مادرِ ملتؒ اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘
قیام ِپاکستان اور پھر استحکامِ پاکستان کے سلسلے میں’’نوائے وقت‘‘ کا کردار پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتاہے۔ ملک میں جمہوریت کی ترویج و ترقی اور ہر دور کی آمریت کو للکارنے میں ’’نوائے وقت‘‘ پیش پیش رہا ہے۔ مفکرِ پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال اور بانی ٔپاکستان حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے افکار ونظریات کو لباسِ عمل پہنانے میں جب بھی کسی حکومت نے کوتاہی کی تو ’’نوائے وقت‘‘ نے نظریات کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر جمہوریت کے دشمنوں ، سیاسی اجارہ داروں اور جوڑ توڑکرنے والی بیوروکریسی پر تابڑ توڑ حملے کئے۔علیحدگی پسندوں اور صوبہ پرستوں کے خلاف مزاحمت میں بھی ’’نوائے وقت‘‘ ہمیشہ سرگرمِ عمل رہا ہے۔
حمید نظامی کی خدمات
’’نوائے وقت‘‘ کے بانی جناب حمید نظامی نے ایک طالب علم لیڈر کی حیثیت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ وہ قائدِاعظمؒ کے جانثار سپاہی تھے، یہی وجہ ہے کہ جب ان کی قیادت میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن منظم ہوئی تو خاص طورپر متحدہ پنجاب میں نہ صرف طلبہ بلکہ دوسرے نوجوانوں میں بھی تحریکِ پاکستان سے والہانہ وابستگی کے جذبات پیداہوئے۔ قائدِاعظمؒ ،جناب حمید نظامی اور ان کے ساتھیوں کی خدمات کے معترف تھے اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو ان کی طرف سے ہدایات ملتی رہتی تھیں ۔
23مارچ1940ء کوآل انڈیا مسلم لیگ کے زیرِ اہتمام لاہور کے منٹو پارک(اب اقبال پارک)میں منعقدہ اجلاسِ عام میں ’’قراردادِلاہور‘‘منظور کی گئی جو بعدازاں ’’قراردادِپاکستان‘‘کہلائی۔ اسی روز یعنی 23مارچ1940ء کو جناب حمید نظامی کی ادارت میں ’’نوائے وقت‘‘ پندرہ روزہ کی حیثیت سے منصہ شہود پرآیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ آل انڈیا مسلم لیگ کا سرکاری ترجمان نہیں تھا لیکن قائدِ اعظمؒ کے مشن اور مسلم لیگ کے اغراض ومقاصد کا علم لے کر میدان میں اترا جِس کی تحریک ِ پاکستان سے وابستہ طبقوں میں بے حد پذیرائی ہوئی۔ تحریک ِ پاکستان کے مخالفوں کو منہ توڑ جواب دینے میں ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہونے والے مدلّل مضامین اور نظمیں یادگار حیثیت رکھتی ہیں۔
جناب حمید نظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ کا اجراکاروباری بنیادوں پر کیا نہ دوسرے مالی مفادات کے حصول کے لیے۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کبھی حکمرانوں کی خوشامد یا بے جا تعریف نہیں کی۔ ’’نوائے وقت‘‘ کی فائلیں گواہ ہیں کہ اس نے ہمیشہ پیغمبر انقلاب حضرت نبی کریمﷺ کی اس حدیث پاک کو مدِ نظر رکھاکہ ’’بہترین جہاد، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہناہے۔‘‘ جناب حمید نظامی سے جناب مجید نظامی تک’’بہترین جہاد ‘‘ کا سلسلہ جاری رہا ہے ۔ ہر دور کے ’’جابر سلطان‘‘کے سامنے’’کلمہ حق‘‘کہنا ’’نوائے وقت‘‘ کا مشن رہا ہے۔ کلمہ حق کہنے کی پاداش میں نظامی خاندان کو بے حد مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔مختلف ادوار میں ’’نوائے وقت‘‘ کے سرکاری اشتہارات بند کئے گئے اور نیوز پرنٹ کا کوٹہ ختم کیا گیا لیکن اس طرح کے تمام سرکاری حربے ناکام ہوئے۔ایک مرحلے پر ان کے اخبار کا ڈیکلریشن بھی منسوخ ہوا مگر نظامی صاحب نے اپنی پالیسی نہیں چھوڑی۔
