یہ 2002 کی بات ہے مجھے حقوق نسواں کے بارے میں کچھ لکھنے کیلئے علامہ عبدالرزاق بھترالوی کے پاس جانے کا موقع ملا۔علامہ جامع مسجد غوثیہ F-6/1میں خطیب تھے. گاہے گاہے باجماعت نماز کا موقع مل جاتا مگر تفصیلی ملاقات نہ ہوسکی .گزشتہ دنوں پتہ چلا کہ علامہ بھترالوی انتقال کر گئے ہیں ،سن ہو کر رہ گیا ایک اور نگینہ چٹخ گیا ایک اور ہیرا خاک میں مل گیا. علامہ واقعی نابغہ تھے شہرت کا لپکا انہیں نہ تھا سادگی انکسار اور خلوص کا مرقع تھے. 22 جلدوں میں نجوم القرآن تفسیر قرآن لکھی صرف الحمد شریف پر ایک جلد ہے.سو سے اوپر کتابوں کے مصنف عربی کی درس نظامی میں مروج کتب پر حواشی لکھے اس کے علاوہ 25 سال تک مدرسہ رضویہ ڈی بلاک سٹیلائیٹ ٹاون راولپنڈی میں پڑھایا. پھر اپنا مدرسہ مہریہ جماعتیہ شکریال راولپنڈی میں جاری کیا. سینکڑوں طلبا وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں. عربی میں کہا جاتا ہے عالم کی موت عالم کی موت ہے.ایسے نابغہ روزگار لوگ اب اس معاشرے میں کہاں ملیں گے
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ وہ اپنا اجر اس دنیائے دنی سے نہیں اللہ کریم سے مانگتے ہیں.وہ خاموش طبع کام سے کام رکھنے والے تھے اور بڑا کام کرگئے.دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں اپنے خدا رحمت میں جگہ دے اور اللہ کریم ایسے نیک بندوں سے کہتا ہے" میرے بندو میں داخل ہو جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ" اللہ کریم انہیں آقائے کل جہاں ؐ کی شفاعت کبریٰ سے نوازے آمین.( رانا محمد اجمل03455095128اسلام آباد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024