تبدیلی مُک گئی؟
ملک میں درجہ حرارت اپنی انتہاکو پہنچا ہوا ہے، گرمی کی شدت نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اوپر سے لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا حرام کردیا ہے‘ ویسے تو سیاست کا بھی درجہ حرارت اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ افواہوں کابازار گرم تھا کہ وزیراعظم نے مائنس ون کا بیان دے کر اس کو اور تقویت پہنچادی ہے۔ اب جو لوگ دبے لفظوں میں کہہ رہے تھے اب کھلے عام پوچھ رہے ہیں کہ ’’کیا تبدیلی مُک گئی؟‘‘تبدیلی کا نعرہ ختم ہوا یا نہیں … مگر عوام میں صبر و استقلال کا عنصر ضرور ختم ہونے کو ہے۔ یہ بات اب بالکل واضح ہوچکی ہے کہ عمران خان نے جتنے بھی سبز باغ عوام کو دکھائے تھے وہ سب زمین بوس ہوچکے ہیں۔ عمران خان جب کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے تو انہیں سخت گیرکپتان تصور کیا جاتا تھا۔ اُن کے بارے میں ہمعصر کرکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر وہ کوئی فیصلہ کرلیں تو اُسے کرگزرتے ہیں۔ اُس کے لئے چاہے کتنا ہی بڑا خطرہ مول کیوں نہ لینا پڑے؟ یہ حقیقت ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ شیر ہمیشہ شیر نہیں رہتا۔ جوان ہمیشہ جوان نہیں رہتا۔ اِسی طرح ایک وقت حوصلے اور ولولے بھی مدھم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ جوش و جذبہ ماند پڑجاتا ہے۔ عمران خان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ وہ اس خبط میں تھے کہ جس طرح انہوں نے ورلڈ کپ جتواکر ملک و قوم کا نام روشن کیا، اُسی طرح وہ وطن عزیز کو دو خاندانوں کی بادشاہت سے نجات دلوائیں گے۔ بظاہر تو نیت بہت اچھی تھی مگر اعمال کا دارومدار نیت پر ہی تو ہوتا ہے۔ لگتا ہے شاید نیت میں کچھ فتور تھا یا کسی نے اُنہیں بھی سبز باغ دکھائے ہوں گے۔ عمران خان جس ویژن کو لے کر عوام میں آئے تھے، اس کا ایک فیصد بھی پورا نہیں ہوسکا۔ احتساب کے نام پر تماشہ تو بہت لگایا گیا مگر کیا فائدہ ایسے تماشے کا جس کا اختتام بے کار ہو۔ اسکرپٹ میں تبدیلی نہیں کی جارہی۔ ایک ہی گھسا پٹا اسکرپٹ ستر سالوں سے عوام کو دکھایا جارہا ہے۔ جسے دیکھ کر اب عوام شدید اُکتاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ کچھ ایڈونچر شامل کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ فلم فلاپ ہونے کا قوی امکان ہے۔فلم سے یاد آیا ہمارے حکمرانوں اور اُن کے چیلوں کو آسکر ایوارڈ کیلئے نامزدگی حاصل کرنی چاہیئے۔ گھسے پٹے اسکرپٹ پر بھی ایسی لاجواب اداکاری کرتے ہیں کہ ہالی ووڈ کے اداکار بھی شرما جائیں۔ میڈیا پر تو ان سے بڑا کوئی ہمدرد و غم گسار کوئی نہیںمگر اندرونِ خانہ عوام کے حقوق پر ہر طرح سے ڈاکہ ڈالنا اپنا نصب العین سمجھا ہوا ہے۔ کسی بھی انسان کے لئے لیڈر بننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لیڈر بنتے نہیں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر میں اس بات کوقطعی درست نہیں سمجھتا۔ لیڈر بنتے ہیں، پیدا نہیں ہوتے۔ معاشرہ بناتا ہے، اُس کی تلخیاں بناتی ہیں، عوام کے دکھ درد کا احساس ایک انسان کو لیڈر بناتا ہے۔ جو پیدا ہوتے ہیں وہ لیڈر نہیں صرف کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں۔ لیڈر بننے کیلئے آپ کو ہر موڑ پر مشکل سے مشکل فیصلے لینے پڑتے ہیں اور ایسے فیصلے جن سے کبھی یوٹرن نہیں لیا جاسکتا۔ بائیس سال کی سیاسی جدوجہد نے عمران خان کو ایک سیاستدان تو بنادیا مگر افسوس وہ ایک رہ نما نہیں بن سکے۔ رہ نما عوام کو ایک سمت متعین کراتا ہے۔ آج تو ہمارے شعبۂ صحافت کے جیّد لوگ بھی افسوس کا اظہار کررہے ہیں کہ عمران خان اپنی مسلسل غیرتسلی بخش کارکردگی کی بدولت اپنی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے نیچے گرارہے ہیں۔ ’’ایک ڈاکو تھا جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ لوٹ مار کیا کرتا تھا۔ جب وہ مرگیا تو اُس کے بیٹے کو سردار بنالیا گیا۔ اُس کے بیٹے نے سوچا کہ میں کچھ ایسا کروں کہ لوگ میرے باپ کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ تو وہ لوٹ مار تو کیا کرتا ہی تھا مگر اُس کے ساتھ ساتھ عوام کے بدن سے کپڑے بھی اُتروا کر لے جاتا تھا۔ لوگ کہتے تھے تجھ سے اچھا تو تیرا باپ تھا جو ہمارے جسم پر کپڑے تو رہنے دیتا تھا۔ ‘‘یہی حال کچھ عمران خان حکومت کررہی ہے۔ جو عوام نواز اور زرداری کو کوس رہے تھے اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ عمران سے اچھے تو زرداری اور نواز ہی تھے۔ عمران خان جس قدر مضبوط اعصاب کے مالک تصور کیئے جاتے تھے وہ اتنے ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ مشکل فیصلے لینے کی
بات تو کرتے ہیں مگر مشکل فیصلے لینے سے بہت کتراتے ہیں اور یوٹرن لے لیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اپنے ہی فیصلوں پر یوٹرن لینے والے وزیراعظم کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ چینی بحران ہو یا، پیٹرولیم بحران۔ رپورٹ پر رپورٹ مگر کارروائی صفر۔ پیٹرول کی قیمتیں کم کرکے عوام کو خوش کیا اور پھر یک دم مافیاز کے دبائو میںآ کر پیٹرول کی قیمتیں دوبارہ سے وہ ہی کردی گئیں۔ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی بھی اپنی موت ہی آپ مرگئی۔ دوائوں کی قیمتوں کا تعین بھی نہیں ہوسکا۔ اشیائے خوردنوش، دودھ اور مرغی گوشت کی قیمتوں میں بھی من مانا اضافہ کیا جارہا ہے۔ مگر حکومت کا کردار خاموش تماشائی کے سوا کچھ نہیں۔ قیمتوں کے بڑھانے سے اربوں روپے کمانے والے ان مافیاز کو صرف ہزاروں روپے کا جرمانہ لگایا جاتا ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دیئے جانے والے ٹیکسوں سے انہی مافیاز کو سبسڈی فراہم کی جارہی ہے۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ عمران خان کی حکومت اور ماضی کی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور شاید ماضی کی حکومتیں عمران حکومت سے کچھ بہتر ضرور تھیں۔ حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ شُنید یہی ہے کہ عمران خان کاجانا ٹھہر گیا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے لئے مختلف ناموں پر لابنگ بھی شروع ہوچکی ہے۔ جس میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور محمد میاں سومرو کا نام خبروں میں گردش کررہا ہے۔ تاریخ کے طالبعلم جانتے ہیں کہ جو نام دئیے جاتے ہیں وہ صرف خام خیالی ہی ہوتے ہیں۔ قرعہ تو کسی انجان شخص کے نام ہی نکل پڑتا ہے۔