مجوزہ گرینڈ الائنس کے مقاصد‘ توقعات‘ خدشات خدارا! اب ”میرے عزیز ہموطنو!“ کہہ کر آنیوالوں کو موقع نہ دیں.
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماءسینیٹر اسحاق ڈار نے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کو قومی ضرورت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس اتحاد کیلئے مختلف جماعتوں کے قائدین سے رابطے ہو رہے ہیں اور اس حوالے سے عوام کو بہت جلد خوشخبری ملے گی۔ لندن سے ملک واپس آنے کے بعد پیر کی شب لاہور ایئرپورٹ پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انکی ایم کیو ایم کے رہنماءڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقات ہوئی ہے لیکن یہ غیررسمی ملاقات تھی۔ اب جلد ایم کیو ایم سے رسمی ملاقات ہو گی‘ انکے بقول موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کو مو¿ثر کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس کیلئے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت مختلف اپوزیشن جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے ہیں۔ گرینڈ اپوزیشن الائنس کا ٹارگٹ مہینوں میں نہیں‘ ہفتوں میں پورا کرلیا جائیگا۔ انکے بقول ملکی مفاد کی خاطر ماضی کی تلخ یادیں دفن کرکے تمام اپوزیشن جماعتوں کو مل جل کر چلنا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ جرنیلی آمر مشرف کے پیدا کردہ قومی‘ سیاسی اور اقتصادی مسائل سے عاجز آئے عوام نے 18 فروری 2008ءکے عام انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے خاموش انقلاب برپا کرکے اور مشرف آمریت کو اسکی باقیات سمیت مسترد کرکے سلطانی¿ جمہور سے جو توقعات وابستہ کی تھیں‘ وہ موجودہ منتخب حکومت کے اقتدار کے ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود نہ صرف پوری نہیں ہوئیں‘ بلکہ سول جمہوری حکمرانوں نے ان مسائل میں اضافہ بھی کیا اور اپنی طرف سے ملک و قوم کےلئے نئے مسائل بھی کھڑے کئے۔ اس تناظر میں عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر سلطانی ¿ جمہور سے وابستہ حکمرانوں نے انہیں ریلیف دینے کے بجائے انکی مالی اور اقتصادی مشکلات میں بھی اضافہ کیا ہے اور امریکی مفادات کی جنگ میں مشرف کی جانب سے قبول کئے گئے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے خلاصی حاصل کرنے کے بجائے وطن عزیز کو اس جنگ میں مزید الجھا دیا ہے تو کیوں نہ ان سے بھی خلاصی حاصل کرلی جائے۔
اگر حکمران طبقہ عوام کی توقعات پر پورا اتر رہا ہے‘ نہ اس نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی سلامتی‘ سسٹم کی بقاءو استحکام اور عوامی اقتصادی مسائل سے نجات کیلئے نااہل حکمرانوں کو گھر بھجوا دیا جانا چاہیے تاہم اس کیلئے صائب اور معروف آئینی طریقہ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کا ہے‘ جس کےلئے پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو پورا حق پہنچتا ہے کہ وہ باہم متحد ہو کر عددی اکثریت حاصل کریں اور وزیراعظم کےخلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر اسے کامیابی سے ہمکنار کریں اور اپنی حکومت کی راہ ہموار کریں۔ اسی طرح اگر صدر مملکت جو حکمران پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں‘ قوم کی توقعات پر پورے نہیں اتر رہے اور ملکی و قومی مفادات کے تقاضے نہیں نبھا رہے تو آئین کے تحت ان کیخلاف پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک لائی جا سکتی ہے جسے منظور کرانے کیلئے مشترکہ پارلیمنٹ کے ارکان کی دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ اگر اپوزیشن جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ متحد ہو کر پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کی تحریک پیش کرکے کامیاب کرا سکتی ہیں تو انہیں اپنا یہ جمہوری اور آئینی حق ضرور استعمال کرنا چاہیے تاہم اس وقت اپوزیشن کے مجوزہ گرینڈ الائنس کے جو خدوخال سامنے آرہے ہیں‘ وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے بجائے موقع کی تاک میں بیٹھے طالع آزماءغیرجمہوری عناصر کو ماضی کی طرح جمہوریت پر شب خون مارنے کا موقع دینے پر منتج ہو سکتے ہیں کیونکہ اس مجوزہ اتحاد کیلئے سرگرم عمل سیاسی قائدین نظریات اور اصولوں کے بجائے روایتی مفاداتی سیاست کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں اس لئے جو اتحاد اصولوں کے بجائے باہمی سیاسی مفادات کے تابع تشکیل پائے‘ اسے سسٹم کے استحکام سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
اگرچہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی حکومت کے حوالے سے رجائیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ باور کرا رہے ہیں کہ حکومت کو گرینڈ اپوزیشن سے کسی قسم کا خوف اور خطرہ نہیں ہے‘ وہ اور حکمران پیپلز پارٹی کے بعض دوسرے سرکردہ لیڈران اس خوش فہمی کا بھی شکار ہیں کہ ایم کیو ایم متحدہ پہلے کی طرح پھر حکومت کا حصہ بن جائیگی‘ اس سلسلہ میں حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ تاہم ماضی قریب کے کٹڑ حریف اگر گرینڈ الائنس کیلئے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور بقول اسحاق ڈار ملکی مفاد کی خاطر ماضی کی تلخ یادیں دفن کرکے اتحاد کی منزل آسان بنائی جا رہی ہے تو اس مجوزہ گرینڈ الائنس کیلئے جس پس منظر میں کوششیں کی جا رہی ہیں‘ اسکی بنیاد پر ایم کیو ایم کا دوبارہ حکومتی اتحادی بننا مشکل نظر آرہا ہے‘ اس لئے حکمران پیپلز پارٹی کو کسی خوش فہمی میں رہنے کے بجائے اپنی ان پالیسیوں کی اصلاح اور غلطیوں کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے جن کی بنیاد پر اسکے حکومتی اتحادی ایک ایک کرکے اس سے الگ ہوتے اور حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد اگر پیپلز پارٹی اپنی من مانیوں اور اداروں سے ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار نہ کرتی‘ میثاق جمہوریت پر عمل پیرا رہتی اور اپنی حلیف مسلم لیگ (ن) کےساتھ کئے گئے اسلام آباد اور بھوربن کے معاہدوں کی پاسداری کرتی تو بقول پیپلز پارٹی قاتل لیگ کےساتھ موجودہ حکومت کی تشکیل پر منتج ہونیوالا اتحاد نہ صرف سسٹم کے استحکام بلکہ عوام کے اقتصادی‘ معاشی اور بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے متعلق مسائل کے حل کےساتھ ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی کی بھی ضمانت بن جاتا اور اسے اب اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا جبکہ اب حکمران پیپلز پارٹی کی سابقہ حلیف جماعتیں ایک دوسرے کےساتھ نظریاتی اور سیاسی ہم آہنگی نہ رکھنے کے باوجود بغض معاویہ میں حکومت کی مخالفت کی خاطر ایک دوسرے کےساتھ متحد ہوتی نظر آرہی ہیں۔
اس مجوزہ اتحاد کا یک نکاتی ایجنڈہ عوام کو موجودہ حکمرانوں سے خلاصی دلانے کا ہے جس کیلئے پارلیمانی تبدیلی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے لوگوں کو سڑکوں پر لایا جائیگا تو اس کا نیتجہ حکومت کےساتھ ساتھ سسٹم کی بساط لپٹنے جانے کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو آئندہ انتخابات کی تیاری کیلئے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا بھی حق حاصل ہے‘ جو جمہوری روایات سے مطابقت بھی رکھتا ہے اور اگر اپوزیشن