
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اسرائیل کے تین روزہ دورے کے بعد آج جرمنی روانہ ہونگے۔ جرمنی میں وہ جی 20 کے اجلاس میں شرکت کرینگے۔ اسرائیل کے دورے کے موقع پر بھارت اور اسرائیل کے درمیان ایک ارب ڈالر کے نام نہاد انسداد دہشت گردی تجارتی، دفاعی اور ٹیکنالوجی کے معاہدے ہوئے۔
بھارت کے اسرائیل کے ساتھ پچیس سال سے تعلقات ہیں تاہم گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں بھارت کا اسرائیل پر انحصار زیادہ بڑھا ہے۔ اسرائیل گزشتہ 15 سے 20 سال میں بھارت کو دفاعی ساز و سامان دینے کے معاملے میں چوتھا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسرائیل نے بھارت کو کئی طرح کے میزائل سسٹم، ریڈار اور ہتھیار مہیا کئے۔ بھارت کے اپنی دفاعی قوت میں اضافے کے معاہدے پاکستان کیلئے ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے مودی کے اس دورے کے دوران اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل مارک صوفر کا بیان زیادہ تشویش کا باعث ہے جس میںانہوں نے کہا کہ بھارت اور اسرائیل دونوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اسرائیل بھارت کو پاکستان سے درپیش دہشت گردی سے نمٹنے میں مکمل مدد دیگا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ لشکر طیبہ ہو یا حماس دونوں میں کوئی فرق نہیں، نہ ہم نے پہلے ان دونوں تنظیموں میں کوئی فرق کیا نہ آج کرتے ہیں۔
بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ پاکستان کیخلاف تو یقینا ہے ہی۔ اسرائیل کے پڑوسی ممالک کیلئے بھی اس گٹھ جوڑ میں خیر کا پہلو نہیں ہے۔ مودی نے فلسطینی قیادت سے ملاقات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا، بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ مسلم اُمہ کے اتحاد کا بھی متقاضی ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتامگر وہ بھارت کی طرف سے اسلحہ کے ذخائر میں اضافے پر آنکھیں بھی بند نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کے پاکستان کیخلاف عزائم اور خصوصی طور پر اسرائیل کے ساتھ اسکے پاکستان کیخلاف گٹھ جوڑ سے پیدا ہونیوالی تشویش سے عالمی برادری کوآگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مودی جی ٹونٹی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر حسب معمول پاکستان کیخلاف زہر اگلیں گے۔ اجلاس سے قبل وزارت خارجہ کو جی ٹونٹی گروپ کے ممالک کو بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم سے آگاہ کرنے کیلئے سفارتی میدان میں مزید فعال ہونا چاہئے تھا۔ جرمنی میں اجلاس کے موقع پر بھی پاکستانی سفارتخانہ یہ کردار جانفشانی سے ادا کرنے کی کوشش کرے۔