کون سمجھائے؟
گھر کے بھیدی ہی اگر ڈھانے لگیں لنکا کہیں
یہ گماں ہوتا ہے لیڈر کی وہاں چلتی نہیں
لاکھ چاہا تھا چمن میں ہو بہاروں کا نزول
آرزؤں کی کلی جانے کیوں کھلتی نہیں
بیچ طوفانی ہواؤں کے جلاتا ہے دیا
کون سمجھائے اسے کہ یوں شمع جلتی نہیں
مشکلیں آتی رہیں پہلے بھی اور ٹلتی رہیں
اب کے جو آئی ہے مشکل وہ مگر ٹلتی نہیں
فیصلے کی پاس رکھتا ہے اگر کنجی ضیاء
دال پھر تیری کہیں پہ بھی کیوں گلتی نہیں
شرافت ضیاء