-1 یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور پر لیکچر دیتے ہوئے ہمارے استاد فرمایا کرتے تھے
If you dig deep into the Politics of Middle East you will Find Oil
(اگر آپ مشرق وسطیٰ کی سیاست کو عمیق نگاہی سے دیکھیں تو یہ تیل میں تربتر نظر آئے گی) پچاس برس ہونے کو آئے ہیں لیکن وہ تجزیہ آج بھی حقیقت کے قریب تر نظر آتا ہے۔ استعماریت چہرے اور نقاب بدلتی رہتی ہے لیکن مطیع نظر نہیں بدلتا۔ اسے سادہ لفظوں میںHEGE MONIC INTENTIONS کہا جا سکتا ہے۔ کسی زمانے میں برطانیہ کا مڈل ایسٹ کی سیاست میں بڑا عمل دخل تھا۔ حکمرانوں کو گرانے اور سلطنتوں کے جوڑ توڑ کا ماہر تھا۔ لارنس جیسا بدطینت شخص بھی برطانوی تھا۔ برٹش ایمپائر جس پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ امریکہ بہادر نے بڑے موثر طریقے سے وہ رول سنبھال لیا ہے۔ برطانیہ کی حیثیت محض اس سازندے جیسی رہ گئی ہے جو قوالی کے پیچھے بیٹھا تالی بجاتا اور بُز اخفش کی طرح سر ہلاتا رہتا ہے۔
امریکہ مشرق وسطیٰ کے تیل کے چشموں کو اپنی جائیداد سمجھتا ہے۔ ساری دنیا کی معیشت کا پہیہ اسی گرم سیال سے چلتا ہے۔ جائیداد کی حفاظت کےلئے ایک چوکیدار کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ بہادر نے اسرائیل کی صورت میں ایک خونخوار جانور چوکیداری کےلئے پال رکھا ہے۔ اس کی رعونت کا یہ عالم ہے کہ کبھی کبھی مالک کو بھی بھونک لیتا ہے۔ 1920ءکی دہائی میں برطانوی وزیر اعظم لارڈ بیلفور نے یہودی ریاست کے قیام کا جو وعدہ کیا تھا۔ وہ 40 کی دہائی میں مغربی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے پورا ہو گیا۔ اسرائیل کی صورت میں ایک یہودی ریاست معرض وجود میں آ گئی۔ فلسطینیوں کو ان کے اپنے ہی گھر سے نکال دیا گیا اور 1967ءکی یکطرفہ جنگ کے بعد اسرائیل نے مصر کا سینائی ڈیزرٹ، شام کی گولان پہاڑیوں اور دریائے اردن کے مغربی کناروں تک اپنی ریاست پھیلا دی۔ اس طرح باقی عرب ریاستوں میں اس قدر خوف و ہراس چھا گیا کہ انہوں نے امریکہ کی ہر بات پر لبیک کہنا شروع کر دیا۔ وقتاً فوقتاً کسی حکمران نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو وہ سر ہی کاٹ دیا گیا۔ شاہ فیصل اسلامی بلاک بنانا چاہتا تھا۔ اسے اپنے ہی خاندان کے ایک شخص کے ہاتھوں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ صدام حسین میں ہزار خامیاں تھیں لیکن وہ امریکہ اور اسرائیل کا دشمن تھا۔ اس نے جان سے تو جانا ہی تھا، ملک بھی گنوا بیٹھا، سامراجی طاقتوں کی ہلاشیری پر پہلے اس نے ایران پر حملہ کیا پھر کویت پر قبضہ کر لیا، نتیجتاً ایک انچ زمین بھی فتح نہ کر سکا لیکن لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے اور کھربوں ڈالر جنگ کی آگ میں جل گئے۔
-2لیبا کے معمر قذافی کے قضیے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ شخص گذشتہ چار دہائیوں سے اقتدار کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ کسی جمہوری طریقے سے اس نے حکومت حاصل نہ کی بلکہ ایک انقلاب نے فوجی کرنیل کو حکمران بنا دیا۔ ایک عرصے سے اہل مغرب کو تشویش تھی کہ یہ تیل کو کسی نہ کسی دن بطور ہتھیار کے استعمال کرے گا چنانچہ اس کو گرانے کی سازش کئی سالوں سے پک رہی تھی۔ اب حالات کچھ اس نہج پر آ گئے ہیں کہ لگتا ہے ”سرآمد روز گارے ایں فقیرے---“ لیکن کافی حد تک اپنی تباہی اور لیبیا کی بربادی کا مصنف یہ خود ہی ہے۔ مغربی طاقتوں کو تیل کے چشموں پر قبضہ کرنے کا ایک جواز چاہئے تھا جو اس نے اپنی نادانی اور عاقبت نااندیشی سے مہیا کر دیا ہے۔
