ان کا کوئی بھروسہ نہیں
ہم نے سوچا تھا کہ ایک دفعہ جوہری طاقت ہوجائیں گے تو کوئی ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ ایک طرح سے ہمارا اندازہ تو درست تھا مگر ہمیں جن مکا ر دشمنوں کا سامنا ہے وہ کبھی سامنے سے وار نہیں کرتے۔یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں شور مچا تھا کہ طالبان بس اسلام آباد تک آگئے ہیں اور کسی بھی دن ان کا رخ کہوٹہ کی طرف ہوگا۔ پوری دنیا میں ایک مہم چلائی گئی کہ جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھوں میں پہنچا ہی چاہتے ہیں اور پورا یورپ اور امریکہ ان کا ہدف ہوگا۔کسی نے نہیں پوچھا کہ ان ایٹمی ہتھیاروں کی مار کتنے فاصلے تک ہے اور امریکہ تو چھوڑیئے کیا یورپ کا کوئی ملک بھی ان کا نشانہ بن سکتا ہے یا نہیں۔ایسا لگتا تھا کہ ایٹمی ہتھیار نہیں کوئی دستی بم ہے کہ طالبان جیب میں ڈال کر یورپ لے جائیں گے اور پھلجڑیوں کی طرح شہر شہر پھوڑتے پھریں گے۔اصل میں جب مغربی میڈیا کسی مہم کو چلانے لگے تو موجودہ دور کے ابلاغ عامہ کے ہتھیاروں کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔اس معاملے سے تو ہم کمال ہوشیاری سے نکل آئے مگر اب لگتا ہے کہ ہدف تو وہی ہے بس منصوبہ ذرا بدل گیا ہے۔ اندازہ ہو گیا ہے کہ ہمارے جوھری ہتھیاروںپر سامنے سے وار نہیں ہوسکتا تو ترکیب نمبر ۲ پر عمل کیا جارہا ہے۔ لگتا ہے ہمارے دشمن ساری توانائیاں اس مہم پر صرف کررہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو اس قدرنقصان پہنچایا جائے کہ خدانخواستہ پورے ملک میں افراتفری پھیل جائے اور پاکستان ان ہی ممالک کا دست نگر ہوجائے جو کافی عرصے سے اس ملک سے اپنے جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔موجودہ حکومت بار بار ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ ملک کی موجودہ اقتصادی صورت حال کی ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر ہے اور خاص طور پر اس لوٹ مار پر ہے جو ماضی کی حکومتوں کے دور میں جاری تھا۔اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ موجودہ حکومت اب دو سال سے حکومت کررہی ہے تو ابتدائی دنوں میں تو عوام نے ان کے اس استدلال کی تائید کی اور اس بات کی امید لگا کر بیٹھ گئے کہ نئے حکمراں جہاں ایک طرف ماضی کے بقول ان کے کرپٹ حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لیں گے وہاں معاشی طور پر ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ یہ امید اس لئے بھی لگائی گئی کہ ڈی چوک کے دھرنوں میں بلند و بانگ دعوے کیئے گئے اور اس بات کا اعلان کیا گیا کہ گویا تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی اوراربوں روپے تو صرف اس کرپشن کے بچائے جائیں گے جو بقول خان صاحب کے اس وقت زور و شور سے جاری تھی۔ایک بات جس کا ذکر کرنا ضروری ہے وہ اعداد و شمار ہیں جن کو بلا تحقیق تمام نشریاتی اداروں نے دن رات نشر کیا اور اسی سے عام آدمی کو امید نظر آئی کہ جب خان صاحب یہ سب کرپشن روک دیں گے تو ملک میں تو دودھ کی نہریں بہہ رہی ہونگی۔غربت کا خاتمہ ہوگا۔روزگار کے بے پناہ مواقع ہونگے اور سب کے سر پر چھت کا بندوبست ہوگا۔اگر کوئی ایک بھی نشریاتی ادارہ صرف بد عنوانی کی مد میں لوٹے جانے والے اربوں روپے کی تحقیق کرتا اور خان صاحب اور ان کے ساتھیوں سے ان اعداد و شمار کے حتمی ثبوت مانگتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی اسی وقت ہوجاتا اور قوم اس عذاب سے نہ گزرتی جس سے وہ اس وقت گزر رہی ہے۔ کسی بھی نشریاتی ادارے کا خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کے پھینکے گئے اعداد و شمار کی تحقیق نہ کرنے میں اس بات کا بھی بڑا دخل ہے کہ پاکستان میں ہتک عزت کا کوئی ایسا قانون موجود نہیں جس میں کسی بھی الزام لگانے والے کے الزام کی فوری جانچ ہوسکے اور اسے جھوٹا ثابت ہونے پر کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔اس ایک قانون کی عدم موجودگی نے ہمارے معاشرے کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔کسی بھی شام بیٹھ کر نشریاتی اداروں کو سنیئے تو ہر جگہ کوئی بقراط بلا خوف و خطر ان لوگوں کے بارے میں جو اس کی نظر میں ناپسندیدگی کا درجہ رکھتے ہیں دل کھول کر الزام تراشی کررہا ہوتا ہے کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ اس سے ان تمام فرمودات کے بارے میں کسی عدالت میں جواب طلب نہیں کیا جائے گا اور اگر کر بھی لیا گیا تو معاملہ کئی سال پر کھنچ جائے گا اور اس کے بعد بھی سزا ملنی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔یہ ایک خطرناک رحجان ہے جس کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ جہاں ایک طرف رہنمائوں کی کردار کشی ہورہی ہے تو دوسری طرف قوم کی رگوں میں نفرت کا ایسا زہر گھولا جارہا ہے جس کے منفی نتائج نے ہماری سیاسی زندگی کی چولیں ہلا کررکھ دیں ہیں۔