ایون فیلڈ ریفرنس: نوازشریف کو 10، مریم کو 7 اور صفدر کو ایک سال قید کی سزا, نوازشریف کو 80 لاکھ پاونڈ ا،مریم نواز کو 20 لاکھ پاونڈ جرمانہ , ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم
احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنادی۔احتساب عدالت نے نوازشریف کو 80 لاکھ پاونڈ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاونڈ جرمانہ بھی کیا ہے جب کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو سرکاری تحویل میں لینے کا بھی حکم دیاہے۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے مطابق نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات پر، مریم نواز کو والد کے اس جرم میں ساتھ دینے پر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں جبکہ نواز شریف،
مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق تحقیقات میں نیب کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر علیحدہ ایک ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایوان فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنانے سے قبل فریقین کے وکلا کو روسٹرم پر بلایا اور فیصلہ سنانا شروع کیا۔اس سے قبل احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کا وقت 5 مرتبہ موخر کیا گیا، پہلے یہ ساڑھے 12 بجے سنانا تھا، تاہم نماز جمعہ کے باعث اسے ڈھائی بجے کردیا گیا تھا، جو مزید بڑھا کر 3 بجے کیا گیا، تاہم اسے پھر آدھے گھنٹے آگے بڑھا کر ساڑھے 3 بجے اور بعد ازاں ساڑھے 4 بجے کیا گیا تھا۔قبل ازیں احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ 7 روز تک موخر کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی تھی۔اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کی درخواست پر سماعت کی تھی اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا،نیب پراسیکیوٹر نے ملزمان کے فیصلوں سے متعلق میڈیا کو آگاہ کیا اور مزید بتایا کہ حسین نواز اور حسن نواز عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان سے متعلق سزا نہیں سنائی گئی۔مریم نواز کو جھوٹی دستاویز جمع کرانے پر بھی ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔مسلم لیگ(ن)کی رہنما مریم نواز لاہور کے حلقہ این اے 127 اور پی پی 137 جب کہ کیپٹن (ر)صفدر این اے 14 مانسہرہ
سے امیدوار تھے جو اب الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے۔مریم نواز دو حلقوں سے انتخاب لڑ رہی تھیں، وہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 127 اور پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 173 کے لیے میدان میں تھیں اور عدالتی فیصلے کے بعد اب ان کے کوررنگ امیدوار الیکشن لڑیں گے۔مریم نواز کو این اے 127 سے تحریک انصاف کے جمشید اقبال، پیپلز پارٹی کے چوہدری عدنان سروس اور متحدہ مجلس عمل کے راشد احمد خان سمیت 9 امیدواروں سے مقابلہ کرنا تھا۔اسی طرح کیپٹن (ر)صفدر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 14 مانسہرہ 2 سے الیکشن لڑ رہے تھے جو اب انتخابی دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں، ان کے کورنگ امیدوار اب اس نشست پر انتخاب لڑیں گے۔اس حلقے پر کیپٹن (ر)محمد صفدر کا مقابلہ تحریک انصاف کے زرگل خان اور متحدہ مجلس عمل کے مفتی کفایت اللہ سے تھا جب کہ مجموعی طور پر اس حلقے سے 11 امیدوار میدان میں ہیں جس میں 4 آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔دوسری طرف ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ مریم نواز کے سزا یافتہ ہونے سے الیکشن پر فرق نہیں پڑے گا، سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے بیلٹ پیپرز سے مریم نواز کا نام نکال دیا جائے گا۔عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ ساڑھے 12 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا، تاہم اس فیصلے کو پہلے ڈھائی بجے، پھر 3 بجے اور بعدازاں ساڑھے 3 بجے تک کے لیے موخر کردیا گیا۔عدالت
کی جانب سے فیصلے کو 4 بار موخر کرکے اسے ساڑھے تین بجے سنانے کا وقت دیا تھا گیا لیکن فیصلہ تاخیر کا شکار ہوگیا اور ایک بار پھر احتساب عدالت کے جج کی جانب سے بتایا گیا کہ فیصلہ سنانے میں 30 سے 40 منٹ لگ سکتے ہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز لندن میں موجودگی کی وجہ سے جمعہ کو پیش نہیں ہوئے اور انہوںنے یہ فیصلہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں ہی سنا، جبکہ نواز شریف کے داماد کیپٹن(ر)محمد صفدر مانسہرہ میں موجودگی کی وجہ سے عدالت نہیں آئے، جہاں وہ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ جمعہ کی صبح 9 بجکر 40 منٹ پر
جب سماعت کا آغاز ہوا تو سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن میں زیر علاج اہلیہ کلثوم نواز کی تازہ میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ بیگم کلثوم نواز کی حالت تشویشناک ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق آئندہ 48 گھنٹے فیملی کا کلثوم نواز کے ساتھ ہونا ضروری ہے، لہذا فیصلے کو کچھ دن کے لیے موخر کردیا جائے۔تاہم نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے فیصلہ موخر کرنے کی درخواست کی مخالفت کردی۔ جس کے بعد جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت11 بجے تک کے لیے موخر کردی۔بعدازاں سماعت کے دوبارہ آغاز پر عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواست مسترد کردی۔واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 3 جولائی کو شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے سنانے کے لیے 6 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی۔تاہم گزشتہ روز نواز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل ظافر خان کے توسط سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کی۔درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ وہ اس ٹرائل کا حصہ رہے ہیں اور مسلسل عدالت آتے رہے لیکن اچانک صورتحال تبدیل ہوئی اور ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی طبعیت شدید خراب ہوگئی۔درخواست میں کہا گیا کہ ڈاکٹرز نے کلثوم نواز کی طبعیت میں بہتری تک واپس نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔نواز شریف کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مجبوری کے باعث وہ 6 جولائی کو پاکستان نہیں آسکتے، جیسے ہی ان کی اہلیہ کی طبعیت بہتر ہوگی وہ پاکستان آئیں گے، لہذا کچھ دن کے لیے فیصلہ موخر کیا جائے۔احتساب عدالت میں سماعت کے موقع پر اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے رینجرز کو طلب کیا جبکہ 400 پولیس اہلکار بھی تعینات تھے۔احتساب عدالت جانے والے تمام راستے عام ٹریفک کے لیے بند کردیئے گئے اور اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ تھی۔ جبکہ اس دوران صحافیوں کو بھی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس)ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔عدالت نے عدم حاضری کی بنا پر حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دے کر ان کا کیس الگ کر رکھا ہے۔مزید شواہد سامنے آنے پر نیب نے 22جنوری 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا ضمنی ریفرنس بھی احتساب عدالت میں دائر کیا۔ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر 18گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے، جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا بھی شامل تھے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا،واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی
صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کئی مواقع پر دعوی کرچکے ہیں کہ وہ مجموعی طور پر احتساب عدالت میں 100 سے زائد مرتبہ پیش ہوچکے ہیں جبکہ 9 ماہ سے زائد اس کیس کی سماعت جاری رہی۔