کراچی اسٹاک ایکس چینج پر دہشت گردی کی واردات ملک میں نہ پہلی ہے اور نہ آخری۔تفتیشی اداروں نے کہا ہے کہ یہ لوگ بھارت کے تربیت یافتہ تھے اور افغانستان سے یہاں پہنچے۔ جبکہ بلوچستان لبریشن آرمی جسے بی ایل اے کہا جاتا ہے اس نے اس کی ذمے داری قبول کی ہے۔ بی ایل اے کا یہ دعوی اصل میں سی پیک کے خلاف اعلان جنگ ہے اور یہ جنگ ایک عرصے سے جاری ہے۔اب اس کا نشانہ سی پیک ہے اور پہلے محرمیوں اور حقوق کے نام پر اسے گرم رکھا گیا۔ بھارتی ہاتھ ثابت کرنے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ ہم بھارتی را کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کو رنگے ہاتھوں پکڑ چکے ہیں۔ اور بھارتی وزیر اعظم مودی اعلان کر چکے ہیں کہ جس طرح بھارت نے بنگلہ دیش کے عوام کو اکہتر میں حقوق دلوائے تھے، اسی طرح اب بلوچستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی حقوق دلوائیں گے۔ یہ ایک کھلی جارحیت ہے جس پر ہمیں اقوام متحدہ میں جانا چاہئے تھا۔ کوئی ملک دوسرے ملک کودھمکی دینے کا مجاز نہیں۔ یو این چارٹر اس کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر بھارت کو کسی چارٹر کی پروا نہیں مگر ہمیں تو اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کرنا چاہئے کہ اس کے مذموم ارادے کیا ہیں۔ابھی چین اور بھارت کے مابین سرحدی جھڑپیں ہوئی ہیں تو بھارت نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے اور چینی مصنوعات کا بائکاٹ کر دیا گیا ہے، چین کی انسٹھ انٹر نیٹ ایپلی کیشن کو بھی بند کر ویا گیا ہے۔ مودی نے نیا نعرہ دیا ہے کہ کمائی اور لڑائی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یعنی چین بھارتی منڈیوں سے مال کمائے اوراس مال کو بھارت کے فوجی مارنے اور بھارتی علاقے ہتھیانے کے لئے استعمال کرے، یہ اجازت نہیں دیں گے۔ چین اور بھارت کی ا س کشمکش کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا مگر ہمیں دیکھنا ہے کہ چین سے مار کھانے کے بعد سے بھارت نے کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنا لیا ہے۔ روزانہ نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ایک بوڑھے کو گولی مار کرا سکی لاش پر اس کے ننھے نواسے کو بٹھا کر ایک تصویر وائرل کی گئی ہے جس پر پوری دنیا سراپا احتجاج ہے مگر بھارت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا ، اس نے کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ بھی بڑھا دیا ہے ۔ اور ورکنگ بائونڈری پر بھی پاکستانی عوام کو شہید کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے لئے مصیبت یہ ہے کہ وہ ایک تو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت سیز فائر کا پابند ہے دوسرے اس نے شملہ معاہدے کے تحت کنٹرول لائن پر بھی سیز فائر کو قبول کیا ہوا ہے تیسرے سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی نے یک طرفہ فائر بندی کااعلان کر دیا تھا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم صرف بھارتی گولہ باری کا جواب ہی دے سکتے ہیں اور وہ بھی ایک حد کے اندر رہ کر کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہمارے نشانے پر نہ آئیں۔
مگر بلوچستان کا مسئلہ زیادہ سنگین ہے ا سلئے کہ چین نے سی پیک پر بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اس نے برسوں لگا کرا ور ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر قراقرم ہائی و ے کی تعمیر نو کی اور پاکستان کے اندر سڑکوں اور صنعتوں کا جال بچھایاا ور اب اسے اپنے سی پیک منصوبے کی تکمیل کے لئے گوادر کی بندر گاہ کی سخت ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے فائدے میں بھی ہے کیونکہ سی پیک ہمارے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے نے ہمیں بجلی کے بحران سے بڑی حد تک نجات دلا دی ہے مگر گوادر کی تعمیر وترقی کے ساتھ ہمارا مستقبل وابستہ ہے اورآنے والی نسلوں کی تقدیر بدلنے کی آرزو ہے۔ اسلئے ہمارا نعرہ ہونا چاہئے کہ بی ایل اے اور سی پیک ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ہمیں بی ایل اے کی دہشت گردی کی ہر صورت بیخ کنی کرنی ہے بالکل اسی طرح جیسے ہم نے ضرب عضب سے فاٹا میں دہشت گردوں کی کمر توڑی ہے۔
ہماری ایک خوش قسمتی ہے کہ اس وقت سی پیک اتھارٹی کے سربراہ جنرل عاصم باجوہ ہیں جو تین سال بلو چستان کے کور کمانڈر رہے اور انہی نے جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کیا تھا۔ جنرل باجوہ خود جانتے ہیں کہ بلوچستان کو کہاں کہاں سے خطرات لاحق ہیں۔ اور ان کا راستہ کیسے روکاجا سکتا ہے مگر سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر انکے سامنے نئے حقائق بھی آئیں گے۔ انہیں پتہ چلے گا کہ گوادر میں ہائوسنگ اسکیموں کے خوش نما اشتہاروں کے ساتھ پاکستان کے لوگوں کی جیب سے اربوں روپے نکلوائے جا چکے ہیں اور خدشہ یہ ہے کہ اگر گوادر میں ترقی کا پہیہ آگے نہ چلا تو ان ہائوسنگ اسکیموں میں پیسہ لگانے والوں کی مایوسی کا کیا عالم ہو گا۔ انہیں اربوں روپے ڈوبنے کا بھیانک خواب نظر آ رہا ہے جو ان کے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کر چکا ہے۔پچھلے چند برسوں میں جن لوگوںنے کراچی سے ساحل مکران کی سڑک کے ذریعے گوادر تک سفر کیا ان کا کہنا ہے کہ راستے میں تو کوئی بد امنی نہیں مگر گوادر میں مچھیروں کی جھونپڑیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، چینی ہنر مند گوادر ایئر پورٹ کی توسیع کر رہے ہیں ایک فائیو اسٹا ر ہوٹل بھی موجود ہے مگر آگے کیا ہے۔ یہ ہے وہ سوال جو گوادر کی ہائوسنگ سوسائیوٹیوں میں سرمایہ کاروں کے لئے ڈارئونا خواب بن چکا ہے۔ کرونا نے سب کچھ لاک ڈائون کر دیا ہے۔، چینی بھی احتیاط سے کام کر رہے ہیں ۔ حکومت نے کنسٹرکشن کے لئے بڑی مراعات کاا علان کیا ہے اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں کی جائے گی۔مگر بی ایل اے اسی طرح پھنکارتی رہی تو ہمیں اس کا گلا گھونٹا ہو گا۔ مودی کہتا ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور لڑائی اور کمائی ایک ساتھ نہیں چل سکتے تو ہمارا بھی نعرہ ہونا چاہئے کہ بی ایل اے اور سی پیک ا یک ساتھ نہیں چل سکتے۔
راحت کی ایک خبر یہ ہے کہ سلامتی کونسل نے کراچی سٹاک ایکس چینچ دہشت گردی کی واردات کی سخت الفاظ میں مذمت کی، جس سے بھارت کو بھی ایک پیغام چلا گیاہے۔ اور راحت کی ایک خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ سی پیک ہر قیمت پر مکمل کریں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024