جماعتیں آئندہ انتخابات میں حکمران پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کی نیت سے گرینڈ الائنس تشکیل دینا چاہتی ہیں تو انہیں مستقبل کی سیاست کیلئے ضرور حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ تاہم اس وقت جن جماعتوں کے مابین وسیع تر اتحاد کے امکانات نظر آرہے ہیں‘ وہ ایک دوسرے کی فطری حلیف نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک میں تو شاید ہی کوئی دراڑ پیدا کر پائیں‘ البتہ وہ آزاد کشمیر کے انتخابات کی طرح پاکستان کے عام انتخابات میں بھی دوبارہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا ضرور باعث بنیں گی۔
اگر مسلم لیگ (ن) اقتدار کی سیاست کے تناظر میں اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد کی تشکیل کیلئے سرگرم ہے تو اسے ہم خیال جماعتوں کا فطری اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہیے‘ جبکہ اس کا فطری اتحاد مسلم لیگ کے دھڑوں کے ساتھ ہی بنتا ہے۔ اگر اپنی اپنی اناﺅں کے پیش نظر مسلم لیگی قائدین اپنے اپنے لیگی دھڑوں کو ایک مسلم لیگ نہیں بنا پائے تو کم از کم ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی انتخابی اتحاد تو قائم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اپنی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے جس سے ملک میں مستحکم دو جماعتی نظام کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ اگر ملک میں دو جماعتی نظام رائج ہو جائے تو اس سے پارلیمنٹ میں آنیوالے چھوٹے گروپوں کی بلیک میلنگ اور لوٹاکریسی سے بھی نجات مل جائیگی اور جمہوری نظام بھی اتنا مستحکم ہو جائیگا کہ کسی کو مفاد پرست سیاست دانوں کا کندھا استعمال کرکے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی جرا¿ت نہیں ہو گی۔
اس حوالے سے اگر گرینڈ اپوزیشن الائنس پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی یا حکومت کی اصلاح کیلئے تشکیل دیا جارہا ہے تو یہ سسٹم کے استحکام کیلئے ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے تاہم اگر ایک دوسرے کے کٹڑ نظریاتی مخالف سیاست دان سٹریٹ پاور کے ذریعے تبدیلی کے مقصد کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں تو یہ اقدام ماضی کی طرح ”میرے عزیز ہموطنو!“ کہہ کر ماورائے آئین اقتدار پر براجمان ہونیوالوں کو ہی موقع فراہم کریگا جس سے سیاست اور سیاست دانوں کی بھی مزید رسوائی ہو گی‘ عوام کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئیگا اور سسٹم کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی کیلئے بھی سخت خطرات پیدا ہوجائینگے۔ ہمارے محترم سیاسی قائدین کو اب کم از کم اپنی ماضی کی غلطیوں سے تو سبق حاصل کرلینا چاہیے۔
مغربی سرحد پر فضائی اور زمینی حدود
کی خلاف ورزیاں بزور روکی جائیں
پاک فوج نے کرم ایجنسی میں شدت پسندوں کے خلاف باقاعدہ زمینی اور فضائی آپریشن شروع کر دیا۔اس میں ہیلی کاپٹروں، بھاری توپ خانہ اور ٹینکوں کی مدد بھی لی گئی۔ سرکاری ذرائع کےمطابق اپریشن میں متعدد شدت پسند مارے گئے۔
