لوڈشیڈنگ کےخلاف احتجاج کے نتیجے میں میانوالی میدان جنگ بنا رہا۔ لانگ مارچ پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا‘ شیلنگ کی اور فائرنگ جبکہ اس مظاہرے میں 3 افراد پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے اور چھ شدید زخمی۔
حکومتِ وقت اب اس بات کو وزن دے کہ لوڈشیڈنگ روزبروز اس کیلئے سیلاب بلا بنتی جا رہی ہے اور اس سے تنگ آئے لوگوں کو اگر حکومتی فورس گولی کا نشانہ بنائے گی تو یہ گولیاں پلٹ کر بھی آسکتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر بجلی کی پیداوار کا کام شروع کر دیا جائے۔
بلوچستان کے کوئلے کو فوری طور پر بجلی میں بدلنے کاآغاز کیا جائے‘ ایران سے سستی بجلی کی آفر پر بھی توجہ دی جائے اور جس قدر جلد ہو سکے‘ اسے پاکستان تک پہنچایا جائے۔ ہم اگر اپنے وسائل کو بروئے کار نہ لائیں گے اور برادر دوست ملک کی پیشکش پر عملدرآمد نہ کرینگے تو نہ صرف دوست ملک ناراض ہو گا‘ پورے ملک میں افراتفری بھی پھیلے گی جس کا فائدہ ان لوگوں کو پہنچے گا جو حکومت گرانے جمہوریت کو رخصت کرنے کیلئے بے تاب ہی نہیں‘ بلکہ ایک طرح سے مہم بھی شروع کر چکے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے اور ہماری سیاسی قیادت نے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ پر توجہ نہ دی تو پھر یہ شعر بھی زیرغور لے آئے شاید ہم اپنی بات سمجھانے پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں....
اس تک پہنچنے کی امید بہت کم ہے
کشتی بھی پرانی ہے اور طوفاں کو بھی آنا ہے
٭....٭....٭....٭
نیا لندن پلان یہ ہے کہ وہاں سیاست سے زیادہ اثاثے خریدنے پر زور ہے‘ سیاست دان اثاثے مختلف عزیزوں‘ رشتہ داروں کے نام منتقل کر رہے ہیں۔ مختلف نامی گرامی جانے پہچانے سیاست دان یکے بعد دیگرے لندن پہنچ رہے ہیں۔
شاید سیاست دانوں کو ابلیس سیاست کی جانب سے اشارہ مل گیا ہے کہ اب....
چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
تونے تنکا تنکا چن کر نگری ایک بسائی
سدا رہا ہے اس دنیا میں کس کا آب و دانہ
یہ نیا لندن پلان کیا ہے‘ یہ تو ہمیں کوئی پلاٹ لگتا ہے‘ خدا جانے اب یہ کسی نئے ڈرامے کا پلاٹ ہے‘ یا بیرون و اندرون ملک کا کوئی زمینی پلاٹ‘ بہرحال جو بھی ہے‘ لاجواب ہے۔ اگر اسی طرح سیاست پر زور کے بجائے بیرون ملک اثاثے بنانے پر توجہ رہی تو یہاں عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ ”لٹو تے پھٹو“ یہ جو دورے ہیں‘ اگر تو یہ وطن کیلئے اثاثے لا نہیں سکتے تو یہاں سے لے کر تو نہ جائیں۔ پاکستان کے حکمرانوں سیاستدانوں کا اس کثرت سے بیرونی دورے کرنا اور سیر سپاٹوں پر مائل ہونا حب الوطنی کی روح کے بھی خلاف ہے۔ آئیں اپنی سیٹوں کو رونق بخشیں اور اپنے ان دفاتر کو زینت جن کی آرائش پر قومی خزانے سے کروڑوں خرچ ہوئے۔ ویسے یہ بھی بہترین طریقہ ہو سکتا ہے حکومت کرنے کا کہ لندن یا امریکہ کے کسی لگژری فلیٹ سے بذریعہ فون حکومت چلائی جائے۔ اس سے سیکورٹی کا کوئی پرابلم بھی نہیں رہے گا اور یہاں ٹریفک بھی رواں دواں رہے گی۔ لگتا ہے کہ حکمران سیاست دان اس وطن پاک کو کسی طرح بھی محفوظ نہیں سمجھنے لگے ہیں اور یہ بھی افواہ ہے کہ 2012ءمیں کچھ ہونیوالا ہے یہ بھاگ دوڑ کہیں اسی وجہ سے تو نہیں؟
