"معاشی پسپائی،کاٹن کی صورتحال"
چیو نٹیوں کو دیکھا ۔۔۔جا رہی تھیں راستے میں پانی گرا دیا ،چیونٹیوں نے وہاں سے سفر جا ری کر دیا جہاں خشکی تھی مزاحمت نہیں کی ۔۔۔پانی بہہ رہا تھا میں نے بھاری پتھر پھینکاپتھر لڑکھڑاتا پانی کے بیچ جا پڑا پانی نے پتھر کے دائیں بائیں بہنا شروع کر دیا مجھ سے کوئی شکوہ نہیں کیا ۔۔۔گھر کے درمیان چھت کے سوراخ میں چڑیوں نے گھونسلہ بنانا شروع کر دیا،تنکے وغیرہ گرنے سے فرش گندا ہو جاتاہے ،میں نے گند ہو جانے کی وجہ سے گھونسلہ توڑ دیا ،دوسرے دن برآمدے کی دائیں جانب گھونسلہ بنانا شروع کر دیا ،میرے سامنے کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی حرف شکایت زباں ن پہ لائیں صاحب ۔۔۔!رکاوٹیں تو زندگی میں آتی رہتی ہیں نشیب وفراز تو زندگی کا حصہ ہیں ،رک جانا ،شکو ے کرنا ،حرف شکایت زبان پہ لانا سفر کو کھوٹا کر دیتا ہے ۔۔۔جن میں منزل پانے کی سچی لگن ہوتی ہے وہ رکاوٹوں کی پراہ کئے بنا سفر جاری رکھتے ہیں ۔۔۔جلد یا بدیر آخر منزل پا ہی لیتے ہیں دیر سے پہنچنانہ پہنچنے سے بہتر ہے گھبرا جانا کبھی مسائل کا حل نہیں جہد مسلسل ہی الجھن کو سلجھن میں تبدیل کرتی ہے کامیاب لوگ ٹکرائو کی کیفیت پیدا نہیں کرتے بلکہ سفر جاری رکھتے ہیں پھر منزل بھی انہی کااستقبال کرتی ہے ہر رکاوٹ کو نظر انداز کر دینا ہی کامیابی دلاتاہے لیکن یہاں تو سیاسی اشرافیہ سے لیکر عوام تک تھوڑی سی مشکل آئی نہیں اورشکوے شکایت کا پہاڑ کھڑا ہو گیا عوا م وہ ہیں جو اپنے ہی گھر کے سامنے پڑے کوڑے کا الزا م وزیر اعظم پر لگاتے نظر آتے ہیںحکمران ہیں تو ذرا سے پریشر میں ہوں تو مائنس ون کی گردان شروع کر دیتے ہیں کرونا کی وجہ سے ملکی معیشت منفی کے ساتھ ساتھ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ نھی پڑا ہے جس سے لازمی امر ہے کہ ہر چیز متاثر ہو گی انرجی کے گردشی قرضوں سے بجلی سعودی عرب سے آنے والے تاخیر ی ادائیگیوں والے پٹرول پر اثر ہو گا اب جب حکومت پرائیوٹ انرجی پلانٹس کو پیسے ہی نہیں دے گی تووہ کب تک بجلی بنا کر واپڈا کو دیتے رہے گے اور جب ادائیگی متاثر ہو گی تو بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہو گی جس سے لامحالہ لوڈ شیڈ نگ ہو گی اور جب عوام کو بجلی نہیں ملے گی تو احتجاج ہو گا اور حکومت کو برا بھلا بھی کہا جائے گا اس طرح عرب دوستوں سے لیا جانے والا ادھار تیل کا دام کم کر دیا جائے گا تو یقینی بات ہے کہ تیل فروخت کرنے والی کمپنیاں ،مہنگا تیل خرید کر سستا تو نہیں فروخت کریں گی تو اس سے پٹرول شاٹ کو گا اور مجبوری میں حکومت ایک ہی دفعہ جب عام آدمی کے استعمال کاپٹرول 25روپے فی لیٹر بڑھانا پڑے گا تو عوام