پاکستان کو شروع سے مشرقی سرحد سے خطرہ رہا ہے یہاں ہمارا ازلی دشمن پاکستان کو نقصان پہنچانے کے موقع کی طاق میں رہتا ہے۔ گو ظاہر شاہ سے لےکر آج کرزئی کی حکومت تک سوائے طالبان کے چار پانچ سالہ دور کے کبھی خیر کی خبر اور ٹھنڈی ہوا نہیں آئی لیکن یہ مغربی سرحد قبائلیوں کے باعث بالکل محفوظ تھی۔ جو آج ان علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ پاک فوج کی موجودگی کے باوجود محفوظ نہیں رہی۔ پاکستان کی فضائی حدود کی امریکی ڈرون اور نیٹو ہیلی کاپٹر دھجیاں بکھیر رہے ہیں تو اب زمینی حدود کو افغان شدت پسندوں کے روپ میں نیٹو کی حمایت سے ”را“ کے ایجنٹ پامال کر رہے ہیں، کبھی چوکیوں پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی دیہات پر۔ گزشتہ روز ایک بار پھر باجوڑ میں چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ایک سیکورٹی اہل کار کو مار ڈالا۔ ڈرون نیٹو اور بھارتی ایجنٹوں کے حملے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ اپنی آزادی، سلامتی اور سالمیت کو یقینی بنانے کے بجائے ہم اپنے ہی لوگوں پر بارود برسا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان کا کیا مفاد وابستہ ہے۔ البتہ امریکی ڈکٹیشن اور ایجنڈا ضرور ہے۔ ضرورت تو ڈرون حملے بند کرانے کی ہے نہ کہ اس سے بڑھ کر خود حملے شروع کر دیئے جائیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی جنگ سے جان چھڑائے۔ قبائل میں موجود فوج کو وہاں سے نکال کر مشرقی سرحد پر لایا جائے۔ قبائل پر بارود برسانے کے بجائے انہیں اعتماد میں لیں تاکہ وہ پھر سے مغربی سرحد کی حفاظت کر سکیں اور بشرط ضرورت کشمیر کے محاذ پر 1947ءکی طرح کام آسکیں۔ ملکی و قومی خود مختاری کا تقاضا ہے کہ ڈرون حملے بند کروائے جائیں، آپکے پاس پارلیمنٹ کا مینڈیٹ موجود ہے۔ پاک فضائیہ کے پاس بھرپور صلاحیت بھی ہے، اب اسے آزمانے سے گریز نہ کیا جائے۔
این آئی سی ایل کیس، تفتیشی افسر پھر معطل
سپریم کورٹ کے حکم پر این آئی سی ایل کیس کی تفتیش کرنےوالے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ظفر احمد قریشی کو وزیر اعظم کے حکم پر گورنمنٹ سرونٹ (کنڈیکٹ) رولز 1964ءکی خلاف ورزی پر معطل کر دیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر چارج سنبھالتے ہی ڈی جی کو ان کی ٹیم میں شامل چار افسروں کے تبادلے منسوخ کرنے کےلئے خط لکھا، اس کی تفصیلات میڈیا میں آنے پر حکام نے 24 گھنٹے میں وضاحت طلب کی جس سے حکام نے عدم اتفاق کرتے ہوئے معطلی کے احکامات جاری کئے۔
یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے ظفر قریشی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن منسوخ کرتے ہوئے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش دوبارہ انکے حوالے کی تھی۔ اس کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر تین سیکرٹری توہین عدالت کا کیس بھگت رہے ہیں ایک ڈی جی ایف آئی اے ملک اقبال کےخلاف توہین عدالت پر فیصلہ محفوظ ہے۔ انہیں بالآخر ایف آئی اے کو خیر باد کہنا پڑا تاہم ڈی جی ہوتے ہوئے انہوں نے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش ظفر قریشی کے حوالے نہ کی۔ یکم جولائی کو حکومتی وکیل بابر اعوان نے اعتراف کیا تھا کہ تفتیشی افسر کو وفاقی سیکرٹریوں نے وزیر اعظم کی ہدایت پر ہٹایا۔ حکومت ایک طرف اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کا درس دیتی ہے اور دوسری طرف خود بطور ادارہ اپنے اختیارات کا ناجائز اور دیدہ دلیری سے استعمال کرتی ہے۔ سیاست میں پرانے اتحاد ٹوٹتے اور نئے بنتے رہتے ہیں لیکن اس سے انصاف کی راہیں مسدود نہیں ہونی چاہئیں۔ این آر او کیس سے لےکر حج کرپشن اور اب این آئی سی ایل سمیت ڈیڑھ درجن کے قریب مقدمات میں حکومت نے عدلیہ کے ساتھ عدم تعاون یا فیصلے ماننے سے انکار کیا ہے۔ ظفر قریشی نے اپنی وضاحت میں کہا تھا کہ انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے کو خط لکھا تھا میڈیا کو پریس ریلیز جاری نہیں کی تھی۔ مجاز حکام نے اس وضاحت پر عدم اطمینان ظاہر کیا اور معطلی کا حکم دےدیا۔