پیر ‘ 14؍ذیقعد 1441 ھ‘ 6؍جولائی 2020ء
نفرتیں ختم اور محبت عام کریں۔ اتحاد اُمت کانفرنس کا پیغام
خدا کرے اتحاد اُمت کے لئے منعقدہ یہ کانفرنس اپنے مقاصد میں سو فیصدکامیاب و کامران ثابت ہو۔ ملک میں جو فرقہ واریت کی آگ بھڑک رہی ہے اُسے ٹھنڈا کر دے۔ کانفرنس میں شریک علما اور مشائخ نے جس دلسوزی سے مسلمانوں کو اتحاد اور صلح کا پیغام دیا ہے۔ اگر پاکستانی قوم بلاتفریق مسلک ان باتوں پر کان دھرے تو ملک میں امن و امان کا دور دورہ ہو سکتا ہے۔ یہ کانفرنس نفرتوں کے انگارے پر شبنم کی پُھوار بن کر انہیں بُجھا سکتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ منبروں سے ایک دوسرے کے خلاف زبان درازی اور شعلے اگلنے کا سلسلہ ختم کیا جائے ہر مذہب و مسلک کے واعظین، علامہ اور مقررین ایک دوسرے کا احترام کریں۔ اختلافی امور کی بجائے اتحاد اُمت کا درس دیں۔ نفرت کی بجائے محبت کا درس دیں۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔ ورنہ تاریخ کا سبق یاد رکھیں کہ جب منگولوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی تو اس وقت کے بڑے بڑے علما اور مناظرین مذہب و مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف تھے۔ اسی فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی بدولت لاکھوں مسلمان اپنی جان سے دھو بیٹھے۔ اختلاف رائے کا حق سب کو حاصل ہے مگر پہلا اصول کسی کو نہ چھیڑو ہونا چاہئے۔
ایک ہی سب کا نبی دین بھی قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
خدا کرے اس کانفرنس کے خوشگوار اثرات جلد سامنے آئیں اور ہم سب پاکستانی سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔
٭٭٭٭٭
ٹک ٹاک بناتے ہوئے 15 سالہ لڑکا ٹرین کی زد میں آ کر ہلاک
پپ جی کے مقابلے میں اس ناس پیٹے ٹک ٹاک کی تباہ کاریاں بہت زیادہ ہیں۔ دنیا بھر کی بات نہیں کرتے صرف پاکستان کی بات کرتے ہیں جہاں یہ ٹک ٹاک نامی چڑیل ابھی تک درجنوں نوجوانوں کی جان لے چکی ہے۔ پپ جی سے ہلاکتوں کی تعداد تو چند ہی تھی کہ پنجاب پولیس نے اس پر پابندی لگوا دی۔ مگر یہ جو ٹک ٹاک کے نام پر موت اور بدتہذیبی کا طوفان برپا ہے اس پر کون قابو پائے گا۔ اس کے آگے کون بندباندھے گا۔ خطرناک جگہوں پر ٹک ٹاک بناتے ہوئے درجنوں افراد جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے جان سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ زیادہ تر حادثات بلندی سے گرنے ریل سے ٹکرا کر یا دریا میں ڈوب کر ہونے کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز بھی دینہ میں 15 سالہ نوجوان جس طرح ٹرین کی زد میں آکر یہ ٹک ٹاک بناتے ہوئے ہلاک ہوا کیا یہ سانحہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں۔ اس پر پابندی لگائی جائے اس طرح کی ایپس پر پابندی لگا کر لوگوں کو مرنے سے بچایا جائے۔ بے شک یہ بات درست ہے کہ
جان دے دی کہ دی اسی نے تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
مگر خدا کی سب سے بڑی نعمت زندگی ہے اس کی حفاظت اور اسے اچھی طرح بسر کرنے کا حکم ہے۔ یہ اتنی ارزاں نہیں کہ ایک بے کار مشغلے کی خاطر اسے قربان کر دیا جائے۔
٭٭٭٭٭
بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب۔ ڈوڈا میں مبینہ گرفتار دہشت گرد کی تصویر جعلی نکلی