7اکتوبر 1958ء کوجنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو فوجی آمر کو للکارنے والے پہلے صحافی جناب حمید نظامی تھے ۔ان کے ’’نوائے وقت‘‘ نے بے خوف ہوکر عوام کی حاکمیت اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جرآت مندانہ تحریریں شائع کیں۔ جس سے پست حوصلہ سیاستدانوں میں جرآت عود کر آئی۔ عوام بیدار ہوئے اور ان کا سیاسی شعور بھی۔ مجبور ہوکر جنرل ایوب خان کو 1962میں مارشل لا اٹھانا پڑا۔ 25فروری 1962ء کو جناب حمید نظامی وفات پاگئے۔ علامہ اقبال ؒاور قائداعظمؒ کے پاکستان میں وہ آمریت کو برداشت نہیں کرسکے تھے۔
یوں تو پندرہ روزہ نوائے وقت سے لے کر روزنامہ نوائے وقت تک قیامِ پاکستان کی تحریک میں اس اُردو اخبار کا بہت نمایاں کردار رہا ہے۔ اور حصولِ پاکستان کے مشن کی تکمیل کے لیے حمید نظامی مرحوم نے سرکاری اور پارٹی عہدوں کو ٹھکرا دیا تھا‘ تاہم مادرِ ملتؒ اور نوائے وقت کے صحافتی تعلق کے حوالے سے ایک تاریخی خط‘ قومی تاریخی دستاویزات کے ادارے کے دفتر سے ملا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نوائے وقت کا مشن کیا ہے اور جن ہاتھوں میں ہے‘ وہ کسی حد تک اس ملک و قوم کے لیے قربانی دے سکتے ہیں:
’’مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ اپنے اخبار کو اس کے پرانے نام ’’نوائے وقت‘‘ کے تحت شائع کرتے جارہے ہیں۔ اﷲ کرے یہ‘ قوم و ملک کی اسی طرح خدمت کرے جیسے اس نے حصولِ پاکستان میں کی تھی۔‘‘
یہ وہ جذبات ہیں جن کا اظہار مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے مرحوم حمید نظامی کے نام اس خط میں کیا جو انہوں نے 12مارچ 1952ء کو گورنر ہائوس لاہور سے لکھا۔
اس سلسلے میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ اور حمید نظامی کے درمیان کراچی سے ایک اخبار شائع کرنے کے بارے میں بات چیت شروع ہوئی تھی۔ 9 مئی 1950ء کو جناب حمید نظامی نے لاہور سے مادرِ ملتؒ کے نام خط میں لکھا:
قابلِ احترام خاتونِ پاکستان
کراچی میں ہمارے قابلِ اعتماد ذرائع سے حال ہی میں پتہ چلا ہے کہ آپ کراچی سے ایک اُردو روزنامہ شروع کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہیں۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو ہم آپ کی اس قابلِ تحسین سوچ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ واقعی کراچی کو اس وقت‘ مزید وقت ضائع کئے بغیر‘ ایک خود مختار اور آزاد اخبار کی ضرورت ہے اور کسی اخبار کے لیے آپ سے زیادہ قابلِ احترام سرپرستی اور قائدانہ صلاحیت نہیں مل سکتی۔
غالباً آپ جانتی ہیں کہ ہم بھی کچھ عرصہ سے نوائے وقت کا کراچی ایڈیشن نکالنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ہم نے ایک اچھی جگہ‘ رابسن روڈ پر ایک دفتر لے لیا ہے۔ ڈیکلریشن حاصل کرنے کے لیے درخواست دے دی تھی اور متعلقہ حکام نے ہمیں مطلوبہ اجازت بھی دے دی ۔ ہم نے اپنا پرنٹنگ پریس بھی نصب کر لیا ہے جو ہماری فوری ضروریات کے لیے کافی ہے اور وہ ایک یا دو ہفتے میں کام شروع کردے گا۔
ہم نے پریس کے علاوہ بلاک میکنگ کا پلانٹ بھی لگایا ہے جو پہلے ہی کام کررہا ہے۔ آپ یقینا محسوس کریں گی کہ کراچی ایڈیشن نکالنے کے لیے ہمارے انتظامات تقریباً مکمل ہیں۔ ہم اس حالت میں ہیں کہ جب چاہیں اس کی اشاعت شروع کرسکتے ہیں۔ اس کا مقصد پیسہ کمانا نہیں ہے اس کے لیے ہمارا لاہور کا ادارہ کافی ہے۔ درحقیقت ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی میں پہلے ایک دو سال ہمیں شدید محنت کرنے کے علاوہ کافی نقصان بھی برداشت کرنا ہوگا۔ ہمارے اردگرد رکاوٹیں پیدا کی جائیں گی اور ہمیں مقابلے میں بھی آنا ہوگا۔ کراچی کے موجودہ حالات میں ہمیں عام آدمی کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنا ہوگی۔ ہم کافی عرصہ سے محسوس کررہے ہیں کہ ملک کے دارالحکومت میںعوام الناس کے ترجمان کا فقدان ہے۔ لاہور یہاں سے بہت دور ہے اور وہاں سے ہم یہ فرض ادا نہیں کرسکتے۔ آپ کراچی میں مقیم ہیں اور اس ضرورت کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔ (جاری ہے)