قرائن سے ظاہر ہے کہ حکومت اس کیس سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور سپریم کورٹ کی نظر میں ایماندار افسر کو اس کیس سے ہر صورت دور رکھنا چاہتی ہے جس الزام کے تحت ظفر قریشی کو معطل کیا گیا وہ ”آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہے“ کے مترادف ہے۔ حکومت کا یہ اقدام عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل اور اپنا رعب جمانے کے مصداق ہے۔ بہتر ہے حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے این آئی سی ایل کیس میں غیر جانبداری سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے دے۔
مجوزہ گرینڈ الائنس کے مقاصد‘ توقعات‘ خدشات ....خدارا! اب ”میرے عزیز ہموطنو!“ کہہ کر آنیوالوں کو موقع نہ دیں
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماءسینیٹر اسحاق ڈار نے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کو قومی ضرورت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس اتحاد کیلئے مختلف جماعتوں کے قائدین سے رابطے ہو رہے ہیں اور اس حوالے سے عوام کو بہت جلد خوشخبری ملے گی۔ لندن سے ملک واپس آنے کے بعد پیر کی شب لاہور ایئرپورٹ پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انکی ایم کیو ایم کے رہنماءڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقات ہوئی ہے لیکن یہ غیررسمی ملاقات تھی۔ اب جلد ایم کیو ایم سے رسمی ملاقات ہو گی‘ انکے بقول موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کو مو¿ثر کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس کیلئے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت مختلف اپوزیشن جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے ہیں۔ گرینڈ اپوزیشن الائنس کا ٹارگٹ مہینوں میں نہیں‘ ہفتوں میں پورا کرلیا جائیگا۔ انکے بقول ملکی مفاد کی خاطر ماضی کی تلخ یادیں دفن کرکے تمام اپوزیشن جماعتوں کو مل جل کر چلنا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ جرنیلی آمر مشرف کے پیدا کردہ قومی‘ سیاسی اور اقتصادی مسائل سے عاجز آئے عوام نے 18 فروری 2008ءکے عام انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے خاموش انقلاب برپا کرکے اور مشرف آمریت کو اسکی باقیات سمیت مسترد کرکے سلطانی¿ جمہور سے جو توقعات وابستہ کی تھیں‘ وہ موجودہ منتخب حکومت کے اقتدار کے ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود نہ صرف پوری نہیں ہوئیں‘ بلکہ سول جمہوری حکمرانوں نے ان مسائل میں اضافہ بھی کیا اور اپنی طرف سے ملک و قوم کےلئے نئے مسائل بھی کھڑے کئے۔ اس تناظر میں عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر سلطانی ¿ جمہور سے وابستہ حکمرانوں نے انہیں ریلیف دینے کے بجائے انکی مالی اور اقتصادی مشکلات میں بھی اضافہ کیا ہے اور امریکی مفادات کی جنگ میں مشرف کی جانب سے قبول کئے گئے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے خلاصی حاصل کرنے کے بجائے وطن عزیز کو اس جنگ میں مزید الجھا دیا ہے تو کیوں نہ ان سے بھی خلاصی حاصل کرلی جائے۔
اگر حکمران طبقہ عوام کی توقعات پر پورا اتر رہا ہے‘ نہ اس نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی سلامتی‘ سسٹم کی بقاءو استحکام اور عوامی اقتصادی مسائل سے نجات کیلئے نااہل حکمرانوں کو گھر بھجوا دیا جانا چاہیے تاہم اس کیلئے صائب اور معروف آئینی طریقہ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کا ہے‘ جس کےلئے پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو پورا حق پہنچتا ہے کہ وہ باہم متحد ہو کر عددی اکثریت حاصل کریں اور وزیراعظم کےخلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر اسے کامیابی سے ہمکنار کریں اور اپنی حکومت کی راہ ہموار کریں۔ اسی طرح اگر صدر مملکت جو حکمران پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں‘ قوم کی توقعات پر پورے نہیں اتر رہے اور ملکی و قومی مفادات کے تقاضے نہیں نبھا رہے تو آئین کے تحت ان کیخلاف پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک لائی جا سکتی ہے جسے منظور کرانے کیلئے مشترکہ پارلیمنٹ کے ارکان کی دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ اگر اپوزیشن جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ متحد ہو کر پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کی تحریک پیش کرکے کامیاب کرا سکتی ہیں تو انہیں اپنا یہ جمہوری اور آئینی حق ضرور استعمال کرنا چاہیے تاہم اس وقت اپوزیشن کے مجوزہ گرینڈ الائنس کے جو خدوخال سامنے آرہے ہیں‘ وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے بجائے موقع کی تاک میں بیٹھے طالع آزماءغیرجمہوری عناصر کو ماضی کی طرح جمہوریت پر شب خون مارنے کا موقع دینے پر منتج ہو سکتے ہیں کیونکہ اس مجوزہ اتحاد کیلئے سرگرم عمل سیاسی قائدین نظریات اور اصولوں کے بجائے روایتی مفاداتی سیاست کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں اس لئے جو اتحاد اصولوں کے بجائے باہمی سیاسی مفادات کے تابع تشکیل پائے‘ اسے سسٹم کے استحکام سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
اگرچہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی حکومت کے حوالے سے رجائیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ باور کرا رہے ہیں کہ حکومت کو گرینڈ اپوزیشن سے کسی قسم کا خوف اور خطرہ نہیں ہے‘ وہ اور حکمران پیپلز پارٹی کے بعض دوسرے سرکردہ لیڈران اس خوش فہمی کا بھی شکار ہیں کہ ایم کیو ایم متحدہ پہلے کی طرح پھر حکومت کا حصہ بن جائیگی‘ اس سلسلہ میں حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ تاہم ماضی قریب کے کٹڑ حریف اگر گرینڈ الائنس کیلئے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور بقول اسحاق ڈار ملکی مفاد کی خاطر ماضی کی تلخ یادیں دفن کرکے اتحاد کی منزل آسان بنائی جا رہی ہے تو اس مجوزہ گرینڈ الائنس کیلئے جس پس منظر میں کوششیں کی جا رہی ہیں‘ اسکی بنیاد پر ایم کیو ایم کا دوبارہ حکومتی اتحادی بننا مشکل نظر آرہا ہے‘ اس لئے حکمران پیپلز پارٹی کو کسی خوش فہمی میں رہنے کے بجائے اپنی ان پالیسیوں کی اصلاح اور غلطیوں کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے جن کی بنیاد پر اسکے حکومتی اتحادی ایک ایک کرکے اس سے الگ ہوتے اور حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد اگر پیپلز پارٹی اپنی من مانیوں اور اداروں سے ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار نہ کرتی‘ میثاق جمہوریت پر عمل پیرا رہتی اور اپنی حلیف مسلم لیگ (ن) کےساتھ کئے گئے اسلام آباد اور بھوربن کے معاہدوں کی پاسداری کرتی تو بقول پیپلز پارٹی قاتل لیگ کےساتھ موجودہ حکومت کی تشکیل پر منتج ہونیوالا اتحاد نہ صرف سسٹم کے استحکام بلکہ عوام کے اقتصادی‘ معاشی اور بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے متعلق مسائل کے حل کےساتھ ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی کی بھی ضمانت بن جاتا اور اسے اب اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا جبکہ اب حکمران پیپلز پارٹی کی سابقہ حلیف جماعتیں ایک دوسرے کےساتھ نظریاتی اور سیاسی ہم آہنگی نہ رکھنے کے باوجود بغض معاویہ میں حکومت کی مخالفت کی خاطر ایک دوسرے کےساتھ متحد ہوتی نظر آرہی ہیں۔
