زرداری جمع گیلانی حکومت سے اپنے خلاف کرپشن کے پے در پے الزامات نہیں سنبھالے جا رہے۔ اب وہ اپنی نئی اتحادی اور ماضی قریب کی قاتل لیگ کا بوجھ اٹھانے پر بھی مجبور ہے۔ سپریم کورٹ کے ساتھ حکومت کی محاذ آرائی کے ماحول نے پہلے ہی فضا کو مکدر کر رکھا تھا اب این آئی سی ایل کیس میں تفتیشی افسر ظفر قریشی کے معاملے نے وہ صورت اختیار کر لی ہے کہ بہت سارے مبصرین کو براہ راست ٹکراﺅ ناگزیر نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے یکم جولائی کو اس افسر کی تبدیلی کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کر کے پرانے عہدے پر وایس لانے کا حکم جاری کیا تھا۔ ظفر قریشی نے دوبارہ ذمہ داری سنبھالی نہیں تھی کہ گذشتہ اتوار کی صبح وزیر داخلہ رحمن ملک نے انہیں ملاقات کے لئے بلوا کر چودھری مونس الٰہی کے خلاف کرپشن کے الزام کی تحقیقات میں نرم رویہ اختیار کرنے کے لئے کہا۔ ظفر قریشی جس کی دیانتداری اور پیشہ وارانہ کارکردگی مسلمہ امر ہے۔ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق بھی عدالت عظمٰی کے روبرو اس کی گواہی دے چکے ہیں۔ انہوں نے وزیر داخلہ کے ارشاد گرامی پر عملدرآمد کی حامی نہ بھری۔ شاخسانے کے طور پر معطل کر دئیے گئے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ انہوں نے درپیش مقدمے پر ایک ٹیلی ویژن انٹرویو پر خیالات کا اظہار کیا جو سرکاری ملازم کی حیثیت سے انہیں زیبا نہیں تھا۔ پھر ایک سرکاری خط کے مندرجات بھی منکشف کر دئیے۔
ظاہر ہے ظفر قریشی کو احتیاط برتنی چاہئے تھی۔ اپنے خلاف سخت جذبات رکھنے والی حکومت کو اس کا موقع نہیں دینا چاہئے تھا۔ لیکن اگر موصوف رحمن ملک صاحب کے حکم کے آگے سر جھکا دیتے.... مونس الٰہی صاحب کی بریت کی خاطر مدد دینے کا وعدہ کر لیتے تو پھر ظاہر جتنے مرضی ٹیلی ویژن انٹرویو دیتے۔ چاہے کوئی بھی سرکاری خط اخبارات میں شائع ہو جاتا ان کا بال بیکا نہ ہوتا۔ نوکری قائم رہتی۔ سرکار دربار میں عزت بھی بڑھتی.... انہوں نے اس راستے کو اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ رہ گئی سپریم کورٹ کی ناراضی۔ حکومت کو پہلے کب اس کی پرواہ تھی جو اب فکرمند ہو.... لیکن اس سارے کام میں موجودہ حکومت کی بدنیتی جس طرح آشکارہ ہوئی ہے وہ پوری قوم کے لئے باعث تشویش ہے اگر کرپشن کی سرپرستی اور عدالت عظمٰی کی توہین اسی طرح جاری رہی تو ملک کی رگوں کے اندر جو تھوڑا سا خون باقی ہے اسے بھی نچوڑ کر رکھ لیا جائے گا۔ ظفر قریشی کی برطرفی سے قبل چودھری برادران نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر داخلہ رحمن ملک سے ملاقات کی انہیں یقین دلایا گیا مونس الٰہی کی رہائی جلد از جلد ممکن بنائی جائے گی۔ کرپشن کے الزام کے پلے کچھ نہ رہنے دیا جائے گا۔ کون نہیں جانتا چودھری برادران اپنی بچی کھچی ق لیگ کے ساتھ حکومت کے اتحادی اسی لئے بنے ہیں کہ ان کے چشم و چراغ اور سیاسی وارث کے خلاف کرپشن کے مقدمے پر جو خاصا مضبوط ہے اور آگے بڑھ چکا ہے منوں مٹی ڈال دی جائے.... حکومت کو بھی اپنے بچاﺅ کی خاطر نئے اتحادیوں کی ضرورت ہے کیونکہ پرانے ساتھ چھوڑ رہے ہیں.... ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت جواب دے چکے ہیں۔ باقی جو ہیں ہوا کا رخ دیکھ کر کسی وقت بھی نئی اڑان لے سکتے ہیں۔ ملک کی سیاست کا مدار اگر بدعنوانی کے مقدمات کے من مانے فیصلوں پر رہا تو یہ اقتدار یہ حکومت تابکے۔ گرینڈ اپوزیشن کی تشکیل ہو رہی ہے۔ یہ کسی حکومت کے آنے جانے کا مسئلہ نہیں۔ ملک کا وقار اور مستقبل داﺅ پر لگا ہوا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت پر نگاہ ڈالئے۔ کرپشن کی وہاں کمی نہیں۔ لیکن محاسبے کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ وہاں کی سپریم کورٹ بھی ہماری عدالت عظمٰی کی مانند پوری طرح مستعد ہے۔ بھارتی حکومت اور اپوزیشن بھی کرپشن کے قلع قمع کی خاطر کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتیں۔ انہوں نے اس مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی ہے۔ بدعنوانیوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی خاطر باقاعدہ اتحاد قائم کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہاں کے حکمران اپنی عدالت عظمٰی کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے اس کا دست و بازو بننا چاہتے ہیں۔ زرداری جمع گیلانی حکومت کو اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لینا چاہئے۔
ظاہر ہے ظفر قریشی کو احتیاط برتنی چاہئے تھی۔ اپنے خلاف سخت جذبات رکھنے والی حکومت کو اس کا موقع نہیں دینا چاہئے تھا۔ لیکن اگر موصوف رحمن ملک صاحب کے حکم کے آگے سر جھکا دیتے.... مونس الٰہی صاحب کی بریت کی خاطر مدد دینے کا وعدہ کر لیتے تو پھر ظاہر جتنے مرضی ٹیلی ویژن انٹرویو دیتے۔ چاہے کوئی بھی سرکاری خط اخبارات میں شائع ہو جاتا ان کا بال بیکا نہ ہوتا۔ نوکری قائم رہتی۔ سرکار دربار میں عزت بھی بڑھتی.... انہوں نے اس راستے کو اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ رہ گئی سپریم کورٹ کی ناراضی۔ حکومت کو پہلے کب اس کی پرواہ تھی جو اب فکرمند ہو.... لیکن اس سارے کام میں موجودہ حکومت کی بدنیتی جس طرح آشکارہ ہوئی ہے وہ پوری قوم کے لئے باعث تشویش ہے اگر کرپشن کی سرپرستی اور عدالت عظمٰی کی توہین اسی طرح جاری رہی تو ملک کی رگوں کے اندر جو تھوڑا سا خون باقی ہے اسے بھی نچوڑ کر رکھ لیا جائے گا۔ ظفر قریشی کی برطرفی سے قبل چودھری برادران نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر داخلہ رحمن ملک سے ملاقات کی انہیں یقین دلایا گیا مونس الٰہی کی رہائی جلد از جلد ممکن بنائی جائے گی۔ کرپشن کے الزام کے پلے کچھ نہ رہنے دیا جائے گا۔ کون نہیں جانتا چودھری برادران اپنی بچی کھچی ق لیگ کے ساتھ حکومت کے اتحادی اسی لئے بنے ہیں کہ ان کے چشم و چراغ اور سیاسی وارث کے خلاف کرپشن کے مقدمے پر جو خاصا مضبوط ہے اور آگے بڑھ چکا ہے منوں مٹی ڈال دی جائے.... حکومت کو بھی اپنے بچاﺅ کی خاطر نئے اتحادیوں کی ضرورت ہے کیونکہ پرانے ساتھ چھوڑ رہے ہیں.... ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت جواب دے چکے ہیں۔ باقی جو ہیں ہوا کا رخ دیکھ کر کسی وقت بھی نئی اڑان لے سکتے ہیں۔ ملک کی سیاست کا مدار اگر بدعنوانی کے مقدمات کے من مانے فیصلوں پر رہا تو یہ اقتدار یہ حکومت تابکے۔ گرینڈ اپوزیشن کی تشکیل ہو رہی ہے۔ یہ کسی حکومت کے آنے جانے کا مسئلہ نہیں۔ ملک کا وقار اور مستقبل داﺅ پر لگا ہوا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت پر نگاہ ڈالئے۔ کرپشن کی وہاں کمی نہیں۔ لیکن محاسبے کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ وہاں کی سپریم کورٹ بھی ہماری عدالت عظمٰی کی مانند پوری طرح مستعد ہے۔ بھارتی حکومت اور اپوزیشن بھی کرپشن کے قلع قمع کی خاطر کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتیں۔ انہوں نے اس مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی ہے۔ بدعنوانیوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی خاطر باقاعدہ اتحاد قائم کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہاں کے حکمران اپنی عدالت عظمٰی کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے اس کا دست و بازو بننا چاہتے ہیں۔ زرداری جمع گیلانی حکومت کو اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لینا چاہئے۔