٭....٭....٭....٭
سٹیٹ بنک نے کہا ہے‘ حکومتی اخراجات بڑھ رہے ہیں‘ مہنگائی روکنے کیلئے سرکاری قرضوں پر پابندی لگانا ہو گی۔
سٹیٹ بنک تو پہلے ہی پیٹ بنک بن چکا ہے‘ جہاں سے موٹی توندوں والے حکومتی اخراجات کے بہانے اپنے اخراجات کیلئے قرضے لیتے رہتے ہیں۔ سٹیٹ بنک نے صرف یہ کیوں کہا کہ اب سرکاری قرضوں پر پابندی لگانی ہو گی۔ اب تک تو پابندی لگ جانی چاہیے تھی تاکہ اسے شکایت کا موقع ہی نہ ملتا۔ حکومت اپنے اخراجات برائے حکومتی افراد کم نہیں کر سکتی‘ اسی لئے سٹیٹ بنک اپنی بات پر پکا رہے‘ وگرنہ یہ بڑوں کے اللے تللے‘ عوام کیلئے مہنگائی کو اسی طرح برقرار رکھیں گے۔ بنک نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ توانائی کا بحران معیشت کیلئے زہر قاتل ہے۔ سٹیٹ بنک کو جب یہ خبر ہے کہ پاکستان کی معیشت باہر منتقل ہو چکی ہے تو پھر کیسا زہر اور کیسی معیشت؟
معیشت کی بدحالی کا تو یہ حال ہے کہ زہر خرید کر لاﺅ اور خودکشی کی کوشش کرو تو بھی بندہ غازی ہی رہتا ہے۔ ہماری معیشت جب سرے سے موجود ہی نہیں تو پھر اس کو خطرہ کیسا؟ وہی وزیر معاشیات جو مشرف کا انتخاب تھے‘ آج کے مشرف کی بھی پسند ہیں‘ تو پھر؟
ہمارے حکمران جس طرح سے حکومت اور جمہوریت چلا رہے ہیں ....
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
٭....٭....٭....٭
گاڑی امریکی سفارت خانے سے باہر کھڑی کرنے کی ہدایت پر سینیٹر حاجی عدیل تقریب میں شرکت کئے بغیر واپس چلے گئے۔
حاجی عدیل کی پٹھانی رگ پھڑک اٹھی اور وہ گاڑی باہر کھڑی کرنے پر خار کھا کر سفارت خانے میں ہونیوالی تقریب چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی سفارت خانے میں ہم جنس پرستوں کی تقریب ہو رہی ہو اور حاجی انجانے میں اسے مس کر گئے‘ حاجی عدیل کی گاڑی کو امریکی سفارت خانے نے کیوں اندر نہ جانے دیا‘ حالانکہ وہ ایک ذمہ دار سینیٹر ہیں۔ شاید خیبر پی کے کو اسکی اوقات محسوس کرانا مقصود ہو۔ مگر وہ یہ بھی تو دیکھیں کہ کتنے ہی شرکاءکی گاڑیاں اندر نہ جانے دی گئی ہونگی۔ مگر انہوں نے امریکی سفارت خانے کی وجہ شہرت سے استفادہ ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ان دنوں امریکی سفارت خانہ خاصا پررونق بنا دیا گیا ہے اور اس میں ہر ذوق رکھنے والوں کیلئے تقریبات بھی بڑھا دی گئی ہیں۔ پھر حاجی صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ شاید وہ اس انداز کو ہتک سمجھے اور شمولیت کئے بغیر واپس چلے گئے۔ امریکی سفارت خانے کو یہ تو انہوں نے باور کرادیا کہ ایک پاکستانی ایسا بھی نکلا جس نے ہتک برداشت نہیں کی‘ وہ شاید بیرون ملک بھی نہیں جاتے کہ....