اس مجوزہ اتحاد کا یک نکاتی ایجنڈہ عوام کو موجودہ حکمرانوں سے خلاصی دلانے کا ہے جس کیلئے پارلیمانی تبدیلی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے لوگوں کو سڑکوں پر لایا جائیگا تو اس کا نیتجہ حکومت کےساتھ ساتھ سسٹم کی بساط لپٹنے جانے کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو آئندہ انتخابات کی تیاری کیلئے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا بھی حق حاصل ہے‘ جو جمہوری روایات سے مطابقت بھی رکھتا ہے اور اگر اپوزیشن جماعتیں آئندہ انتخابات میں حکمران پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کی نیت سے گرینڈ الائنس تشکیل دینا چاہتی ہیں تو انہیں مستقبل کی سیاست کیلئے ضرور حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ تاہم اس وقت جن جماعتوں کے مابین وسیع تر اتحاد کے امکانات نظر آرہے ہیں‘ وہ ایک دوسرے کی فطری حلیف نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک میں تو شاید ہی کوئی دراڑ پیدا کر پائیں‘ البتہ وہ آزاد کشمیر کے انتخابات کی طرح پاکستان کے عام انتخابات میں بھی دوبارہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا ضرور باعث بنیں گی۔
اگر مسلم لیگ (ن) اقتدار کی سیاست کے تناظر میں اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد کی تشکیل کیلئے سرگرم ہے تو اسے ہم خیال جماعتوں کا فطری اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہیے‘ جبکہ اس کا فطری اتحاد مسلم لیگ کے دھڑوں کے ساتھ ہی بنتا ہے۔ اگر اپنی اپنی اناﺅں کے پیش نظر مسلم لیگی قائدین اپنے اپنے لیگی دھڑوں کو ایک مسلم لیگ نہیں بنا پائے تو کم از کم ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی انتخابی اتحاد تو قائم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اپنی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے جس سے ملک میں مستحکم دو جماعتی نظام کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ اگر ملک میں دو جماعتی نظام رائج ہو جائے تو اس سے پارلیمنٹ میں آنیوالے چھوٹے گروپوں کی بلیک میلنگ اور لوٹاکریسی سے بھی نجات مل جائیگی اور جمہوری نظام بھی اتنا مستحکم ہو جائیگا کہ کسی کو مفاد پرست سیاست دانوں کا کندھا استعمال کرکے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی جرا¿ت نہیں ہو گی۔
اس حوالے سے اگر گرینڈ اپوزیشن الائنس پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی یا حکومت کی اصلاح کیلئے تشکیل دیا جارہا ہے تو یہ سسٹم کے استحکام کیلئے ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے تاہم اگر ایک دوسرے کے کٹڑ نظریاتی مخالف سیاست دان سٹریٹ پاور کے ذریعے تبدیلی کے مقصد کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں تو یہ اقدام ماضی کی طرح ”میرے عزیز ہموطنو!“ کہہ کر ماورائے آئین اقتدار پر براجمان ہونیوالوں کو ہی موقع فراہم کریگا جس سے سیاست اور سیاست دانوں کی بھی مزید رسوائی ہو گی‘ عوام کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئیگا اور سسٹم کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی کیلئے بھی سخت خطرات پیدا ہوجائینگے۔ ہمارے محترم سیاسی قائدین کو اب کم از کم اپنی ماضی کی غلطیوں سے تو سبق حاصل کرلینا چاہیے۔
مغربی سرحد پر فضائی اور زمینی حدود
کی خلاف ورزیاں بزور روکی جائیں
پاک فوج نے کرم ایجنسی میں شدت پسندوں کے خلاف باقاعدہ زمینی اور فضائی آپریشن شروع کر دیا۔اس میں ہیلی کاپٹروں، بھاری توپ خانہ اور ٹینکوں کی مدد بھی لی گئی۔ سرکاری ذرائع کےمطابق اپریشن میں متعدد شدت پسند مارے گئے۔
