دشمن کے علاقے میں بڑے ٹارگٹ کو پِن پوائنٹ نشانہ بنانے کیلئے گائیڈڈ راکٹ اور میزائل استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان میں طرح طرح کی ٹیکنالوجی اور سسٹم کا استعمال ہوتا ہے۔ گائیڈڈ سسٹم ایک وسیع تر فیلڈ ہے جہاں صرف گائیڈڈ اور مس گائیڈڈ کا مفہوم واضح کرنے کیلئے اٹلس سسٹم کا مختصراً تذکرہ کافی رہے گا۔ اٹلس سسٹم ایک جنگی جہاز میں فٹ ہوتا ہے۔ ملکی حدود میں رہ کر بھی اس سسٹم کے ذریعے دشمن کے علاقے میں ڈیڑھ سو کلو میٹر تک ٹارگٹ فوکس کر کے اس پرمیزائل داغے جاتے ہیں۔ٹارگٹ پر اٹلس سسٹم کے ذریعے سگنل پھینکنے جاتے ہیں جہاں سے یہ سگنل ٹکرا کر ارد گرد پھیل جاتے ہیں حتیٰ کہ اسی جہاز کے سسٹم تک بھی پہنچتے ہیں۔ ٹارگٹ کے سائز اوراہمیت کے مطابق فائٹر اور بمبار طیاروں کی تعداد کا تعین کر کے ان میں گائیڈڈ میزائل فٹ کر دئیے جاتے ہیں۔ دیگر طیاروں میں صرف اٹلس سسٹم کا ریسیور نصب ہوتا ہے جو ٹارگٹ سے آنے والے سگنل وصول کرتا ہے اور ان سگنلزکو فالو کرتے ہوئے میزائل عین نشانے پر جا کے لگتے ہیں۔ اس سسٹم کی ایکوریسی کمال کی ہے۔ نشانہ اپنے ٹارگٹ سے ایک فُٹ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا۔ سسٹم کی خرابی یا آپریٹر کی نالائقی سے میزائل مس گائیڈ ہو کر اپنے ہی ملک کیلئے شدید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ دشمن کیلئے جتنا گائیڈڈ میزائل خطرناک ہے اتنا ہی خود اپنے لئے مس گائیڈڈ میزائل بھی خطر ناک ہے۔
ہمارے معاشرے اور سیاست کے بہت سے اہم کردار مس گائیڈڈ ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کی مدت 5 سال مقرر ہے جو خال خال ہی پوری ہوئی۔ جنرل ضیاالحق نے مارشل لائی جمہوریت کی بنیاد غیر جماعتی الیکشن کرا کے رکھی۔ محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا، انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد آزاد امیدواروں کو مسلم لیگ کی لڑی میں پرو دیا۔ جونیجو صاحب کو ساتھیوں نے ایسا مس گائیڈ کیا کہ اپنے محسن و مربی ہی کے گلے پڑنے پر تُل گئے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کی حکومت پر مس گائیڈڈ میزائل کی طرح گرتے رہے۔ دونوں نے سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے ایک دوسرے کو حکومتی مدت پوری نہ کرنے دی۔ جیلوں میں گئے، جلاوطنیاں کاٹیں تو ہوش میں آئے۔ میثاق جمہوریت پر متفق ہوئے۔ نوے کی دہائی کے سیاسی مخالفت کو دشمنی کی حد تک لے جانے والے،میثاقِ جمہوریت کے ذریعے بہن بھائی بن گئے۔ محترمہ شہید ہو گئیں تو سیاسی وراثت بھی زرداری صاحب نے جھپٹ لی۔ زرداری حکمران بنے۔ ان کی بہت سی پالیسیاں مس گائیڈڈ تھیں۔ کرپشن کواُس دور کا طرہ امتیازسمجھا جاتا تھا۔ زرداری کا تحت جب بھی لرزا، میاں نواز شریف نے اسے کندھا دے کر تھام لیا حالانکہ ایسی پالیسیوں اور اقدامات کے جنازے کو کندھا دیا جانا چاہئے تھا۔ شاید میاں نواز شریف نے خود وہی کچھ کرنا تھا جس کی انہوں نے سپورٹ کر کے زرداری حکومت کو شدید عوامی نفرت کے باوجود مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ تاہم ایک مرتبہ شدید عوامی ردعمل پر قومی غیرت جوش میں آئی اور میاں صاحب نے گو زرداری گو تحریک شروع کی جو زرداری کے اس پیغام کے ساتھ بُلبلے کی طرح بیٹھ گئی کہ میاں صاحب اگلی باری آپ کی ہے اور ہم وہی کچھ کریں گے جو آج آپ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں۔ زرداری واقعی وعدے کے پکے نکلے جو میاں صاحب کا دل و جان سے ساتھ دے کر ان کے پانچ سال پورے کرانا چاہتے ہیں، بظاہر ایسا ہی نظر آتا ہے۔
