بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
ایک ایسے وقت میں جبکہ سیکیوریٹی ایجنسیاں،پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر دہشت گردوں کے حملے کی گتھیاں سلجھانے میں منہمک ہیں اور حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے حالات و واقعات کے تانے بانے جوڑنے میں مصروف ہیں،گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایک سنسنی خیز انکشاف کرکے سب کو انگشت بدنداں کردیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سب کا کام آسان کردیا ہے۔قوم نے بھی اطمینان کا سانس لیا ورنہ نہ جانے کب تک وہ گومگو کی کیفیت میں رہتی۔یہ حملہ جس میں چاروں دہشت گردماردیے گئے تھے29جون کو ہواتھا۔ہمارے پولیس اہل کاروں،رینجرز اور سیکیوریٹی گارڈز نے بے جگری سے اس کو ناکام بناکربہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔پانچ نے تو جامِ شہادت بھی نوش کیا۔وزیراعظم عمران خان نے درست کہا کہ ملک ایک بڑے سانحے سے بچ گیا۔وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے بقول اگر دہشت گرد(خدانخواستہ)اپنے عزائم میں کامیاب ہوجاتے تو ورلڈ ٹریڈ سنیٹر پر حملے سے بھی بڑانقصان ہوسکتا تھا۔ایسی ہرواردات کے بعد پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس بزدلانہ کارروائی میں کون ملوّث تھا؟اس سوال کا انتہائی تسلّی بخش جواب ہمارے گورنرصاحب نے عنایت
فرمادیا ۔موصوف حملے والے دن عمرکوٹ میں تھے۔ انھوںنے وہیں سے،اُسی دن یہ اعلان جاری کیا ،جو دوسرے دن تمام اخبارات میں نمایاں طورپر شائع ہوا، کہ’’اسٹاک ایکسچینج حملے میں ملک دشمن عناصر ملوّث ہیں۔‘‘ ع اﷲتیری شان کے قربان جائیے۔گورنر صاحب کتنے دُور کی کوڑی لائے ہیں۔اس طرف تو کسی کا بھی دھیان نہیں گیا تھا۔سیکیوریٹی ادارے بلاوجہ سی سی ٹی وی فوٹیج،جیو فینسنگ دہشت گردوں کا لایا ہوا(غیر استعمال شدہ)اسلحہ،ان کی گاڑی کے رُوٹ وغیرہ میں الجھے ہوئے تھے۔ایک دُور اندیش ،متین اور ذہین لیڈر ہمیشہ ایسے نازک موقعوںپر ریاستی اداروں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے جو ہمارے گورنر صاحب نے کی۔انھوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر دوسرے دن کراچی پہنچنے پر ارشاد فرمایا کہ’’ یہ پاکستان کی سا لمیت کے خلاف ایک سازش تھی۔‘‘بجا ارشاد ع تری آواز مکّے اور مدینے۔ہم جیسے بھولے بادشاہ تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بس یہ ایک حادثہ تھا جو ہوتے ہوتے رہ گیا۔دراصل ہم عام لوگ گہرائی میں جاکر چیزوں کو نہیں دیکھتے۔علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ع جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا۔عمران اسماعیل صاحب نے اس سازش کے بارے میں یہ انکشاف کرکے بھی سب کو چونکا دیا کہ’’ اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔‘‘یہاں پھر ہم جیسے ظاہربِین سے چُوک ہوگئی۔