خیر تو ذکر یہ ہورہا تھا کہ ڈی چوک کے الزامات نے لوگوں کو سنہرے خواب دکھائے اور اس ملک کے عوام نے بڑے چائو کے ساتھ خاں صاحب کو منزل مقصود تک پہنچایا۔ایک تو خان صاحب وہ پیسہ نہ بچا سکے جس کی نوید سنائی تھی کیونکہ اب اندازہ ہورہا ہے کہ وہ سب اقتدار کی دوڑ میں آگے آنے کے لئے شارٹ کٹ تھا جس کا اصلیت سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں اور اگر ہوتا تو اس وقت ہمارے خزانے بھرے ہوتے اور عوام کو پیٹرول پچاس روپے لیٹر مل رہا ہوتا۔نہ تو کسی کرپشن کا کوئی پیسہ بچا اور نہ خان صاحب کوئی منصوبہ لے کر اقتدار میں آئے تھے۔ وہ اور ان کی جماعت تو بس اس طرح اقتدار میں آگئی جیسے کسی کی لاٹری نکل آئے۔اصل میں ان کو معلوم تھا کہ یہ کبھی اقتدار میں نہیں آسکتے اور اس بات کی امید نہیں تھی کہ کوئی ان کی انگلی پکڑ کر ایوان اقتدار تک پہنچا دیگا مگر پاکستان میں تو اس قسم کے معجزے ہوتے رہے ہیں اور خان صاحب کی بھی قسمت کھل گئی۔ اب یہ بھی نہیں کہ صرف ان کی پارٹی کے وہ لوگ جنہوں نے ۲۲ سال خاک چھانی تھی ان کے ساتھ ہوتے تو بھی شاید نتائج بہت بہتر ہوتے۔ ان کے ساتھ تو پچھلی حکومتوں کے ابن الوقتوں کی فوج ظفر موج تھی جنہیں معیشت وغیرہ کچھ نہیں آتی بس ہر آنے والے کے ساتھ چپکنا اور اسے اس وقت تیزی کے ساتھ چھوڑنا آتا ہے جب انہیں اندازہ ہوجائے کہ اس کے دن پورے ہوگئے ہیں جیسا اس وقت ہورہا ہے۔نتیجہ ہمارے اور آپ کے
سامنے ہے۔صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت میں شامل خواتین اورحضرات جب سے آئے ہیں معیشت کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں اس وقت پاکستان کی معیشت انتہائی خطرناک موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے۔جو جماعت قرض لینا گناہ سمجھتی تھی اس نے اب قرض لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور لگتا ہے کہ اس کے پاس پاکستان کے ہر معاشی مسئلے کا حل کچھ اور قرضہ لینا ہے چاہے کہیں سے ملے اور کسی دام میں ملے۔ اسی لئے اس وقت پاکستان اور اس کا جوہری پروگرام خطرناک ترین موڑ پر آ پہنچا ہے۔ ہم پہلے ہی ایک ایسی صورت حال تک پہنچ چکے ہیں جہاں اب ہماری حکومت بین الاقوامی معاشی اداروں جیسے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مکمل قبضے میں ہے اور اس وقت ملک کے اہم ترین معاشی شعبہ جات ان اداروں کے کنٹرول میں ہیں اور جو کچھ وہ چاہ رہے ہیں وہ معاشی پالیسیاں ہمارے اوپر تھوپ رہے ہیں۔دوسری طرف حکومت کا بس ایک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ حکومت کیسے بچائی جائے چاہے اس کے لئے کسی کے بھی آگے سر تسلیم خم کیا جائے۔خاں صاحب کی حالیہ تقاریر اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب ان کے پاس بھی ایک ہی ہدف رہ گیا ہے کہ اپنی حکومت بچائیں اور اسی لئے انہوں نے حال ہی میں اپنی پارٹی کو بھی خبر دار کیا کہ کوئی ان کے بغیر حکومت کا سوچے بھی نہیں۔ یہ بھی ایک عجیب منظر تھا کہ جب کسی پارٹی کا سربراہ خود ہی اعلان کررہا تھا کہ میرے بغیر اقتدار کا سوچنا بھی نہیں۔ نہ جانے یہ دھمکی تھی یا التجا مگر ہمیں تو دنیا میں ایسے رہنما بھی یاد ہیں جیسے جمال عبدالناصر جنہوں نے بلا جھجک استعفیٰ دے دیا اور پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا اور لوگوں نے سینہ پیٹ پیٹ کر اعلان کیا کہ وہ اس استعفے کو نا منظور کرتے ہیں اور جب تک گھروں کو نہیں جائیں گے جب تک جمال ناصر اپنا استعفیٰ واپس نہیں لیتے۔خیر ایسے رہنما تو اب ناپید ہیں ہمیں تو فکر پاکستان کی اور روز بروز اس کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کی ہے جو ہمارے ایٹمی اثاثوں کے لئے ایک خطرہ ہے۔آپ نے دیکھا کہ حکومت کے ایک وزیر کے غیر ذمہ دارانہ بیان نے ہمارے پورے ہوابازی کے نظام کو پوری دنیا میں مشکوک بنادیا۔خدا خیر کرے اب کوئی اور وزیر ہمارے جوہری ہتھیاروںکی حفاظت کے بارے میں لب کشائی نہ کردے۔ان کا کوئی بھروسہ نہیں۔