آج کی سیاست اور حالات کو دیکھیں تو طاہر القادری کا انقلاب بھی مس گائیڈڈ نظر آتا ہے اور چودھری نثار علی خان زیادہ ہی مس گائیڈڈہوچکے ہیں۔ چودھری نثار کی کئی معاملات پر میاں نواز شریف سے ناراضی ہے۔ مروجہ سیاست میں پارٹی کا سربراہ ہی چودھری ہوتا ہے، سو وہ میاں نواز شریف ہیں۔ جب سے میاں صاحب تین چار رکنی کچن کیبنٹ کی گرفت سے آزاد ہوئے ہیں ان کا وژن وسیع ہوا یا نہیں ہوا، ان کو حالات سے زیادہ آگاہی ضرورہونے لگی ہے۔ چودھری نثار اُس دور کو یاد کر رہے ہیں جب ان کے فیصلوں اور مشوروں کو میاں صاحب عقل کا سوئچ آف کر کے مان لیا کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں تو چودھری نثار علی خان روٹھ گئے۔ مشرف کو باہر بھجوانے کا فیصلہ نواز شریف کو اعتماد میں لے کر کیا جاتا تو معاملات یوں نہ بگڑتے ۔ فیصلہ کر کے حتیٰ کہ مشرف پر فرد جرم لگوا کر اپنے وزیراعظم کو اعتماد میں لینے کی کوشش میں ناکامی ناک کا مسئلہ بن گئی۔اس معاملے میں فوج چودھری نثار کی پشت پر ہو سکتی ہے۔ ضربِ عضب کے معاملے میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ چودھری نثار کو سبز باغ دکھانے اور آخری دَم تک ساتھ دینے کا یقین دلانے والوں کی کمی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 37 ایم این اے چودھری نثار کے ساتھ ہیں جو آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ دُم پر پائوں آنے سے ان کا دَم ایک دَم نکلنے لگے گا۔ چودھری نثار پیچھے مُڑ کے دیکھیں گے تو اتنے ہی لوگ کھڑے ہوں گے جتنے میاں نواز شریف کی جلاوطنی پر انکے پیچھے کھڑے تھے۔ اگر کچھ کھڑے بھی تھے ان کی پشت میاں صاحب کی طرف تھی اور ان میں ماشأاللہ چودھری صاحب بھی شامل تھے۔ چودھری صاحب کی عزت، احترام، وقار اور اقتدار مسلم لیگ (ن) کے دم قدم سے ہے۔ اپنی انا کے خول سے نکلیں شیخ رشید اور جاوید ہاشمی بننے کی کوشش نہ کریں۔ مسلم لیگ (ن) چھوڑیں گے تو یہ فیصلہ مس گائیڈڈ میزائل سے بھی زیادہ بھیانک ہو گا جسے سیاسی خودکشی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ رانا ثنااللہ نہ جانے کس خوش فہمی میں مس گائیڈڈ میزائل کی طرح اپنے ہی نشیمن پر گر گئے۔ انکے جانشین رانا مشہود بھی انکی طرح حرکات فرما رہے ہیں۔ پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق کو شاید حالات کی نزاکت کا احساس ہو گیا ہے یہ عمران کے پھٹے چُک دیو کا مشورے دیتے دیتے ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔ابنِ افتخار ارسلان کو سونے کے کان کی نگرانی سے استعفیٰ دینا پڑا تو ان کا رخ عمران خان کی طرف ہوگیا۔وہ شاید عمران خان کا تو شاید کچھ نہ بگاڑ سکیں اپنی رہی سہی عزت خاک میں ملا لیں گے۔حامد میر کو کئی دانشوروں نے اپنا رہنما مانا،وہ فوج پر برسنے اور آئی ایس آئی کو سبق سکھانے کی کوشش میں مس گائیڈ ہوگئے۔کہا تھا کسی صورت باہر نہیں جائوںگا۔اب وہ لندن تشریف لے گئے ہیں ۔
شیخ الاسلام جس طرح سے انقلاب لانے کیلئے سرگرم ہیں ان کو مس گائیڈڈ شیخ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لوگ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔عوام کو مہنگائی، لاقانونیت، بیروزگاری، بجلی و گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو خوش گمانی ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے مایوس لوگ ان کی بیعت پر تیار ہیں۔ شیخ حرم کے مریدوں، معتقدوں اور مقلدوں کی تعداد میں جہاں کوئی کمی نہیں ہوئی وہیں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا۔ آخر انقلاب آئے گا کیسے؟ کیا فوج جمہوری حکومت کو گھر بھجوا کر ڈاکٹر طاہر القادری کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار دیدے گی؟ ۔ میاں نواز شریف اگر اپنی حکومت کیلئے مس گائیڈڈ میزائل اور خودکش حملہ آور بن جاتے ہیں تو بھی قادری انقلاب کی گنجائش نہیں نکلتی۔
گائیڈڈمیزائل،مس گائیڈڈ شیخ
Jul 06, 2014