ہم سمجھ رہے تھے کہ دہشت گرد آئی آئی چندر یگر روڈ پر اچھے خاصے جارہے تھے کہ انھوں نے اچانک گاڑی اسٹاک ایکسچینج میں داخل کرنے کی کوشش کی۔وہ بدبخت خود بھی مرے اور ہمارے بھی پانچ بہادر،قابلِ فخر اور فرض شناس پاکستانیوں کی شہادت کا سبب بھی بنے۔کوئی کچھ بھی کہے،ہم تو اپنے گورنرصاحب کی روحانیت کے قائل ہوگئے۔ویسے تو تبدیلی سرکار میں پہلے ہی روحانیت کو بہت اہم بلکہ کلیدی اہمیت حاصل ہے۔وزیراعظم صاحب صوفیۂ کرام سے خاص الخاص عقیدت رکھتے ہیں جس کا اظہار وہ مزارات پر حاضری کے ذریعے کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی ہم نے دیکھا کہ آج کل وہ اپنے ہاتھ میں تسبیح رکھنے لگے ہیں۔وہ لوگوں سے باتیں بھی کرتے رہتے ہیں اور تسبیح بھی گھماتے رہتے ہیں۔بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ ذکر اذکار کے لیے تو یکسوئی درکار ہوتی ہے۔ایسی محدود سوچ کے حامل حضرات کو ہم سمجھاتے ہیں کہ یہ تصوف کا اعلیٰ ترین مقام ہے کہ’’دست بہ کار،دل بہ یار۔‘‘یہ اُس روحانیت سے تو بدرجہابہتر ہے کہ جب تک زرداری صاحب ایوانِ صدر میں رہے،کالے بکروں کی جان پہ بنی رہی۔یوسفی صاحب نے’’زرگزشت‘‘میں لکھا ہے’’جھنگ کے علاقے میں یہ دستور ہے کہ کوئی بڑابوڑھا مرجائے تو اس کے پسماندگان،برادری کو چالیس دن تک مرغے کھلاتے ہیں(اگر کوئی جوان موت ہوجائے تو چہلم تک دال کھلائی جاتی ہے)...چنانچہ کسی بڈھے کو زکام بھی ہوجائے تو گائوں کے سارے مرغے سہمے سہمے پھرتے ہیں،اذان دینی چھوڑدیتے ہیں۔‘‘ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے(اور نہ کسی نے سمجھایا)کہ صدقہ،خیرات ،عملیات وغیرہ میں ہمیشہ کالا مرغا یا کالابکرا ہی کیوں استعمال ہوتا ہے؟عامل حضرات کالے مرغے کے خون ہی سے تعویذ کیوںلکھتے ہیں؟ حالانکہ خون تو سفید مرغے کا بھی لال ہوتا ہے...سفید خون تو بعض انسانوں کا ہوجاتا ہے۔زرداری صاحب نے سیکڑوں بکرے کٹوادیے مگر نتیجہ کیا نکلا؟ایوانِ صدر سے ایسے نکلے کہ دوبارہ داخلہ نہ مل سکا(شاید بکروں کی بددعا لگی ہوگی۔)اور تو اور،کالے بکرے پی آئی اے کے جہازوں کے بھی کام نہ آسکے۔چشمِ فلک نے یہ منظر صرف وطنِ عزیز میں دیکھا کہ رن وے پر بکرے ذبح ہورہے تھے مگر پی آئی اے کا مالی خسارہ برقرار رہا۔حادثے ہوتے رہے اور اب تو پورے یورپ(اور دنیا کے چند دیگر ممالک) میں بھی پی آئی اے کی فلائٹس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔گذشتہ ہفتے ہمارے ایک دوست کے پیر صاحب کا انتقال ہوا۔ہم نے فون پر ان سے اظہارِ تعزیت کیا۔انھوں نے ہمیں مطلّع کیا کہ پیر صاحب کے قبضے میں ایک جِنّ تھا۔ہم نے ’’ماشا ئَ اﷲ‘‘کہا۔انھوں نے بتایا کہ اُس جِنّ سے انھوں نے بہت سے کام لیے۔ہم نے کہا’’سبحان اﷲ‘‘۔وہ بولے’’ایک بار میرے سامنے ایک صاحب کا غذ پر اپنا مسئلہ لکھ کر ان کے پاس لائے۔پیرصاحب نے فرمایا’تمھاری جیب میں جو کاغذ ہے اُسے جلا دو۔‘یہ کہہ کر انھوں نے آنے والے کی طرف ماچس پھینکا جس سے انھوں نے کاغذ کوجلا کرراکھ کردیا۔