سولہ کھرب کا خسارہ اور الہ دین کا چراغ
بجٹ 2014-15ء کے لئے متوازن ‘ متناسب اور موجودہ حالات میں اس سے بہتر بجٹ نہ بننے کے حکومتی دعوے کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ حکمران یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ غریب عوام کا سب سے بڑا مسئلہ روٹی ‘ کپڑا اور مکان ہے میٹرو بس‘ میٹرو ٹرین موٹروے نہیں لیکن شاید حکمرانوں کے کان ان کی پکار سننے اور زمینی حقائق جاننے کے لئے تیار ہی نہیں اور ان کی ترجیحات غیر ملکی دورے اور بڑے بڑے منصوبوں کی تختیاں لگانا رہ گیا ہے کم آمدنی والے غریب اور سفید پوش طبقے کی مشکلات کا اسے اندازہ ہی نہیں وہ اپنے من پسند خوشامدیوں سے تالیاں اور ڈیسک بجوا کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ کیا عوامی خدمت کے دعویداروں کو معلوم نہیں کہ صرف ایک سال کے دوران مہنگائی کے تناسب میں دو سو فیصد ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ عوام کے لئے زندگی کی ڈور سے ربط رکھنا کار دشوار ہو چکا ہے۔ ایسی خبروں سے کلیجہ شق ہونے لگتا ہے کہ بارش اور بجلی سے گرنے والے مکان کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہونے والے کمسن بہن بھائیوں کو دفنانے کے لئے ان کے بدقسمت اور لاچار باپ کے پاس کفن تک کے پیسے نہیں تھے لیکن بدقسمت اور مجبور عوام کی چیخیں فلک بوس شاہی محات کی سنگ مر مر کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہیں۔ حکومت ایک جانب تو خود مقررہ اہداف پورے نہ ہونے کا اعتراف کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب اس کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ ہے جس کے رگڑتے ہی چھتیس کھرب کے بجٹ میں سولہ کھرب روپے کا خسارہ وہ چشم زدن میں پورا کرنے کا ہدف حاصل کر لے گی۔
ؒوفاقی بجٹ کسی بھی ملک کی اقتصادی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔بجٹ سے عوام کی حالت زر اور برآمدات اوردرآمدات کے اعدادو شمارسے اُس ملک کی پالیسیوںکی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔پاکستان میں وفاقی بجٹ پچھلے عشروں میں حکومت کے آنے جانے کے حوالے سے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں بجٹ کے وقت شدید دبائو میں نظر آتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بھی تبدیل ہوتے گئے۔موجودہ بجٹ کو عام آدمی کا بجٹ یا غریب کا بجٹ ہر گز نہیں کیا جا سکتا۔اسحاق ڈار نے خود اعتراف کیا کہ مہنگائی 8.5 فیصد بڑھ گئی ہے۔ٹیکس کی مد میں حکومت کو 16 فیصد زیادہ آمدنی ہوئی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے 16 فیصد زائد ٹیکس وصولی کا ریلیف پاکستان کی غریب عوام کو ملنا چاہیے تھاجو کہ موجودہ بجٹ میں نظر نہیں آیا اور غریب کے لیے کسی رعایت یا پیکج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے کہاکہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے گااور ٹیکس نہ دینے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی لیکن اُس کا میکا نزم بتانے سے گریز کیا گیا کہ ایسے ٹیکس نیٹ کو کیسے بڑھایا جائے گا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف ہمیشہ سیل ٹیکس کو سنگل ڈیجٹ میں لانے کا کہا کرتے تھے لیکن بجٹ میں اس کے برعکس نکلا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے صنعت کاروں کے ساتھ مل کر میثاق ٹریڈ ایکسپورٹ بھی بنایا جائے جس میں پانچ سال کے لیے ایک روڈ میپ طے کیا جائے تاکہ صنعت کاروں کو پتہ ہو کہ ہم نے ملک کس طرح اقتصادی ترقی کی راہ پر چلانا ہے۔حکومت نے یو پی ایس پر 15 فیصد ڈیوٹی عائد کی ہے جوکہ ظلم کے مترادف ہے۔وہ ملک جو شدید بجلی بحران کا شکار ہو اور اندھیروں میں ڈوبا ہووہاں پر عام آدمی کو ریلیف دینا تو کجا بلکہ بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چیزوں پر ڈیوٹی نا قابل فہم ہے۔