قدرت کا بھی عجیب نظام ہے جھوٹے کو یہ ازخودکبھی نہ کبھی بے نقاب کر کے اس کی رسوائی کا سامان پیدا کر دیتی ہے۔ یہی کچھ بھارت کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس سامان رسوائی میں بھارت کا اپنا ہاتھ بھی زیادہ ہے۔ دوسروں کو رسوا کرنے کے لئے بدنام کرنے کے لئے وہ ہمیشہ نت نئی چالیں چلتا ہے جو اکثر اسی کے گلے پڑ جاتی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تو بھارت کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ جہاں کہیں کوئی بھی بھارت کی دم پر پائوں رکھتا ہے۔ بھارت پاکستان کو کاٹ کھانے دوڑتا ہے۔ اس وقت ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں اس کی جان شکنجے کے اندر آئی ہوئی ہے تو دوسری طرف لداخ میں چین نے اس کی گردن دبوچ رکھی ہے۔ اب اس میں کوئی کیا کرے۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ لداخ بھی مقبوضہ کشمیر کا علاقہ ہے جسے گزشتہ برس بھارت نے زبردستی مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کر کے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ اب بھارت مصیبت گلے پڑنے پر بوکھلایا ہوا ہے۔ جبھی تو مقبوضہ کشمیر کے ضلع ڈوڈا ایک خودکش حملہ آور کی گرفتاری کی جھوٹی خبر چلا کر ایک فدائی دہشت گرد کی جعلی تصویر بھی چلا دیتاکہ اس کا تعلق پاکستان سے ثابت کیا جا سکے۔ اب مصیبت یہ بھارت کے گلے پڑی ہے کہ جس شخص جس کی تصویر دی ہے وہ پاکستان میں پہلے ہی منشیات کیس میں گرفتار ہے۔ وہ بھی طورخم بارڈر سے۔ اب دیکھتے ہیں اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے بھارتی حکومت کیا نیا جھوٹ بولتی ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اب دنیا بھی بھارت کے جھوٹ سے بخوبی آشنا ہو چکی ہے ۔
٭٭٭٭٭
ہم آخری چوائس نہیں ، ہوا تو پھر مائنس تھری ہو گا۔ شیخ رشید
خدا جانے آج کل حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے مائنس فارمولے کا ذکر کیوں وقفے وقفے سے ہو رہا ہے۔ یہ چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے کی کوشش ہے یا واقعی اس کے پیچھے کوئی نیا کھیل کھیلنے کی تیاری ہو رہی ہے اور تو اور خود وزیراعظم نے بھی قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اس مائنس فارمولے کا ذکر چھیڑا تھا۔ ذکر پر یادآیا کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
تو جناب جب ہمارے ہاں ایسے مائنس والے فارمولوں کی بات ہوتی ہے تو بات کہاں سے کہاں جا نکلتی ہے۔ اسی لئے تو وزیر ریلوے بھی اس مائنس فارمولے کے حوالے سے چڑتے ہوئے کھلے لفظوںمیں مائنس تھری فارمولے کی بات لے بیٹھے ہیں جس کا واضح مطلب تیسری قوم کی مداخلت ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسا ہوتا چلا آیا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ہمارے سیاستدان ازخود اسی نوبت لانے میں ماہر ہیں۔ پھر اس کے بعد خود ہی اس فارمولے سے جان چھڑانے کے لئے روتے دھوتے نظر آتے ہیں۔ بات مائنس ون یا ٹو فارمولے تک ہی رہنی چاہئے۔ ایسے حالات نہ پیدا کئے جائیں کہ بات مائنس تھری تک جا پہنچے ، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر نہ ون بچے گا نہ ٹو بچے گا وہی جو تھری کی چھتری تلے آرام فرمائے گا۔
٭٭٭٭٭