میرے دیس میں عید
رات کو میر محمد گھر آیا تو بچوں نے باپ سے کہا ابا ابا کل سے رمضان شروع ہو رہا ہے باپ نے بچوں کو پیار کرتے ہوئے کہا اس بار سب بچوں نے خوب عبادت کرنی ہے۔ چھوٹی بولی تو کیا پھر ہمیں اس بار نئے کپڑے اور جوتے ملیں گے باپ نے کچھ سوچتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا اب باپ جیسے ہی شام کو گھر آتا بچے پوچھنے لگتے ابا ہم کب بازار جائینگے عید کی شاپنگ کیلئے۔ دن آہستہ آہستہ گزرنے لگے باپ کو کسی دن مزدوری ملتی اور کسی دن نہ ملتی ایک دن میر محمد گھر آیا تو بہت افسردہ اور پریشان تھا آتے ہی بستر پر لیٹ گیا بیوی پریشانی کی وجہ تو جانتی تھی کہ رمضان کی وجہ سے بہت حد تک تعمیراتی کام رک گئے ہیں جس کی وجہ میر محمد کو مزدوری بھی نہیں ملتی اور روزانہ خالی ہاتھ گھر آنا پڑتا ہے۔ گھر میں جو راشن موجود تھا وہ بھی ختم ہو چکا تھا۔غربت میں تو رشتہ دار بھی منہ موڑ جاتے ہیں۔
میر محمد نے بیوی سے پوچھا بچے کہاں ہیں اس نے کہا ہمسائیوں نے افطاری کروائی تھی ادھر گئے تھے کیونکہ آج تو گھر میں بھی کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ میر محمد کے چہرے پر دکھ کے گہرے سائے لہراگئے ۔کچھ دیر بعد بچے گھر واپس آئے تو باپ کو دیکھ کر شور مچانے لگے ابا ہم نے بھی نئے کپڑے لینے ہیں نئے جوتے لینے ہیں۔دیکھو آج 25 رمضان ہو گیا ہے سب بچوں نے عید کی تیاری کر لی ہے باپ نے بچوں کو یہ کہہ کر خاموش کروا دیا کل چلیں گے۔بچے خوش ہو گئے اور بیوی سوچنے لگی کہ کب تک ان جھوٹے بہانوں سے بچوں کا دل بہلایا جائےگا۔ اگلے دن بچے باپ کے آنے کا شدت سے انتظار کر رہے تھے انہوں نے آج بازار شاپنگ کیلئے جو جانا تھا۔ دن سے شام ہوئی اور شام سے رات ہوئی مگر میر محمد کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ بچے بار بار ماں سے پوچھ رہے تھے ابا کب آئینگے اسکے پاس بھی بچوں کو مطمئن کرنے کیلئے کوئی جواب نہیں تھا۔ اچانک گلی میں شور سنائی دیا میر محمد کی بیوی کا دل زور زور سے دھڑ کا۔خدا خیر کرے مگر خیر کہاں لکھی تھی اس خاندان کے نصیب میں۔دروازہ کھلا تو کیا دیکھا میر محمد کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی کچھ لوگ کہ رہے تھے میر محمد نے خود کشی کی ہے کچھ کہ رہے تھے کہ نہیں یہ ایکسیڈنٹ ہے۔ ایک عجیب سا شور تھا جس میں بچوں کی آوازیں آرہی تھیں ابا ہم آپ سے بھی عید کی چیزیں نہیں مانگیں گے بس آپ واپس آجائیں۔میں کیسے نہ کہوں یہ تہوار کسی عذاب سے کم نہیں ہیں کل میں اپنے بچوں کے ساتھ لنک روڈ ماڈل ٹاﺅن مارکیٹ شاپنگ کیلئے گئی ہوئی تھی۔ عید کی وجہ سے بہت گہما گہمی تھی دکانوں میں چکاچوند روشنیاں تھیں میں بھی بچوں کیساتھ ایک شاپ میں چلی گئی رش کی وجہ سے بچوں کا خاص خیا ل رکھنا پڑتا ہے۔ میں نے بچوں کے شوز پسند کیے اور جب ان کو پہنانے لگی تو وہ مجھے دکان کے باہر شوکیس کے سامنے کھڑی ہوئی بچی کی طرف اشارہ کرنے لگے میں نے غور سے دیکھا تو وہ مختلف قسم کے فینسی جوتوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی اسکے چہرے پر حسرت، مایوسی اور دکھ کے آثار واضح نظر آرہے تھے وہ دکان میں آتے جاتے مستیاں کرتے اور ماں باپ کیساتھ ضد کر کے اپنی پسند کے شوز لینے والے بچوںکو بہت شوق اور حسرت سے دیکھ رہی تھی میں دکان سے باہر آئی اور اس کو بہت پیار سے کہا آپ یہاں اکیلی کھڑی ہو آپ کے امی ابو کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا امی وہ (فٹ پاتھ پر) بیٹھی ہے اور ابو کچھ دن پہلے ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا تھا۔ میں نے کہا بیٹا آپ کو جو شوز پسند ہیں وہ آپ کو دلوا دیتی ہوں اس نے کہا مجھے جوتے نہیں روٹی دلوا دو امی کہتی ہے ابھی چند دن پہلے تو باپ مرا ہے ہم عید کیسے منا سکتے ہیں اور میرے دل میں ایک ایسا درد کروٹیں لینے لگا جو نا قابل بیان ہے ہر سال کتنے میر محمد مزدوری نہ ملنے پر اور بچوں کی فرمائشیں پوری نہ کرنے پر ایکسیڈنٹ کا شکار ہوں گے۔حکومت کیوں خاموش ہے ان کا بنک بیلنس ملک سے باہر، کھانے پینے ملک سے باہر، انکے بچوں کی تعلیم ملک سے باہر، علاج ملک سے باہر ہے تو پھر یہ خود ملک سے کیوں نہیں چلے جاتے۔
قارئین! سچی بات تو یہ ہے کہ ہم خود ظلم سہہ سہہ کر میر محمد بنتے جا رہے ہیں۔ مذہبی روح رکھنے والوں کو اگر برا نہ لگے تو میں اتنا ضرور کہوں گی کہ مجھے کرسمس کے تہوار پر غیر مسلم سینٹ کلاز بہت پسند ہیں جو بچوں کو انکی نیند میں گفٹ دے جاتا ہے۔ اور صبح اٹھ کر گفٹ دیکھ کر ان بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔بس اپنی اپنی سوچ کی بات ہے اگر یہاں اورنج ٹرین بنانے والے سینٹ کلاز کا کردار ادا کر دیں تو کوئی بچہ کسی دکان کے شو کیس کے سامنے حسرتیں لے کر نہ کھڑا ہو اور نہ ہی کسی میر محمد کا ایکسیڈنٹ ہو۔