثلاً جن میں ووٹرز کی کم از کم عمر 18 سال میں اضافہ وغیرہ میں کوئی ترمیم و تنسیخ نہیں کی جائے گی۔
6۔ سول انتظامیہ اور فوج میں پائیدار تعلقات استوار کئے جائیں گے۔ (جاری)