’’ اسلا م آباد‘‘ میں مندر
اسلام آباد میں ایک نئے ہندو مندر کی تعمیر کے افتتاح اور اسکے لیے سرکاری فنڈز فراہم کیے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی ملک میں ایک بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر اس اقدام کے خلاف ایک مہم چل پڑی ہے۔ اسکا مدلّل جواب دینے کی بجائے تحریک انصاف کے سپورٹر یہ کہہ رہے ہیں کہ اس پراجیکٹ کی زمین اور منظوری تو نواز شریف کی حکومت میں دی گئی تھی۔ کیا انکا مطلب یہ ہے کہ یہ ہے تو ایک غلط کام لیکن یہ غلطی نون لیگ کی ہے تحریک انصاف کی نہیں؟ اصل میں اس تصویر کے دونوں رخ دیکھنا ضروری ہے۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ دین میں کوئی زبرستی نہیں ( سورۃ البقرہ، آیت 256 )اور اسلام کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمہارا دین تمھارے ساتھ اور میرا میرے ساتھ (سورۃ الکافرون آیت 6)۔ کوئی بھی ایسا ملک جس میںاسلامی نظام نافذ ہو( دارالاسلام) اس میںرہنے والے غیر مسلموںکو ’’ذمی ‘‘کہا جاتا ہے جس کا لغوی معنی ہی ’’ زیر حفاظت‘‘ کے ہیں۔ یعنی اسلامی مملکت میں رہنے والے غیر مسلم ریاست کے ’’ زیر حفاظت ‘‘ہوتے ہیں اور انہیں ہر قسم کی معاشی، معاشرتی اور مذہبی آزادی دینا او انکے تمام حقوق کی حفاظت کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے قومی پرچم میں تو سفید رنگ ہے ہی غیر مسلموں کے لیے ۔ میرے علم میں دنیا کا کوئی اور ملک نہیں ہے جس نے اپنے قیام کے ساتھ ہی اپنے پرچم میں اس طرح اپنی اقلیتوں کے حقوق کا اعلان کیا ہو۔لیکن جس طرح ایک اسلامی مملکت میں رہنے والے غیر مسلوں کے بہت سے حقوق ہیں اسی طرح ان پر بہت سے فرائض بھی ہیں۔ انہیں اسلامی روایات اور اسلامی قوانین کا پاس رکھنا ہوتا ہے۔ چاہے ذاتی طور پر وہ اپنی زندگی اپنے مذہب کے مطابق بسر کریں لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں یہ خیال بھی رکھنا ہوتا ہے کہ اس مملکت کی مسلم آبادی کی دل آزاری نہ ہو۔ یعنی ذاتی حیثیت میں مکمل آزادی کے ساتھ اجتماعی اور معاشرتی طور پر ان پر کچھ اصول و ضوابط اور پابندیوں کا اطلاق بھی ہو گا۔ جیسے انکو ہمارے ملک میں پرمٹ لے کر شراب نوشی کی اجازت ہے لیکن وہ عوامی جگہوں پر شراب نوشی نہیں کر سکتے۔ حرام جانور کے گوشت کا سر عام استعمال یا اپنے مذہب کی تشہیر انکے لیے ممنوع ہے۔ معاشرتی طور پر بھی یہ ایک عام فہم بات ہے کہ آپ جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کے قوانین اور روایات کی پاس داری کرنا ضروری ہے۔
مسلمانوں کو اپنے ملک میںرہنے والے غیر مذاہب کے لوگوں کی عبادت میں خلل ڈالنے کاکوئی حق نہیں ہے ۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ دیگر مذاہب ( جیسے کرسچن اور یہودی وغیرہ) اور ’’ بت پرستی ‘‘ کو کیا ایک ہی ترازو میں تولنا درست ہے؟ دیگر مذاہب میں اہل کتاب اور بت پرستی میں بہرحال ایک بڑا فرق ہے۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو مکہ مکرمہ میں رہنے والے ذمی یہودیوں کو اپنے عقیدے کے ساتھ رہنے، یہاں تک کہ اپنا عدالتی نظام قائم کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے غیر مسلموں اور مشرکوں کو تمام معاشی اور معاشرتی حقوق دیے تھے لیکن اس وقت کی اسلامی ریاست کے ’’ دارلحکومت‘‘ سے تمام بتوں کا خاتمہ بھی کر دیا تھا۔پاکستانی ہندوئوں کے لیے انکی عبادت گاہ انکا بنیادی حق ہے اور نہ تو ہماری حکومت اس سے انکار کر سکتی ہے نہ عوام، اور نہ ہی ہمارا مذہب ایسا کرتا ہے۔ لیکن ایک اہم سوال وقت اور جگہ کا ہے۔ کیا اس وقت اس قسم کے کسی اقدام کی فوری ضرورت تھی اور کیا اس کے لیے ’’اسلام آباد ‘‘ہی مناسب جگہ ہے؟