کی تو لازمی چیخیں نکلے گی اور ایسا ہی ہو رہاہے ملک کے ہر پٹرول پمپ پر چلے جائیں وہاں لوگ حکمرانوں کو گالیاں دیتے نظر آئیں گے یہ تو وہ رکارٹیں ہیں جو کرونا کی وجہ سے آ رہی ہیں کیونکہ جب تک کرونا کا مسّلہ حل نہیں ہوتا یہ رکاوٹیں آئے گی لیکن کیا ان رکاوٹوں کی وجہ سے پاکستان کا منزل کی جانب سفر رک جائے گا یا ہم بھی ایک قوم کی حیثیت سے ان رکاوٹوں کو نظر انداز کر کے اپنا سفر جاری رکھیں گے یہ عوام کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی اشرافیہ کا امتحان بھی ہے کیونکہ اپنے ذاتی فائدے کے ایجنڈے پر کام کرنے والی ہماری سیاسی اشرافیہ تو ویسے بھی مشکل کام کرنے کی عادی نہیں ہے جبکہ ملک کو اس وقت مضبو ط فیصلوں اور چٹانی عزم کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان پہلے ہی اقتصادی ہچکولے کھا رہا تھا اوپر سے کرونا وبا نے آکر ایک دفعہ تو معاشی بحران کا شکار کر دیاہے حکومت کی بوکھلا ہٹ نمایاں ہے وزیروں اور مشیروں میں لڑائی کابینہ اجلاسوں میں تلخ کلامی کے واقعات ،FBRکے چیر مین کی پھر تبدیلی اوروزیر ہوابازی کا PIAطیارہ کریش رپورٹ میں پائلٹوں کے لائسنس ہی مشکوک قرار دینے سے جس کے بعد 6ماہ کیلئے یورپ اور امریکہ سمیت متعدد ممالک نے PIAکی اپنے ممالک میں پروازیں بین کر دی ہیں ہر حکومتی عمل چیخ چیخ کر بتا رہاہے کہ مشکلات اور رکاوٹوں کے اس دور میں سفر جاری نہیں ہے رکا ہوا ہے چٹانی عزم کے ساتھ مضبوط فیصلے لینے کے وقت مائنس ون کا نعرہ لگا کر پسپا ہونا سیاسی اشرافیہ کا پرانا طریقہ واردات ہے آسانی سے بجٹ منظور ہو گیا کوئی سیاسی چیلنج سامنے نہیں دکھائی دے رہاہر قسم کا اختیار ہاتھ میں ہے اسٹبلشمنٹ ساتھ ہے دنیا کے بڑے مالیاتی ادارے ریلیف دینے کو تیار ہیں ایسے موقع پر ملک کا معاشی بحران حل کرنے کی بجائے مائنس ون کہہ کر پیٹھ دکھانا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے عوام لوڈ شیڈنگ ،مہنگی بجلی ،مہنگا پٹرول اور مزید مہنگائی کو بھی برداشت کر لیں گے کچھ بڑ بڑ کریں گے لیکن حقیقی مسّلہ تو حکمران کا ہے اس میں ہمت اور صلاحیت ہے کہ وہ سفر جاری رکھ سکے ۔
اب ایک نظر پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر اور کاٹن مارکیٹ پر کرونا لاک ڈائون جب ملک کی 100فیصد انڈسٹری کو بند کرا دیا گیاتھا جس میں ملک کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل بھی شامل تھی ابھی تک مکمل چل نہیں سکی ٹیکسٹائل کے لارج یونٹ 70فیصد مکمل اور 30فیصد جزوی طور پر چل رہے ہیں جبکہ میڈیم اورسمال یونٹس میں سے تو 23فیصد چل ہی نہیں سکے30جون کو بنک کلوزنگ کے بعد ابھی تک 34فیصد ٹیکسٹائل ملوںکو بنک