بھارت سرکار نے بالآخر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کی کھل کر مخالفت کر دی ہے اور کہا ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتصادی راہداری روٹ کے کشمیر سے گزرنے پر اسے چینی قیادت کے سامنے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
چینی صدر شی چن پنگ نے دورہ پاکستان کے دوران جب سے 51معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے ہیں‘ بھارت کے پیٹ میں اس وقت سے سخت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ان معاہدوں میں سے تیس سے زائد منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق ہیں اسلئے وہ دہشت گردی و تخریب کاری کے ذریعہ مسلسل اس منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ سانحہ صفورا کراچی اور مستونگ بلوچستان میں مزدوروں کو اغواء کر کے بہیمانہ انداز میں قتل کرنے جیسے واقعات اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو جنوبی ایشیا میں بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور اسے ’’گیم چینجر‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ چینی علاقے کاشغر سے شروع ہونیوالا یہ تجارتی راستہ پاکستانی بندرگاہ گوادر تک پہنچے گا۔ اس راستے کو بنانے میں چین کی دلچسپی یہ ہے کہ آبنائے ملاکہ جو انڈونیشیا اور ملائشیا کو علیحدہ کرتی ہے اور چین سے لے کر ویت نام ،ہانگ کانگ سے تائیوان اور جنوبی کوریا سے جاپان تک تمام ممالک کا تجارتی راستہ ہے اس پر انحصار کم کر کے ایک چھوٹا تجارتی راستہ بنایاجائے تاکہ دنیا بھر میں چینی مصنوعات کم خرچ اور کم وقت میں پہنچ سکیں ۔ آبنائے ملاکہ سے چینی تجارتی سامان کو یورپ اور دیگر منڈیوں تک پہنچنے میں پینتالیس دن لگتے ہیں جبکہ کاشغر تا گوادر اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد یہ سفر کم ہو کر دس دن کا رہ جائیگا۔پاکستان کو اس راہداری سے یہ فائدہ ہوگا کہ دہشتگردی اور بد امنی کا شکار یہ ملک تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہو کر معاشی ترقی کر سکے گا اور ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک تک کا سفر تیزی سے طے ہو گا ۔ چین نہ صرف گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری کی تکمیل چاہتا ہے بلکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ مل کرا سی طرح کے سمندری تجارتی راستے بھی کھولنا چاہتا ہے۔ یہ منصوبہ معاشی استحکام کے علاوہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان اوردیگر علاقوںمیں جاری علیحدگی کی تحریکوں کیلئے بھی زہر قاتل ثابت ہو گا کیونکہ معاشی استحکام آنے سے یہ تحریکیںبہت حد تک خود بخودکمزور ہو جائینگی۔ راہداری منصوبہ سے تمام صوبوں کو فوائد ملیں گے اور اس سے ملک میں امن و خوشحالی آئے گی یہی وجہ ہے کہ اس منصوبہ کے اعلان پر بھارت کے اوسان خطا ہیں اور وہ ہر صورت اسے ناکام دیکھنا چاہتا ہے۔ اسکی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس مسئلہ کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنا دیا جائے۔
انڈیا کی طرف سے راہداری منصوبہ کی مخالفت بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ مشرقی پاکستان کو دولخت کرنے والے بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اورہر وقت پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی سازشیں کی ہیں۔ اس لئے اب بھی وہ اپنی ان مذموم حرکتوں سے کسی صورت باز نہیں آئیگا۔ اب تو یہ خبریں بھی کھل کر منظر عام پر آچکی ہیں کہ انڈیا نے راہداری منصوبہ ناکام بنانے کیلئے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا ہے جس کا کام ہی اس منصوبہ کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے قتل و خون بہانا ہے۔ اس مقصد کیلئے وہ کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ بھارتی قیادت کی طرف سے پاک چین راہداری منصوبہ کی مخالفت عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ ا نڈیا کا اس راہداری منصوبہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسکے باوجود یہ منصوبہ اسے برداشت نہیں ہو رہا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی آنیوالے چند دنوں میں اسرائیل جارہے ہیں‘ یہ کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہو گا۔ 2000ء میں بی جے پی کے ہی سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ اسرائیل کا دورہ کرنیوالے پہلے بھارتی حکومتی عہدیدار تھے۔ 2003ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا اور پھر یہ تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے اور پاکستانی سرحد پر باڑ لگانے سمیت حساس سینسرز لگانے میں اسرائیل نے بھارت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ہے۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تباہی سے دوچار کرنے کیلئے بھی اسرائیلی طیارے سری نگر میں تیار کھڑے تھے کہ پاکستان نے بروقت معلوم ہونے پر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ ان حالات میں بھی جب پاک چین راہداری منصوبہ سے پورے خطہ میں ترقی کی لہر دوڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فوری طور پر اسرائیل جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا یہ دورہ خطہ کے موجودہ حالات کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔بھارت کی پوری کوشش ہو گی کہ پاک چین راہداری منصوبہ کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے وہ اسرائیل کا بھرپور تعاون حاصل کر سکے۔ پاکستان دشمنی میں یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے بڑھ کر مکروہ عزائم رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بھارتی خفیہ ایجنسی را کی دہشت گردی بے نقاب کرنے کیلئے بھرپور سفارتی مہم چلائے اور بلوچستان، سندھ و دیگر علاقوں میں اس کے بھیانک کردار کو پوری دنیاکے سامنے لایا جائے۔اسی طرح ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، لسانیت اور صوبائیت پرستی کے فتنوں کو ختم کر کے ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر پاک چین راہداری منصوبہ اور وطن عزیز پاکستان کی سلامتی و استحکام کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024