پاکستان کی ہندو آبادی کا93 فیصد سندھ میں رہتا ہے۔1998 کے اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد میں اُس وقت 178 ہندو رہائش پذیر تھے۔ اس کے بعد کی مردم شماری کے مذہب کے اعتبار کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے۔ اگر ہم فرض کریں کہ جس تناسب سے پاکستان کی آبادی بڑھی ہے اسی تناسب سے ہندو آبادی بھی بڑھی ہو گی تو 1998 سے اب تک پاکستان کی آبادی میں تقریباََ% 63 اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم ہندو آبادی میں اضافہ مسلمان آبادی سے بہت زیادہ بھی سمجھ لیں تو ’’ اسلام آباد‘‘ میں رہائش پذیر ہندو آبادی ایک ہزار سے کم ہی ہو گی۔ مختلف ذرائع اس سلسلے میں مختلف اندازے بیان کرتے ہیں ۔ کچھ ہندو تنظیموں کے خیال میں یہ تعداد دو ہزار تک ہو سکتی ہے۔ '' All Pakistan Hindu Rights Movement" کے مطابق پاکستان میں اس وقت 428 ہندو مندر موجود ہیں، جن کی غالب اکثریت دیکھ بھا ل نہ ہونے کی بنا پر نہ صرف بند پڑی ہے بلکہ انکی عمارتیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اسلام آباد کی حدود میں مارگلہ ہلز کے قریب ’’ سیدپور مندر‘‘ موجود ہے۔ اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں 13 مندر موجود ہیں۔ایسی صورت میں کیا بہتر نہ ہوتا کہ ایک نیا مندر بنانے سے پہلے، پہلے سے موجود ان تاریخی مندروں کی دیکھ بھال پر فنڈ زخرچ کئے جاتے۔ اگر کوئی نیا مندر بنانا ہی تھا تو ایسی جگہ بنایا جاتا جہاں کافی تعداد میں ہندو آبادی موجود ہوتی۔ جڑواں شہروں میں پہلے سے موجود 14 مندروں کو آباد کرنے کے لیے ہی فنڈ اور ہندو آبادی موجود نہیں ہے۔ اب ایک نیا مندر بن تو جائے گا، کیا اسکو آباد کرنے کے لیے یہاں ہندوئوں کی آباد کاری کی جائے گی؟
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو اپنا ’’ لبرل چہرہ‘‘ دکھانے کے لیے اسلام آباد میں ایک مزید اور نئے مندر کی تعمیر ایک سیاسی فیصلہ لگ رہا ہے۔ بہت بہتر ہوتا کہ ایساکوئی فیصلہ کرتے وقت، پہلے سے موجود مندروں کی حالت زار، ہندو آبادی کی تعداد ، اور ملک کے مختلف حصوں میں ہندو آبادی کی ضرورت کو بھی مد نظر رکھا جاتا۔ کیونکہ بہر حال دنیا کو دکھانے کے لیے ایک مندر کی تعمیر سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ کوئی بھی عبادت گا ہ تعمیر کی جائے تو وہ صرف دیکھنے کی ایک ’’ یادگار ‘‘ بن کر نہ رہ جائے بلکہ اس جگہ اس عبادت گاہ کو استعمال کرنے کے لیے متعلقہ مذہب کے ماننے والوں کی کافی آبادی بھی موجود ہو۔ ملک کے دیگر علاقوں میں ایسی بہت سی جگہیں موجود ہیں جہاں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ہندو یا دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی ضرورت ہو سکتی ہے ۔