لمٹس بحال نہیں ہوئیں جبکہ انڈسٹری کا بنکوں کے ساتھ شرح سود پر مسّلہ چل رہاہے جس پر حکومت اگر اس کے پاس وقت ہے تو بنکوں اور ملوں کا معاملہ نمٹا سکتی ہے پاکستان میں ایک ٹیکسٹائل وزارت بھی موجود ہے اور یہ کہاں اور کیا کام کر رہی ہے یہ نہ تو ٹیکسٹائل سیکٹر کو اس کا پتہ ہے اور نہ ہی عوام اس کے بارے میں جانتی ہے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ وزارت قائم بھی ہے یا پھر تبدیلی کی نظر ہو گئی ہے کرونا کی وجہ سے یورپ اور امریکہ کی مارکیٹس میں ملبوسات اور کپڑے کی ڈیمانڈ متاثر ہوئی تو چین انڈیا ،ترکی اور بنگلادیش نے اپنی ایکسپورٹ کو بہتر رکھنے کیلئے افریقہ او ر لاطینی امریکہ اور دیگر مارکیٹس میں جارحانہ مارکیٹنگ کی اورکئی اشیاء پر سب سڈی بھی دی پاکستان جس کی 65فیصد ایکسپورٹ ٹیکسٹائل پروڈکٹس کی ہیں وہاں وزارت ٹیکسٹائل نے نہ توکوئی گائیڈ لائن دی نہ ہی انڈسٹری کے مسائل پر بات کی لگتا ہے ملک میں اس نام اور کام کی وزارت موجود ہی نہیں ہے دوسرے طرف پاکستان کی کاٹن مارکیٹ میں ڈیمانڈ شروع ہے اور قیمتوں میں استحکام بھی ہے مون سون کی بارشوں کے زائد ہونے اور خاص طور پر سندھ کی ساحلی پٹی جہاں کپاس کی چنائی زوروں پر ہے بارش کی زد میں آنے کے بعد پھٹی کی ترسیل اور اس کا معیار متاثر ہوا ہے جس سے ملوں نے خریداری تیز کی ہے تاکہ جلد از جلد معیاری کاٹن ہولڈ کر سکیں کئی سپنگ ملوں نے اپنی امپورٹ کی ہوئی کاٹن کا سٹاک دیگر ضرورت مند ملوں کو فروخت کرنا شروع کر دیاہے اس سلسلے میں مل ٹو مل کراچی میں ڈیلز کی اطلاعات ہیں جو 9000سے9100میںہوئی ہیں معیاری پھٹی کی قیمت بھی 300سے400فی من بڑ ھ گئی ہے پنجاب میں میلسی ،ساہیوال ،بہاولنگر منڈیوں میں پھٹی آمد شروع ہے اور اس میں اضافہ ہو رہاہے ملک میں 80کاٹن فیکٹریاں آپریشنل ہیں سندھ میں کرونا SOPکی وجہ سے جینگ 12گھنٹے چل رہی ہے جبکہ پنجاب میں بھی یہی صورتحال ہے اگر کاٹن ایریاز میں جہاں اس وقت کاٹن کی صحت مند فصل کھڑی ہے زائد بارشیںنہ ہوئی تو کراپ سائز بڑھ سکتاہے ممکن ہے سر پرائز دے یہ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن کپاس کی کم بیجائی کے باوجود کاٹن دس ملین پلس کاٹن بیلز ہو سکتی ہیں بلوچی کاٹن پر اس دفعہ سب کی نظر ہے پنجاب میں ڈی جی خان میں سب سے زیادہ بلوچی پھٹی آتی ہے جہاں5مزید کاٹن فیکٹریاں بلوچی پھٹی پرت چلیں گی بلوچستان میں پھٹی کی بیجائی زائد ہے لیکن فصل کے سائز کا اندازہ اگست میں ہی لگایا جاسکتا ہے۔اور آخر میں ایک شعر سب دوستوں کی نظر
تجھ کو سوچوں تو ایسا لگتاہے
جیسے خوشبوسے رنگ ملتے ہیں
جیسے صحرا میں آگ جلتی ہے
جیسے بارشوں میں پھول کھلتے ہیں
ختم شد ۔