اس کے بعد پیر صاحب نے وہ سب کچھ بتادیا جو اُس کاغذ میں لکھا ہوا تھا۔‘‘ ہم ٹھہرے ایک نمبر کے بد عقیدہ ہیں۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ہم نے ان سے کہا’’کبھی آپ نے بھی اس طرح پیر صاحب کو آزمایا؟‘‘ان کا جواب تھا’’توبہ توبہ ،میری یہ مجال!‘‘ہم نے کہا’’ایسی بات تھی تو پیر صاحب نے اپنے جِنّ کو مقبوضہ کشمیر میں کیوں نہ بھیجا کہ وہ وہاں سے بھارت کے مظالم ختم کراتا؟وہ جِنّ اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر ہمارے لیے حمایت کیوں نہ حاصل کرسکا؟وہ ہمیں ایف اے ٹی ایف کی’گرے لسِٹ‘ (Gray list)سے کیوں نہ نکلواسکا؟وہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کیوں کم نہ کراسکا؟وہ جِنّ اپنے آقا کو ایک چھوٹے سے مکان سے نکال کر بڑے سے بنگلے میں کیوں نہ لاسکا؟‘‘ہم ابھی کچھ اور کہنا چاہتے تھے لیکن ان صاحب نے یہ کہہ کر فون بند کردیاکہ ’’آپ کی ہربات کا میرے پاس جواب موجود ہے لیکن یہ’امور‘آپ کی چھوٹی سی عقل کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔‘‘لیجیے بات کہا ںسے کہاں چلی گئی۔ہم گورنر صاحب کی بصیرت کو غیر مشروط خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ساتھ ہی ان سے مودُبانہ التماس کرتے ہیں کہ چند اور سوالات قوم کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں،تھوڑی بہت روحانیت کی روشی اُن پر بھی ڈال دیںمثلاً:
٭دوسو راب ڈالر جنھیں ملک میں واپس لانے کا اُن کے لیڈر اور ہمارے وزیر اعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا،کب تک آجائیں گے؟
٭ریاستِ مدینہ جس کا خواب ان کے لیڈر نے دکھایا تھا،کب تک شرمندۂ تعبیر ہوگا؟ایک وزیرباتدبیر نے ٹی وی پر جو سوسال کا وقت
دیاہے کیا وہ درست ہے؟اگر ایسا ہے تو ع کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک۔
٭پشاور کا بی آر ٹی منصوبہ کب تک پاے تکمیل کو پہنچے گا؟
٭فارن فنڈنگ کیس میں ان کا لیڈر کب تک تاریخیں لیتا رہے گا؟
٭چینی اسکینڈل کا بنیادی کردار کب پاکستان آئے گا؟(آجا تینوں اکھیاں اُڈیک دیاں۔)
٭آٹا بحران پیدا کرنے اور اس سے مالامال ہونے والے کب بے نقاب ہوں گے؟
٭وہ ’’شہد کی بوتلیں‘‘اب کہاں ہیں جو علی امین گنڈاپور کی گاڑی سے پکڑی گئی تھیں؟
٭وہ’’سِرکے اور شہد کی بوتلیں‘‘کہا ں ہیں جو شرجیل میمن کے اسپتال کے کمرے سے چیف جسٹس صاحب نے خود برآمد کی تھیں؟
٭’’نیب‘‘حقیقی ٹارزن کب بنے گا؟
٭پیٹرول سستا ہوکر غائب اور مہنگا ہوکر واپس کیسے آگیا؟کس نے کتنا کمایا؟
٭اب وہ انگلی کب اٹھے گی جسے ہمارے وزیرِ اعظم صاحب2014ئ کے دھرنے میں نہ اٹھواکر مایوس ہوئے تھے؟
٭کورونا کا حتمی علاج یا بچائو کا ٹیکہ کب تک ایجاد ہوجائے گا؟
٭قوم کی مہنگائی سے کب جان چھوٹے گی؟
٭فلم اسٹار مِیرا ٹی وی پراپنی شادی کے امیدواروں کا میلہ دوبارہ کب سجائیں گی؟ضمنی سوال:کیااُس میںشیخ رشیدکو چانس ملے گا؟