پاکستان کو شروع سے مشرقی سرحد سے خطرہ رہا ہے یہاں ہمارا ازلی دشمن پاکستان کو نقصان پہنچانے کے موقع کی طاق میں رہتا ہے۔ گو ظاہر شاہ سے لےکر آج کرزئی کی حکومت تک سوائے طالبان کے چار پانچ سالہ دور کے کبھی خیر کی خبر اور ٹھنڈی ہوا نہیں آئی لیکن یہ مغربی سرحد قبائلیوں کے باعث بالکل محفوظ تھی۔ جو آج ان علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ پاک فوج کی موجودگی کے باوجود محفوظ نہیں رہی۔ پاکستان کی فضائی حدود کی امریکی ڈرون اور نیٹو ہیلی کاپٹر دھجیاں بکھیر رہے ہیں تو اب زمینی حدود کو افغان شدت پسندوں کے روپ میں نیٹو کی حمایت سے ”را“ کے ایجنٹ پامال کر رہے ہیں، کبھی چوکیوں پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی دیہات پر۔ گزشتہ روز ایک بار پھر باجوڑ میں چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ایک سیکورٹی اہل کار کو مار ڈالا۔ ڈرون نیٹو اور بھارتی ایجنٹوں کے حملے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ اپنی آزادی، سلامتی اور سالمیت کو یقینی بنانے کے بجائے ہم اپنے ہی لوگوں پر بارود برسا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان کا کیا مفاد وابستہ ہے۔ البتہ امریکی ڈکٹیشن اور ایجنڈا ضرور ہے۔ ضرورت تو ڈرون حملے بند کرانے کی ہے نہ کہ اس سے بڑھ کر خود حملے شروع کر دیئے جائیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی جنگ سے جان چھڑائے۔ قبائل میں موجود فوج کو وہاں سے نکال کر مشرقی سرحد پر لایا جائے۔ قبائل پر بارود برسانے کے بجائے انہیں اعتماد میں لیں تاکہ وہ پھر سے مغربی سرحد کی حفاظت کر سکیں اور بشرط ضرورت کشمیر کے محاذ پر 1947ءکی طرح کام آسکیں۔ ملکی و قومی خود مختاری کا تقاضا ہے کہ ڈرون حملے بند کروائے جائیں، آپکے پاس پارلیمنٹ کا مینڈیٹ موجود ہے۔ پاک فضائیہ کے پاس بھرپور صلاحیت بھی ہے، اب اسے آزمانے سے گریز نہ کیا جائے۔
این آئی سی ایل کیس، تفتیشی افسر پھر معطل
سپریم کورٹ کے حکم پر این آئی سی ایل کیس کی تفتیش کرنےوالے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ظفر احمد قریشی کو وزیر اعظم کے حکم پر گورنمنٹ سرونٹ (کنڈیکٹ) رولز 1964ءکی خلاف ورزی پر معطل کر دیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر چارج سنبھالتے ہی ڈی جی کو ان کی ٹیم میں شامل چار افسروں کے تبادلے منسوخ کرنے کےلئے خط لکھا، اس کی تفصیلات میڈیا میں آنے پر حکام نے 24 گھنٹے میں وضاحت طلب کی جس سے حکام نے عدم اتفاق کرتے ہوئے معطلی کے احکامات جاری کئے۔
یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے ظفر قریشی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن منسوخ کرتے ہوئے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش دوبارہ انکے حوالے کی تھی۔ اس کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر تین سیکرٹری توہین عدالت کا کیس بھگت رہے ہیں ایک ڈی جی ایف آئی اے ملک اقبال کےخلاف توہین عدالت پر فیصلہ محفوظ ہے۔ انہیں بالآخر ایف آئی اے کو خیر باد کہنا پڑا تاہم ڈی جی ہوتے ہوئے انہوں نے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش ظفر قریشی کے حوالے نہ کی۔ یکم جولائی کو حکومتی وکیل بابر اعوان نے اعتراف کیا تھا کہ تفتیشی افسر کو وفاقی سیکرٹریوں نے وزیر اعظم کی ہدایت پر ہٹایا۔ حکومت ایک طرف اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کا درس دیتی ہے اور دوسری طرف خود بطور ادارہ اپنے اختیارات کا ناجائز اور دیدہ دلیری سے استعمال کرتی ہے۔ سیاست میں پرانے اتحاد ٹوