حسین محی الدین القادری
ریاست، معاشرے اور معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور نوجوانوں کو ہنر مند بنانے میں ہمارا تعلیمی نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔حکومت معاشرے کی اکثریت کو تعلیم دینے کےلئے کالجز اور سکول تو چلا رہی ہے مگر ان اداروں کا معیار تعلیم کسی طرح بھی پرائیویٹ سیکٹر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔18ویں ترمیم کے بعد یہ دیکھے بغیر کہ صوبے اس کےلئے وسائل اور صلاحیت رکھتے بھی ہیں کہ نہیں تعلیم جیسے سنجیدہ معاملے کو صوبائی ذمہ داری بنا دیا گیا ہے یہاں اس حوالے سے کچھ چیزوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔
پاکستان پرائمری تعلیم کے حق کو عوام تک پہنچانے کے حوالے سے آئینی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام دکھائی دیتا ہے ۔تعلیم کے حوالے سے ہر دور میں عوام کو حکومت سے توقعات رہی ہیں ۔چونکہ وہ اعلیٰ سکولوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے اس لئے کم فیس والے اداروں میں بچوں کو بھیجنا ان کی مجبوری ہے ۔کچھ ایسے بھی ہیں جو معیاری تعلیم کے حصول میں ناکامی کے بعد مدارس کا رخ کر لیتے ہیں۔ غیر معیاری تعلیم کے حامل اداروں اور مدارس میں پڑھنے والے زیادہ تر طلباءاخلاقی بے راہ روی اور جرائم کی راہ پر چل پڑتے ہیں اور معاشرے کےلئے وبال جان بن جاتے ہیں۔
سرکاری سکولوں میں پڑھایا جانیوالا نصاب اس قابل نہیں کہ بچوں میں وہ ذہنی استعداد پیدا کر سکے جو پرائیویٹ سکول کے بچوں کی ہوتی ہے۔پرائیویٹ سیکٹر کے بچے انگلش میں وہ نصاب پڑھتے ہیں جو جدید دور کی ضرورتوں سے آراستہ اس لئے مستقبل میں انکی Job Market زیادہ ہوتی ہے ۔پرائیویٹ اداروں کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ غریب گھر کا ذہین بچہ بھی وہاں جانے کا سوچ نہیں سکتا۔
تعلیمی سیکٹر میں سیاست کے عمل دخل نے بہت سی خرابیوں کو جنم دیا ہے۔ میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر ہونیوالی تقرریوں نے تعلیم کے اہم شعبہ کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔اکثر اساتذہ سرکاری سروس میں آنے کے بعداسے صرف Jobکے طور پر لیتے ہیں ۔ تدریسی تکنیک میں مہارت حاصل کر کے اسے مقدس مشن کے طور پر جاری رکھنے کا رجحان انتہائی کم ہو گیا ہے ۔ ایسے گھوسٹ سکولوں کی بھی کمی نہیں جنکا وجود صرف کاغذوں میں ہے اوراساتذہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں اس لئے دیہی سطح پرتعلیم کا شعبہ کرپشن کا گڑھ ہے ۔صوبائی تعلیمی اداروںکو وسائل کی کمی ،نگرانی کے نہ ہونے کے برابر نظام اور تعلیمی بجٹ میں لوٹ مار کے رجحان نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف پبلک سکول سسٹم کا بگڑا ہوا ڈھانچہ معیار تعلیم کو تیزی سے گرا رہا ہے ۔لسانی ،سماجی اور معاشی تقسیم نے طبقاتی نظام تعلیم کو جنم دیا ہے،جو مراعات یافتہ اور غریب طبقوں میں منقسم ہے۔لسانی اور مذہبی بیگانگی کو جنم دینے والا نظام تعلیم معاشرے میں بڑھتے ہوئے پرتشدد رویوں کا بھی ذمہ دار ہے۔ اس پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں بھیانک نتائج نکلیں گے۔
پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر مکمل طور پر کمرشل بنیادوں پر چل رہا ہے ، اسکا ٹارگٹ قوم کو معیاری تعلیم دینے کی بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے اس لئے پرائیویٹ سکول اور کالجز عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ نتیجتاً تقریباً50ملین یعنی آدھی بالغ آبادی پڑھ لکھ نہیں سکی۔خواتین کی شرح خواندگی تقریباً42فی صد جبکہ مردوں کی 65فی صد ہے۔دیہاتوں میں یہ شرح اور بھی کم ہے ،جہاں صرف 31فی صد خواتین پڑھی لکھی ہونے کی دعویدارہیں‘ ہم آسانی سے ان وجوہات کو تلاش کر سکتے ہیں جن کی بنیاد پر بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں یا تعلیم تک انکی رسائی بہت کم ہوتی ہے۔
پاکستان کا معیار تعلیم بہت سے ترقی پذیر ممالک کی نسبت بھی بہت تنزل پذیر ہے۔بالغ افراد کا ایک چوتھائی پڑھا لکھا ہے،خواندہ افراد کی زیادہ تعداد نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر رکھی،عورتوں میں تعلیمی معیار مردوں کی نسبت بہت کم ہے ۔پرائمری کی سطح سے اوپر خواتین کی تعلیم کا معیار تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ دیہاتوں میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اور تعلیمی معیاردونوں بہت کم ہیں ۔ پاکستان کی شرح خواندگی ان ممالک کی نسبت بھی بہت کم ہے جواس جیسی معیشت کے حامل ہیں۔تعلیمی معیار کے حوالے سے ماضی قریب میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور موجودہ تعلیمی پالیسی کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں بھی اسکے امکانات نہیںہیں ۔پاکستان میں خصوصاً خواتین ٹرینڈ اور تعلیم یافتہ ٹیچرز کی بہت زیادہ کمی ہے۔تعلیمی ادارے مناسب ڈھانچے سے محروم ہیں اور کچھ ذاتی مقاصد کےلئے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ٹیچرز کی اپنے پیشے سے دلچسپی اور اخلاص مفقودہے اور نصاب بھی موجودہ دور کے تقاضے پورے کرنے سے معذور ہے۔
اعلیٰ تعلیم کےلئے طالب علموں کی کل تعداد ایک لاکھ ہے اور اس کےلئے جو فنڈز خرچ کئے جاتے ہیںوہ 0.39 فیصد ہیںجو دیگر ممالک کے مقابلے میں نہایت کم ہیں، یہ کم سے کم GNPکا 5فی صد ہونے چاہئیں۔ ہمارا ہمسایہ انڈیا GNPکا 6فی صد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے ۔ فرانس کا قومی تعلیمی بجٹ 65.96ملین ڈالر ہے جو اسکے قومی بجٹ کا 23.31فی صد ہے۔ ملائشیانے تعلیم پر 17.2فی صد مختص کر رکھا ہے اور مخصوص عمر کے حامل 2.6فی صد کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل ہے۔
پاکستان میں17سے 23سال کے 25ملین افراد ہےں جبکہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں کل 100000 طالبعلم ہیں۔ طالبعلموں کی اتنی بڑی تعداد کےلئے مختلف قسم کے تعلیمی ادارے قائم ہونے چاہیں ۔ مندرجہ بالا عمر کے 10فیصد کو تو اعلیٰ تعلیم تک رسائی دینے پر وسائل خرچ کئے جانے چاہیں۔اس مقصد کےلئے قوم کو بہت زیادہ تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے، اس کےلئے پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا ہو گا کیونکہ حکومت کےلئے اتنے زیادہ فنڈز دینا یقینا ممکن نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کےلئے حکومت اس مقصد کےلئے آسانیاں پیدا کرے۔
ٹیکنیکل و وکیشنل ایجوکیشن (TVE)کی سہولتیں ناکافی ہیں اسوقت ضرورت ہے کہ (TVE)کو وسیع کیا جائے۔ مختلف شعبوں میں مہارت کو فروغ دینے کےلئے روایتی تعلیم کےساتھ ہی Integrationکے تصور کو آگے لایا جائے ۔ٹیکنیکل تعلیم کو سیکنڈری سکول لیول تک آرٹس اورسائنس گروپ کی طرز پرمتعارف کرانا ہو گا۔ اس تصور کو نافذ کرنے کےلئے درج ذیل اقدامات ضروری ہےں۔ موجودہ ہائی سکول تک ٹیکنیکل تعلیم کو متعارف کرانا ہو گا۔ماڈل ٹیکنیکل ہائی سکولز قائم کرنا ہونگے اور ٹیکنیکل نصاب کے اردو زبان میں ترجمہ کو یقینی بنانا ہو گا۔
ملک میں تعلیم کو آگے بڑھانے کےلئے ایک ہمہ جہت انقلاب کی ضروت ہے ۔موجودہ تعلیمی نظام کا تفصیل کےساتھ ناقدانہ جائزہ لیناہو گا اور مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کر کے ترقی پسندانہ اور ماہرانہ انداز میں اسکا حل دیکھنا ہو گا۔تعلیمی بجٹ کو کم سے کم 3گنا بڑھا نا ہو گا اور GNPکا 6فی صد تعلیم پر خرچ کرنا ہو گا۔ پرائمری سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کےلئے نئے کالجز اور یونیورسٹیوں کا قیام ناگزیر ہے ۔پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لانے کےلئے انہیں سہولتیں دی جائیں تا کہ وہ آگے آکر تعلیم کےلئے Invest کریں ۔ ملک اور قوم کی ضرورت کےمطابق تعلیمی ڈھانچے کو معیاری بنانے اور اسے موجودہ دور کی ضرورتوں کےمطابق از سر نو تشکیل دینے کےلئے قابل اور تجربہ کار پروفیسرز کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا ہو گا۔
ریاست، معاشرے اور معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور نوجوانوں کو ہنر مند بنانے میں ہمارا تعلیمی نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔حکومت معاشرے کی اکثریت کو تعلیم دینے کےلئے کالجز اور سکول تو چلا رہی ہے مگر ان اداروں کا معیار تعلیم کسی طرح بھی پرائیویٹ سیکٹر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔18ویں ترمیم کے بعد یہ دیکھے بغیر کہ صوبے اس کےلئے وسائل اور صلاحیت رکھتے بھی ہیں کہ نہیں تعلیم جیسے سنجیدہ معاملے کو صوبائی ذمہ داری بنا دیا گیا ہے یہاں اس حوالے سے کچھ چیزوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔
پاکستان پرائمری تعلیم کے حق کو عوام تک پہنچانے کے حوالے سے آئینی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام دکھائی دیتا ہے ۔تعلیم کے حوالے سے ہر دور میں عوام کو حکومت سے توقعات رہی ہیں ۔چونکہ وہ اعلیٰ سکولوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے اس لئے کم فیس والے اداروں میں بچوں کو بھیجنا ان کی مجبوری ہے ۔کچھ ایسے بھی ہیں جو معیاری تعلیم کے حصول میں ناکامی کے بعد مدارس کا رخ کر لیتے ہیں۔ غیر معیاری تعلیم کے حامل اداروں اور مدارس میں پڑھنے والے زیادہ تر طلباءاخلاقی بے راہ روی اور جرائم کی راہ پر چل پڑتے ہیں اور معاشرے کےلئے وبال جان بن جاتے ہیں۔
سرکاری سکولوں میں پڑھایا جانیوالا نصاب اس قابل نہیں کہ بچوں میں وہ ذہنی استعداد پیدا کر سکے جو پرائیویٹ سکول کے بچوں کی ہوتی ہے۔پرائیویٹ سیکٹر کے بچے انگلش میں وہ نصاب پڑھتے ہیں جو جدید دور کی ضرورتوں سے آراستہ اس لئے مستقبل میں انکی Job Market زیادہ ہوتی ہے ۔پرائیویٹ اداروں کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ غریب گھر کا ذہین بچہ بھی وہاں جانے کا سوچ نہیں سکتا۔
تعلیمی سیکٹر میں سیاست کے عمل دخل نے بہت سی خرابیوں کو جنم دیا ہے۔ میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر ہونیوالی تقرریوں نے تعلیم کے اہم شعبہ کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔اکثر اساتذہ سرکاری سروس میں آنے کے بعداسے صرف Jobکے طور پر لیتے ہیں ۔ تدریسی تکنیک میں مہارت حاصل کر کے اسے مقدس مشن کے طور پر جاری رکھنے کا رجحان انتہائی کم ہو گیا ہے ۔ ایسے گھوسٹ سکولوں کی بھی کمی نہیں جنکا وجود صرف کاغذوں میں ہے اوراساتذہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں اس لئے دیہی سطح پرتعلیم کا شعبہ کرپشن کا گڑھ ہے ۔صوبائی تعلیمی اداروںکو وسائل کی کمی ،نگرانی کے نہ ہونے کے برابر نظام اور تعلیمی بجٹ میں لوٹ مار کے رجحان نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف پبلک سکول سسٹم کا بگڑا ہوا ڈھانچہ معیار تعلیم کو تیزی سے گرا رہا ہے ۔لسانی ،سماجی اور معاشی تقسیم نے طبقاتی نظام تعلیم کو جنم دیا ہے،جو مراعات یافتہ اور غریب طبقوں میں منقسم ہے۔لسانی اور مذہبی بیگانگی کو جنم دینے والا نظام تعلیم معاشرے میں بڑھتے ہوئے پرتشدد رویوں کا بھی ذمہ دار ہے۔ اس پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں بھیانک نتائج نکلیں گے۔
پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر مکمل طور پر کمرشل بنیادوں پر چل رہا ہے ، اسکا ٹارگٹ قوم کو معیاری تعلیم دینے کی بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے اس لئے پرائیویٹ سکول اور کالجز عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ نتیجتاً تقریباً50ملین یعنی آدھی بالغ آبادی پڑھ لکھ نہیں سکی۔خواتین کی شرح خواندگی تقریباً42فی صد جبکہ مردوں کی 65فی صد ہے۔دیہاتوں میں یہ شرح اور بھی کم ہے ،جہاں صرف 31فی صد خواتین پڑھی لکھی ہونے کی دعویدارہیں‘ ہم آسانی سے ان وجوہات کو تلاش کر سکتے ہیں جن کی بنیاد پر بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں یا تعلیم تک انکی رسائی بہت کم ہوتی ہے۔
پاکستان کا معیار تعلیم بہت سے ترقی پذیر ممالک کی نسبت بھی بہت تنزل پذیر ہے۔بالغ افراد کا ایک چوتھائی پڑھا لکھا ہے،خواندہ افراد کی زیادہ تعداد نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر رکھی،عورتوں میں تعلیمی معیار مردوں کی نسبت بہت کم ہے ۔پرائمری کی سطح سے اوپر خواتین کی تعلیم کا معیار تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ دیہاتوں میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اور تعلیمی معیاردونوں بہت کم ہیں ۔ پاکستان کی شرح خواندگی ان ممالک کی نسبت بھی بہت کم ہے جواس جیسی معیشت کے حامل ہیں۔تعلیمی معیار کے حوالے سے ماضی قریب میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور موجودہ تعلیمی پالیسی کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں بھی اسکے امکانات نہیںہیں ۔پاکستان میں خصوصاً خواتین ٹرینڈ اور تعلیم یافتہ ٹیچرز کی بہت زیادہ کمی ہے۔تعلیمی ادارے مناسب ڈھانچے سے محروم ہیں اور کچھ ذاتی مقاصد کےلئے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ٹیچرز کی اپنے پیشے سے دلچسپی اور اخلاص مفقودہے اور نصاب بھی موجودہ دور کے تقاضے پورے کرنے سے معذور ہے۔
اعلیٰ تعلیم کےلئے طالب علموں کی کل تعداد ایک لاکھ ہے اور اس کےلئے جو فنڈز خرچ کئے جاتے ہیںوہ 0.39 فیصد ہیںجو دیگر ممالک کے مقابلے میں نہایت کم ہیں، یہ کم سے کم GNPکا 5فی صد ہونے چاہئیں۔ ہمارا ہمسایہ انڈیا GNPکا 6فی صد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے ۔ فرانس کا قومی تعلیمی بجٹ 65.96ملین ڈالر ہے جو اسکے قومی بجٹ کا 23.31فی صد ہے۔ ملائشیانے تعلیم پر 17.2فی صد مختص کر رکھا ہے اور مخصوص عمر کے حامل 2.6فی صد کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل ہے۔
پاکستان میں17سے 23سال کے 25ملین افراد ہےں جبکہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں کل 100000 طالبعلم ہیں۔ طالبعلموں کی اتنی بڑی تعداد کےلئے مختلف قسم کے تعلیمی ادارے قائم ہونے چاہیں ۔ مندرجہ بالا عمر کے 10فیصد کو تو اعلیٰ تعلیم تک رسائی دینے پر وسائل خرچ کئے جانے چاہیں۔اس مقصد کےلئے قوم کو بہت زیادہ تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے، اس کےلئے پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا ہو گا کیونکہ حکومت کےلئے اتنے زیادہ فنڈز دینا یقینا ممکن نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کےلئے حکومت اس مقصد کےلئے آسانیاں پیدا کرے۔
ٹیکنیکل و وکیشنل ایجوکیشن (TVE)کی سہولتیں ناکافی ہیں اسوقت ضرورت ہے کہ (TVE)کو وسیع کیا جائے۔ مختلف شعبوں میں مہارت کو فروغ دینے کےلئے روایتی تعلیم کےساتھ ہی Integrationکے تصور کو آگے لایا جائے ۔ٹیکنیکل تعلیم کو سیکنڈری سکول لیول تک آرٹس اورسائنس گروپ کی طرز پرمتعارف کرانا ہو گا۔ اس تصور کو نافذ کرنے کےلئے درج ذیل اقدامات ضروری ہےں۔ موجودہ ہائی سکول تک ٹیکنیکل تعلیم کو متعارف کرانا ہو گا۔ماڈل ٹیکنیکل ہائی سکولز قائم کرنا ہونگے اور ٹیکنیکل نصاب کے اردو زبان میں ترجمہ کو یقینی بنانا ہو گا۔
ملک میں تعلیم کو آگے بڑھانے کےلئے ایک ہمہ جہت انقلاب کی ضروت ہے ۔موجودہ تعلیمی نظام کا تفصیل کےساتھ ناقدانہ جائزہ لیناہو گا اور مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کر کے ترقی پسندانہ اور ماہرانہ انداز میں اسکا حل دیکھنا ہو گا۔تعلیمی بجٹ کو کم سے کم 3گنا بڑھا نا ہو گا اور GNPکا 6فی صد تعلیم پر خرچ کرنا ہو گا۔ پرائمری سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کےلئے نئے کالجز اور یونیورسٹیوں کا قیام ناگزیر ہے ۔پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لانے کےلئے انہیں سہولتیں دی جائیں تا کہ وہ آگے آکر تعلیم کےلئے Invest کریں ۔ ملک اور قوم کی ضرورت کےمطابق تعلیمی ڈھانچے کو معیاری بنانے اور اسے موجودہ دور کی ضرورتوں کےمطابق از سر نو تشکیل دینے کےلئے قابل اور تجربہ کار پروفیسرز کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا ہو گا۔