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
حکومتِ وقت اب اس بات کو وزن دے کہ لوڈشیڈنگ روزبروز اس کیلئے سیلاب بلا بنتی جا رہی ہے اور اس سے تنگ آئے لوگوں کو اگر حکومتی فورس گولی کا نشانہ بنائے گی تو یہ گولیاں پلٹ کر بھی آسکتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر بجلی کی پیداوار کا کام شروع کر دیا جائے۔
بلوچستان کے کوئلے کو فوری طور پر بجلی میں بدلنے کاآغاز کیا جائے‘ ایران سے سستی بجلی کی آفر پر بھی توجہ دی جائے اور جس قدر جلد ہو سکے‘ اسے پاکستان تک پہنچایا جائے۔ ہم اگر اپنے وسائل کو بروئے کار نہ لائیں گے اور برادر دوست ملک کی پیشکش پر عملدرآمد نہ کرینگے تو نہ صرف دوست ملک ناراض ہو گا‘ پورے ملک میں افراتفری بھی پھیلے گی جس کا فائدہ ان لوگوں کو پہنچے گا جو حکومت گرانے جمہوریت کو رخصت کرنے کیلئے بے تاب ہی نہیں‘ بلکہ ایک طرح سے مہم بھی شروع کر چکے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے اور ہماری سیاسی قیادت نے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ پر توجہ نہ دی تو پھر یہ شعر بھی زیرغور لے آئے شاید ہم اپنی بات سمجھانے پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں....
اس تک پہنچنے کی امید بہت کم ہے
کشتی بھی پرانی ہے اور طوفاں کو بھی آنا ہے
٭....٭....٭....٭
نیا لندن پلان یہ ہے کہ وہاں سیاست سے زیادہ اثاثے خریدنے پر زور ہے‘ سیاست دان اثاثے مختلف عزیزوں‘ رشتہ داروں کے نام منتقل کر رہے ہیں۔ مختلف نامی گرامی جانے پہچانے سیاست دان یکے بعد دیگرے لندن پہنچ رہے ہیں۔
شاید سیاست دانوں کو ابلیس سیاست کی جانب سے اشارہ مل گیا ہے کہ اب....
چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
تونے تنکا تنکا چن کر نگری ایک بسائی
سدا رہا ہے اس دنیا میں کس کا آب و دانہ
یہ نیا لندن پلان کیا ہے‘ یہ تو ہمیں کوئی پلاٹ لگتا ہے‘ خدا جانے اب یہ کسی نئے ڈرامے کا پلاٹ ہے‘ یا بیرون و اندرون ملک کا کوئی زمینی پلاٹ‘ بہرحال جو بھی ہے‘ لاجواب ہے۔ اگر اسی طرح سیاست پر زور کے بجائے بیرون ملک اثاثے بنانے پر توجہ رہی تو یہاں عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ ”لٹو تے پھٹو“ یہ جو دورے ہیں‘ اگر تو یہ وطن کیلئے اثاثے لا نہیں سکتے تو یہاں سے لے کر تو نہ جائیں۔ پاکستان کے حکمرانوں سیاستدانوں کا اس کثرت سے بیرونی دورے کرنا اور سیر سپاٹوں پر مائل ہونا حب الوطنی کی روح کے بھی خلاف ہے۔ آئیں اپنی سیٹوں کو رونق بخشیں اور اپنے ان دفاتر کو زینت جن کی آرائش پر قومی خزانے سے کروڑوں خرچ ہوئے۔ ویسے یہ بھی بہترین طریقہ ہو سکتا ہے حکومت کرنے کا کہ لندن یا امریکہ کے کسی لگژری فلیٹ سے بذریعہ فون حکومت چلائی جائے۔ اس سے سیکورٹی کا کوئی پرابلم بھی نہیں رہے گا اور یہاں ٹریفک بھی رواں دواں رہے گی۔ لگتا ہے کہ حکمران سیاست دان اس وطن پاک کو کسی طرح بھی محفوظ نہیں سمجھنے لگے ہیں اور یہ بھی افواہ ہے کہ 2012ءمیں کچھ ہونیوالا ہے یہ بھاگ دوڑ کہیں اسی وجہ سے تو نہیں؟
٭....٭....٭....٭
سٹیٹ بنک نے کہا ہے‘ حکومتی اخراجات بڑھ رہے ہیں‘ مہنگائی روکنے کیلئے سرکاری قرضوں پر پابندی لگانا ہو گی۔
سٹیٹ بنک تو پہلے ہی پیٹ بنک بن چکا ہے‘ جہاں سے موٹی توندوں والے حکومتی اخراجات کے بہانے اپنے اخراجات کیلئے قرضے لیتے رہتے ہیں۔ سٹیٹ بنک نے صرف یہ کیوں کہا کہ اب سرکاری قرضوں پر پابندی لگانی ہو گی۔ اب تک تو پابندی لگ جانی چاہیے تھی تاکہ اسے شکایت کا موقع ہی نہ ملتا۔ حکومت اپنے اخراجات برائے حکومتی افراد کم نہیں کر سکتی‘ اسی لئے سٹیٹ بنک اپنی بات پر پکا رہے‘ وگرنہ یہ بڑوں کے اللے تللے‘ عوام کیلئے مہنگائی کو اسی طرح برقرار رکھیں گے۔ بنک نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ توانائی کا بحران معیشت کیلئے زہر قاتل ہے۔ سٹیٹ بنک کو جب یہ خبر ہے کہ پاکستان کی معیشت باہر منتقل ہو چکی ہے تو پھر کیسا زہر اور کیسی معیشت؟
معیشت کی بدحالی کا تو یہ حال ہے کہ زہر خرید کر لاﺅ اور خودکشی کی کوشش کرو تو بھی بندہ غازی ہی رہتا ہے۔ ہماری معیشت جب سرے سے موجود ہی نہیں تو پھر اس کو خطرہ کیسا؟ وہی وزیر معاشیات جو مشرف کا انتخاب تھے‘ آج کے مشرف کی بھی پسند ہیں‘ تو پھر؟
ہمارے حکمران جس طرح سے حکومت اور جمہوریت چلا رہے ہیں ....
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
٭....٭....٭....٭
گاڑی امریکی سفارت خانے سے باہر کھڑی کرنے کی ہدایت پر سینیٹر حاجی عدیل تقریب میں شرکت کئے بغیر واپس چلے گئے۔
حاجی عدیل کی پٹھانی رگ پھڑک اٹھی اور وہ گاڑی باہر کھڑی کرنے پر خار کھا کر سفارت خانے میں ہونیوالی تقریب چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی سفارت خانے میں ہم جنس پرستوں کی تقریب ہو رہی ہو اور حاجی انجانے میں اسے مس کر گئے‘ حاجی عدیل کی گاڑی کو امریکی سفارت خانے نے کیوں اندر نہ جانے دیا‘ حالانکہ وہ ایک ذمہ دار سینیٹر ہیں۔ شاید خیبر پی کے کو اسکی اوقات محسوس کرانا مقصود ہو۔ مگر وہ یہ بھی تو دیکھیں کہ کتنے ہی شرکاءکی گاڑیاں اندر نہ جانے دی گئی ہونگی۔ مگر انہوں نے امریکی سفارت خانے کی وجہ شہرت سے استفادہ ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ان دنوں امریکی سفارت خانہ خاصا پررونق بنا دیا گیا ہے اور اس میں ہر ذوق رکھنے والوں کیلئے تقریبات بھی بڑھا دی گئی ہیں۔ پھر حاجی صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ شاید وہ اس انداز کو ہتک سمجھے اور شمولیت کئے بغیر واپس چلے گئے۔ امریکی سفارت خانے کو یہ تو انہوں نے باور کرادیا کہ ایک پاکستانی ایسا بھی نکلا جس نے ہتک برداشت نہیں کی‘ وہ شاید بیرون ملک بھی نہیں جاتے کہ....
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے