برصغیر میں کرپشن کی اہم وجہ
مثنوی مولانا روم کو قرآن در زبان پہلوی کہا جاتا ہے ۔ ایران والے شاعری کو نبوت کا ایک جزو سمجھتے ہیں۔ مرزا غالب نے بھی غیب سے مضامین کی آمد کا پتہ دیا ہے ۔ زمانہ بدل گیا ، اب وہ چاقو سے تراشے ہوئے قلم کہاں کہ صریر خامہ سے نوائے سروش کا گمان گزرے ۔ ایک سوال ہے کہ کیا صبر، سیر چشمی ، قناعت اور توکل ہی غیب سے مضامین لانے کا باعث بنتے ہیں؟ کبھی موقع ملا تو ڈاکٹر خورشید رضوی اور جناب شعیب بن عزیز سے اس بارے ضرور پوچھوں گا۔فقر و استغنا کا ایک رنگ یہ بھی ہے ۔ خشونت سنگھ نے فیض احمد فیض کے بارے میں لکھا:’اللہ کے وجود کو نہ ماننے کے باوجود ان سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا انسان کم ہی دیکھنے میں آتا ہے ۔ اب امرتسر میں گولڈن ٹمپل کا سنگ بنیاد رکھنے والے لاہوری حضرت میاں میر ہوں تو ان سے اس جملے کا مطلب پوچھوں ۔ زندگی کے سفر میں مختصر خواہشوں کا اظہار مرزا غالب نے ہرگوپال تفتہ کے نام خط میں کیا ہے ۔ ’’زیست بسر کرنے کو تھوڑی سی راحت درکار ہے ۔ باقی حکمت اور سلطنت اور شاعری اور ساحری، سب خرافات ہے ۔ ہندوئوں میں اگر اوتار ہواتو کیا ۔ مسلمانوں میں ولی بنا تو کیا۔ دنیا میں نامور ہوئے تو کیا۔ گمنام جئے تو کیا۔ کچھ معاش ہو، کچھ صحت جسمانی ، باقی سب وہم ہے اے یار جانی‘‘۔ فقر غریبی کا نام نہیں ۔ محدود وسائل میں محدود خواہشات کے ساتھ قناعت سے زندگی بسر کرنے کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ لازم ہے کہ زندگی کی اس سادگی میں کسی نوع کا احساس کمتری نہ ہوا۔ غالب اپنے مٹی کے پیالے کو جام جم سے کمتر نہیں جانتے۔ دیکھئے اس میں کیا خوبی نکالتے ہیں۔
؎اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا
جام جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
ادھر سیاستدانوں سمیت ہماری ساری مقتدر قوتیں مال و منال کی شدید حرص کا شکار ہیں۔ ہم کرپشن کو اپنی قسمت کا لکھا سمجھے بیٹھے تھے۔ پانامہ لیکس نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ سیاستدان مشرق کا ہو یا مغرب کا، ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ فرق صرف رائے عامہ کی بیداری کا ہے ۔ لندن میں پانامہ لیکس میں برطانوی وزیر اعظم کی ٹیکس چوری کے خلاف لاکھوں افراد واقعی لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے ۔ برطانوی اخبار ’انڈیپنڈنٹ‘ نے مظاہرین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لکھی ہے ۔ پچھلے دنوں ٹائم میگزین میں شائع ہونے والے PEWکے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے صرف 12فیصد لوگ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیںیا اس حوالے سے متحرک ہیں۔ باقی 88فیصد لاتعلقی کے دھارے میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان میں ایسا کوئی احتجاجی مظاہرہ نہیں ہوسکا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پانی چوری ، بجلی چوری ، گیس چوری اور ٹیکس چوری ہمارے ہاں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ چھوٹے سرکاری اہلکاروں نے بڑی ڈھٹائی سے رشوت کو فیس کا نام دے رکھا ہے ۔ پھر بھی ہر ضلع میں ایک آدھ ایسا ایماندار ممبر اسمبلی ضرور موجود ہے جس کے بارے میں سبھی شہادت دینے کو تیار ہیںکہ وہ ٹھیکیداروں سے کمیشن نہیں لیتا۔ اس خوبی کو بھی اس کے حلقہ میں کوئی غیر معمولی پذیرائی نہیں ملتی۔ بس اسے بھی ایک عام بات ہی سمجھاجاتا۔ ’کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا‘ ۔ ہماری اخلاقی گراوٹ کا اندازہ لگائیں کہ ایک پولیس افسر جو پنجاب کے کئی ضلعوں میں ڈی پی او رہ چکے ہیں ، کے بارے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ اس کا کوئی ذاتی گھر نہیں ۔ ایک معروف جاٹ سیاستدان کا اس خبر پر تبصرہ یوں تھا کہ اس بیچارے میں کمزور ذات برادری کے باعث جرات کا فقدان ہے ۔ رشوت لینے اور پھر اسے ہضم کرنے کیلئے بڑا دل کلیجہ چاہئے۔ یہ پولیس افسر ایک غیر زراعت پیشہ برادری سے تعلق رکھتا تھا ۔ اب دنیا ایک گلوبل ویلج ہے ۔ کوئی ملک اپنے اڑوس پڑوس کے اثرات سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اگر 72ارب ڈالر قرضہ والے ملک پاکستان کے شہریوں کے 275ارب ڈالر بیرون ملک پڑے ہیں تو یہ ساری دولت اندرون ملک سے کما کر ہی بیرون ملک بھجوائی گئی ہے ۔ پانامہ لیکس نے پاکستانیوں کی غیر ممالک میں دولت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے ۔ اس سلسلہ میں اڑھائی سو پاکستانیوں کے نام آرہے ہیں۔ واہگہ کی دونوں اطراف حالات ایک سے ہیں۔ دہلی سے کالم نگار افتخار گیلانی نے لکھا کہ بھارت کے ایک اہم صنعتکار مکیش انبانی دہلی کے بجلی گھروں کو 9ڈالر فی برٹش تھرمل یونٹ کی شرح سے گیس سپلائی کرتے ہیں۔ جبکہ انہی کنوئوں سے نکلنے والی گیس کو ایک اور کمپنی بنگلہ دیش میں 2ڈالر میں مہیا کر رہی ہے ۔ پاکستان کے سبھی مقتدر حلقوں کی لالچ ، لوٹ مار اور بے حسی کے بارے لکھا ہی نہیں جا سکتا۔جن کے بارے لکھا جا سکتا ہے ان کے بارے میں تو لکھ دیا جائے ۔ بلوچستان سوئی گیس کی رائلٹی والے امیر کبیر نواب اکبر بگٹی سے پوچھا گیا :’آپ اپنے قبیلے کے سردار ہیں ۔ آپ کے ارد گرد بے انتہا غربت ہے ۔ کبھی کبھی یہ خیال تو ضرور آتا ہوگا کہ ارد گرد کی غربت کیسے ختم کروں ۔ وہ بولے ۔ غربت ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی سبھی بڑے بیرون ملک اپنی بود و باش کا اہتمام کئے بیٹھے ہیں۔ مس روتھ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ اسکالر ہیں۔ چند برس پہلے یہ پاکستان اور انڈیا میں اسی تھیسس کے سلسلہ میں مطالعاتی دورے پرآئی ہوئی تھیں۔ ان کے تھیسس کا عنوان تھا ’’برصغیر پاک و ہند میں کرپشن کی وجوہ‘‘۔ وہ اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ برصغیر میں کوئی شخص تنہا اپنی زندگی بسر نہیں کرتا۔اسے اپنے بیٹے بیٹیوں اور پوتے نواسوں کی بھی فکر لاحق رہتی ہے ۔سو انہیں اپنی کئی پشتوں کی زندگیوں کیلئے سامان اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ یہی کرپشن کی سب سے اہم وجہ بھی ہے ۔
لمبے بالوں ، متجسس آنکھوں اور بارعب چہرے والے شاعر ناصر زیدی اللہ کے حضور پیش ہو گئے ۔ اللہ ان پر رحمت فرمائے۔ ان کے یہ دو شعر ڈاکٹر شاہین مفتی نے اپنے تعزیت نامے میں لکھے ہیں :۔
؎اک بے وفا سے عہد وفا کر کے آئے ہیں
اب سوچتے ہیں آکے یہ کیا کر کے آئے ہیں
ناصرؔ زباں نہ کھل سکی ان کے بھی سامنے
اس سے بھی ذکر آب و ہوا کر کے آئے ہیں