-3 جب شروع میں اس نے اقتدار سنبھالا تو کچھ عرصہ کےلئے اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ ایک سچا مسلمان، نڈر سپاہی اور عالم اسلام کو متحد رکھنے والا شخص آ گیا ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ امیدیں دم توڑ نے لگیں۔ جب اسلامی سمٹ میں شمولیت کے لئے لاہور آیا تو لوگوں نے اس کا ہیرو کی طرح استقبال کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اس نے کرکٹ سٹیڈیم میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا اور سٹیڈیم کا نام اس کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ کسی دل جلے سے پوچھا گیا قذافی کیسا ہو گا؟ بولا بالکل کامیڈین فلمسٹار رنگیلے کا بڑا بھائی لگتا ہے۔ بعد میں اس نے حرکتیں بھی رنگیلے جیسی شروع کر دیں۔ مصر کے ساتھ لیبیا کا الحاق کیا اور تھوڑے عرصے بعد خود ہی الگ ہو گیا۔ ایک عرب کانفرنس میں شاہ حسین پر پستول تان لیا۔ پاکستان کو مالی امداد دینے کی بجائے مذہبی جنونیوں کا سرپرست بن بیٹھا۔ لاکر بی جہاز کا حادثہ بھی اسی کی انگیخت پر ہوا۔ قبل ازیں بھی مغربی طاقتوں نے اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئیں۔ ہوائی حملے ناکام ہوئے کیونکہ Desert Fox جرمن جرنیل رومیل کی طرح یہ بھی صحرائی وسعتوں میں گم ہو جاتا تھا۔
-4 لیکن اب کے سرگرانی اور ہے! تیونس سے آزادی کی جولہر اٹھی ہے اس نے مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گراں خواب اور آمریت کی چکی میں پسے ہوئے لوگ بیدار ہونے لگے ہیں--- تیونس، مصر اور یمن کے بعد اب لیبیا کی باری ہے جو کام مغربی سامراج برسوں نہ کر سکا وہ حکمرانوں کی بے حسی، خود غرضی اور ہوس زر نے کر دکھایا ہے۔ لیبیا کے عوام آمر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ذرا قذافی کا ردعمل تو دیکھیں! اس نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ ”ان چوہوں کو ختم کر دیا جائے“۔ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک شخص جو گذشتہ 41 برسوں سے اقتدار کے مزے لوٹتا رہا ہے۔ جو سب طبل و علم کا مالک و مختار رہا ہے، محض ہوس اقتدار میں اپنی ہی رعایا کو موت کی نیند سلانے پر تل گیا ہے--- کم عقل ایک بنیادی بات نہیں سمجھ پا رہا۔ اس کا جانا تو ٹھہر گیا ہے۔ صبح گیا یا شام گیا لیکن مغربی طاقتیں اقوام متحدہ کے ریزولیوشن کی آڑ میں لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے ساری ایئرفورس تباہ کر دی ہے۔ نیوی کے سب جہاز ڈبو ڈالے ہیں۔ ہر قسم کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ختم کر دیا ہے۔ ٹینکوں اور توپوں کوScrap Iron میں تبدیل کر دیا ہے۔ محلات اور عظیم الشان عمارات زمین بوس ہو گئی ہیں۔ اقتدار چھوڑنے سے پہلے یہ اپنے پیچھے کچھ بھی نہیں چھوڑ جائے گا۔ یہ نقصان صرف لیبیا کا نہیں سارے عالم اسلام کا ہے--- کیا اس نے کبھی سوچا ہے کہ جو شخص محض شخصی اقتدار کی خاطر ان گنت لوگوں کو لقمہ اجل بنا ڈالے، اس کو تاریخ کن الفاظ میں یاد کرتی ہے!
If you dig deep into the Politics of Middle East you will Find Oil
(اگر آپ مشرق وسطیٰ کی سیاست کو عمیق نگاہی سے دیکھیں تو یہ تیل میں تربتر نظر آئے گی) پچاس برس ہونے کو آئے ہیں لیکن وہ تجزیہ آج بھی حقیقت کے قریب تر نظر آتا ہے۔ استعماریت چہرے اور نقاب بدلتی رہتی ہے لیکن مطیع نظر نہیں بدلتا۔ اسے سادہ لفظوں میںHEGE MONIC INTENTIONS کہا جا سکتا ہے۔ کسی زمانے میں برطانیہ کا مڈل ایسٹ کی سیاست میں بڑا عمل دخل تھا۔ حکمرانوں کو گرانے اور سلطنتوں کے جوڑ توڑ کا ماہر تھا۔ لارنس جیسا بدطینت شخص بھی برطانوی تھا۔ برٹش ایمپائر جس پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ امریکہ بہادر نے بڑے موثر طریقے سے وہ رول سنبھال لیا ہے۔ برطانیہ کی حیثیت محض اس سازندے جیسی رہ گئی ہے جو قوالی کے پیچھے بیٹھا تالی بجاتا اور بُز اخفش کی طرح سر ہلاتا رہتا ہے۔
امریکہ مشرق وسطیٰ کے تیل کے چشموں کو اپنی جائیداد سمجھتا ہے۔ ساری دنیا کی معیشت کا پہیہ اسی گرم سیال سے چلتا ہے۔ جائیداد کی حفاظت کےلئے ایک چوکیدار کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ بہادر نے اسرائیل کی صورت میں ایک خونخوار جانور چوکیداری کےلئے پال رکھا ہے۔ اس کی رعونت کا یہ عالم ہے کہ کبھی کبھی مالک کو بھی بھونک لیتا ہے۔ 1920ءکی دہائی میں برطانوی وزیر اعظم لارڈ بیلفور نے یہودی ریاست کے قیام کا جو وعدہ کیا تھا۔ وہ 40 کی دہائی میں مغربی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے پورا ہو گیا۔ اسرائیل کی صورت میں ایک یہودی ریاست معرض وجود میں آ گئی۔ فلسطینیوں کو ان کے اپنے ہی گھر سے نکال دیا گیا اور 1967ءکی یکطرفہ جنگ کے بعد اسرائیل نے مصر کا سینائی ڈیزرٹ، شام کی گولان پہاڑیوں اور دریائے اردن کے مغربی کناروں تک اپنی ریاست پھیلا دی۔ اس طرح باقی عرب ریاستوں میں اس قدر خوف و ہراس چھا گیا کہ انہوں نے امریکہ کی ہر بات پر لبیک کہنا شروع کر دیا۔ وقتاً فوقتاً کسی حکمران نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو وہ سر ہی کاٹ دیا گیا۔ شاہ فیصل اسلامی بلاک بنانا چاہتا تھا۔ اسے اپنے ہی خاندان کے ایک شخص کے ہاتھوں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ صدام حسین میں ہزار خامیاں تھیں لیکن وہ امریکہ اور اسرائیل کا دشمن تھا۔ اس نے جان سے تو جانا ہی تھا، ملک بھی گنوا بیٹھا، سامراجی طاقتوں کی ہلاشیری پر پہلے اس نے ایران پر حملہ کیا پھر کویت پر قبضہ کر لیا، نتیجتاً ایک انچ زمین بھی فتح نہ کر سکا لیکن لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے اور کھربوں ڈالر جنگ کی آگ میں جل گئے۔
-2لیبا کے معمر قذافی کے قضیے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ شخص گذشتہ چار دہائیوں سے اقتدار کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ کسی جمہوری طریقے سے اس نے حکومت حاصل نہ کی بلکہ ایک انقلاب نے فوجی کرنیل کو حکمران بنا دیا۔ ایک عرصے سے اہل مغرب کو تشویش تھی کہ یہ تیل کو کسی نہ کسی دن بطور ہتھیار کے استعمال کرے گا چنانچہ اس کو گرانے کی سازش کئی سالوں سے پک رہی تھی۔ اب حالات کچھ اس نہج پر آ گئے ہیں کہ لگتا ہے ”سرآمد روز گارے ایں فقیرے---“ لیکن کافی حد تک اپنی تباہی اور لیبیا کی بربادی کا مصنف یہ خود ہی ہے۔ مغربی طاقتوں کو تیل کے چشموں پر قبضہ کرنے کا ایک جواز چاہئے تھا جو اس نے اپنی نادانی اور عاقبت نااندیشی سے مہیا کر دیا ہے۔
