حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’گفتگو کرو تاکہ پہچانے جائو‘‘ہماری شخصیت کی بہت سی پرتیں ہمارے بولنے، گفتگو کرنے اور اپنے خیالات کے اظہار سے ہی کھلتی ہیں، ہمارے اردگرد بیشمار ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کی ظاہری شخصیت دیکھ کر ہم ان کی مکمل شخصیت کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ لیکن ان سے بات کرکے انکی مکمل شخصیت کا اظہار ممکن ہوجاتا ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے مشہور ادبی پرچہ میں انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ایسی ایسی نابغہ روزگار شخصیات سے نہ صرف مدیرانِ ارژنگ کو ملنے کا موقع ملا بلکہ قارئین کو بھی انکے بارے میں بھرپور اور حیرت انگیز معلومات ملیں۔ ان انٹرویوز کو یکجا کرکے کتاب مرتب کرنے کا فیصلہ کیا گیااورمزید نامور شخصیات کے انٹرویوز کے سلسلہ کو دراز کرکے بہت خوبصورت اور نامور شخصیات کے انٹرویوز کو جمع کیا گیا۔ روبروکے نام سے انٹرویوز کی اس کتاب میں عامربن علی، حسن عباسی اور راقمہ یعنی لْبنٰی صفدرکیلئے گئے انٹرویوز شامل ہیں۔ تمام انٹرویوز بہت محنت سے شامل کئے گئے ہیں۔ عامر بن علی نے اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی، انور مسعود، امجد اسلام امجد، اسلم کولسری،شہزاد احمد، عطاء الحق قاسمی، عباس تابش، منو بھائی، مشکور حسین یاد اور مشتاق احمد یوسفی جیسی نامور شخصیات کے انٹرویوز کا خوبصورت گلدستہ پیش کیا ہے۔ خوبصورت سوال اور من موہ لینے والے جوابات قاری کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ جیسے اشفاق احمد ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ابتداء میں اْن انگریزی مصنفین سے متاثر تھا جن کی نظمیں اور نثر ہمارے کورس میں شامل تھیں۔ میں ان سے متاثر ہواپھر اردو نظم ونثر میں ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں نے بڑاہائٹ کیا۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب میں خود لکھنے لگا تو میں ترقی پسندی کے"ہائیٹڈ"ہائوس سے نکل کر قریب ہی چھوٹی چھوٹی جھگیاں بنانے لگا۔ جو شاید دیکھنے میں اتنی خوبصورت نہیں تھیں لیکن ان کے اندر کی رہائش بڑی پرفضائ اور پرسکون تھی۔ اس طرح احمد ندیم قاسمی ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حسن اور عشق کے موضوعات ابدی موضوعات ہیں اور اگر فیض نے حسن و عشق کی شاعری کی ہے تو یہ بھی ترقی پسندی ہے کیونکہ حسن کی بقائ اور باہمی عشق کی فضا ئ پیدا کرنے سے بڑی ترقی پسندی اور کیا ہوگی۔ اس طرح کے بے شمار خوبصورت جوابات اور عامر بن علی کے زیرک سوالات نے ان انٹرویوز کو بے حد اہم بنا دیا ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ ماہنامہ ارژنگ کے مدیر،سفرنامہ نگار اور مشہور شاعر حسن عباسی کے لئے گئے انٹرویز پر مشتمل ہے۔ حسن عباسی کی خوبی یہ ہے کہ وہ نامور شخصیات کے ساتھ ساتھ ایسی ایسی شخصیات بھی ڈھونڈ کر عوام کے سامنے لائے ہیں جن کا تعارف اس سے پہلے کسی نے کروانے کی زحمت نہیں کی۔ لیکن اپنے شعبہ کے ان ہیرو ں کو چمکانے یعنی عوام کے سامنے روشناس کروانے کا سہرا حسن عباسی کے سرجاتا ہے۔حسن عباسی کے حصہ انٹرویوز میں رفعت عباس، ڈاکٹر کوثر محمود، منصور آفاق، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، نذیر قیصر کے علاوہ احمد عدنان طارق، ڈاکٹر جعفر حسن مبارک، ڈاکٹر سلیمان، عبداللہ ڈار، سلیم شہزاد، لْبنٰی صفدر اور دیگر احباب کے عمدہ انٹرویوز شامل ہیں۔ اگرچہ حسن عباسی نے مشکل ادبی سوالات کرنے میںکوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی لیکن جواب دینے والوں نے بھی خوب جوابات دیئے ہیں۔ خیر حسن عباسی کے منفرد سوالات نے انٹرویوز کو بہت دلچسپ بنا دیا ہے۔ قاری مزید سے مزید پڑھنے کی جستجو میں اگلے صفحات اْلٹنے لگتا ہے۔ ناصر عباس نیر جوتنقید کے میدان میں اپنا نام منوا چکے ہیں۔ حسن عباسی کے سوال کہ تنقید ادب کے لئے کس قدر اہم ہے کے جواب میں ناصر عباس نیر نے جواب دیا کہ تنقید ادب ہی کیلئے نہیں ادیب، قاری، سماج کیلئے بھی اہم ہے۔ تنقید ایک سرگرمی کے طور پر عقلی ہے۔ محدود سطح پر اس کا مطالعہ فنی اصولوں سے روشناس کرواتا ہے۔ مگر بڑی سطح پر آپ کے تخیل میں بھی وسعت پیدا ہوتی ہے۔ تنقید اور دیگر موضوعات پر اس حصہ میں اہم جوابات شامل ہیں۔ کتاب کا تیسرا حصہ لْبنٰی صفدر یعنی راقمہ کے لئے گئے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ عورت ہونے کے ناطے عورتوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے اپنے شعبہ جات کی نامور شخصیات سے زیادہ انٹرویو کرسکوں۔ اس سلسلہ میں مجھے سیما غزل، نیلم احمد بشیر، بشریٰ رحمان، بشیریٰ اعجاز، یاسمین حمید جیسی عمدہ شخصیات سے نہ صرف روبرو ہونے کا موقع ملا بلکہ ان ملاقاتوں کی یادیں بھی دل پر ثبت ہوگئیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے عہد حاضر کی ایسی عمدہ ہستیوں سے مل کر ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملا اور میں اپنے شوہر کی ازحد شکرگزار ہوں کہ قیمتی وقت نکال کر ہر طرح میرے ساتھ جانے میں انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ شوہرانہ ذمہ داری کو کچھ زیادہ نبھاتے ہوئے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔
بشریٰ رحمن سے انٹرویو سے زیادہ ان سے ذاتی باتیں کرکے بہت اپنائیت کا احساس ہوا۔وہ بہت ذہین اور دل موہ لینے والی شخصیت ہیں۔ سننے والا اُن کی شخصیت کے سحر میں کھو ساجاتا ہے۔ میرے انٹرویوز میں ایک اور بہت معتبر اور اپنے شعبہ کی نامور شخصیت جناب سعید آسی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔آسی صاحب کے آفس میں کئے گئے سوالات کے جواب میں انکی یادداشتیں بہت مزیدار اور معلوماتی تھیں۔ دنیائے صحافت میں آسی صاحب کا کردار اور کام یقیناً ’’ ناقابل فراموش ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024