سمگلنگ روکنے سے ناکامی کی وجہ سے importer کو شدید دشواری کا سامنا ہے اور اس کی وجہ سے ٹیکس کولیکشن میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ۔حالیہ بجٹ کے نتیجے میں 32 فیصد سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ شدید مہنگائی کا باعث بنا ہے۔حکومت نے سیٹلا ئٹ فون پر ڈیوٹی شرح 25 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کر دی جوکہ سمجھ سے بالا تر ہے۔حکومت نے دوکانداروں کو دو کیٹگری میں تقسیم کرکے انوکھا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔بجلی کے بل کی بنیاد پر سیل ٹیکس عائد کیا جائے گا۔مطلب یہ کہ اگر دکاندار 50 ہزار روپے سے بجلی کا بل کم کر لیں تو وہ کیٹگری بی میں چلا جائے گااور اس کو ٹیکس کم ادا کرنا پڑے گا ،چاہے اس کا ٹیکس کتنا ہی زیادہ نہ بنتا ہو۔ہوائی سفر کے لیے اکنامی پر 1160 اور فرسٹ کلاس کے لیے 3160 روپے ٹیکس ادا کیا گیاجوکہ بلا وجہ ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اُس کی ایکسپورٹ میں پنہاں ہیپاکستان کی حکومت نے صنعت کاروں یا ملکی برآمدات کے اضافے کے لیے کسی مشینری کی ڈیوٹی کو کم نہیں کیااور نہ ہی ریبیٹ کا اعلان کیا گیا ہے بلکہ بجلی کے انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے بین الا اقوامی مارکیٹ مین ہماری اشیاء بھارت ،بنگلا دیش کے مقابلے میں نسبتاً مہنگی ہیں جس سے ایکسپورٹ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسحاق ڈار نے اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے 220 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے ہیں۔
عوام کی خوشحالی اور چکا چوند روشنیوں کا مژدہ سنانے والی حکوت نے عوام پر درجنوں ٹیکسوں کی موجودگی میں ایک اور نیا انوکھا ایڈوانس ٹیکس بھی متعارف کرایا ہے، پراپرٹی کی خرید اور ٹرانسفر پر حکومت کا اقتصادی سروے بتا رہا ہے کہ گندم‘ آلو‘ ٹماٹر‘ پیاز اور پھلوں کی پیداوار اس عرصہ میں کم ہو گئی جبکہ نتیجہ میں ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ سروے میں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد پچاس فیصد ہے جبکہ بین الاقوامی تجزیاتی رپورٹس نے یہ تعداد 59 فیصد بتائی ہے عوامی خدمت کے دعویدار حکمرانوں کے لئے ہردوسرے آدمی کا غریب ہونا کچھ کم تشویشناک اور بڑے انسانی المیہ سے کم نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ کا تین سو اکتیس ارب روپے ٹیکس وصولیوں میں ناکام رہنے کا اعتراف اس امر کی پکی دلیل ہے کہ عوامی خدمت کی دعویدار حکومت عوام کو کس حد تک ریلیف دینے میں کامیاب رہی ہے جو دو ڈالر یومیہ سے بھی کم آمدنی رکھتے ہوئے غربت اور مشقت کی چکی کے دونوں پاٹ میں بری طرح پس رہے ہیں جبکہ حکومت افراط زر سنگل ڈیجیٹ میں رکھنے کا مژدہ سنا رہی ہے۔ بجٹ میں قرضوں اور سود کی ادائیگی کو اولیت دی گئی جبکہ امیر طبقہ کی مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ عوامی سہولیات سے عاری اس بجٹ کو عوام دشمن بجٹ ہی کہا جا سکتا ہے اور حکومت عوام کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کر مطمئن نہیں کر سکتی۔