-3 جب شروع میں اس نے اقتدار سنبھالا تو کچھ عرصہ کےلئے اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ ایک سچا مسلمان، نڈر سپاہی اور عالم اسلام کو متحد رکھنے والا شخص آ گیا ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ امیدیں دم توڑ نے لگیں۔ جب اسلامی سمٹ میں شمولیت کے لئے لاہور آیا تو لوگوں نے اس کا ہیرو کی طرح استقبال کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اس نے کرکٹ سٹیڈیم میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا اور سٹیڈیم کا نام اس کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ کسی دل جلے سے پوچھا گیا قذافی کیسا ہو گا؟ بولا بالکل کامیڈین فلمسٹار رنگیلے کا بڑا بھائی لگتا ہے۔ بعد میں اس نے حرکتیں بھی رنگیلے جیسی شروع کر دیں۔ مصر کے ساتھ لیبیا کا الحاق کیا اور تھوڑے عرصے بعد خود ہی الگ ہو گیا۔ ایک عرب کانفرنس میں شاہ حسین پر پستول تان لیا۔ پاکستان کو مالی امداد دینے کی بجائے مذہبی جنونیوں کا سرپرست بن بیٹھا۔ لاکر بی جہاز کا حادثہ بھی اسی کی انگیخت پر ہوا۔ قبل ازیں بھی مغربی طاقتوں نے اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئیں۔ ہوائی حملے ناکام ہوئے کیونکہ Desert Fox جرمن جرنیل رومیل کی طرح یہ بھی صحرائی وسعتوں میں گم ہو جاتا تھا۔
-4 لیکن اب کے سرگرانی اور ہے! تیونس سے آزادی کی جولہر اٹھی ہے اس نے مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گراں خواب اور آمریت کی چکی میں پسے ہوئے لوگ بیدار ہونے لگے ہیں--- تیونس، مصر اور یمن کے بعد اب لیبیا کی باری ہے جو کام مغربی سامراج برسوں نہ کر سکا وہ حکمرانوں کی بے حسی، خود غرضی اور ہوس زر نے کر دکھایا ہے۔ لیبیا کے عوام آمر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ذرا قذافی کا ردعمل تو دیکھیں! اس نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ ”ان چوہوں کو ختم کر دیا جائے“۔ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک شخص جو گذشتہ 41 برسوں سے اقتدار کے مزے لوٹتا رہا ہے۔ جو سب طبل و علم کا مالک و مختار رہا ہے، محض ہوس اقتدار میں اپنی ہی رعایا کو موت کی نیند سلانے پر تل گیا ہے--- کم عقل ایک بنیادی بات نہیں سمجھ پا رہا۔ اس کا جانا تو ٹھہر گیا ہے۔ صبح گیا یا شام گیا لیکن مغربی طاقتیں اقوام متحدہ کے ریزولیوشن کی آڑ میں لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے ساری ایئرفورس تباہ کر دی ہے۔ نیوی کے سب جہاز ڈبو ڈالے ہیں۔ ہر قسم کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ختم کر دیا ہے۔ ٹینکوں اور توپوں کوScrap Iron میں تبدیل کر دیا ہے۔ محلات اور عظیم الشان عمارات زمین بوس ہو گئی ہیں۔ اقتدار چھوڑنے سے پہلے یہ اپنے پیچھے کچھ بھی نہیں چھوڑ جائے گا۔ یہ نقصان صرف لیبیا کا نہیں سارے عالم اسلام کا ہے--- کیا اس نے کبھی سوچا ہے کہ جو شخص محض شخصی اقتدار کی خاطر ان گنت لوگوں کو لقمہ اجل بنا ڈالے، اس کو تاریخ کن الفاظ میں یاد کرتی ہے!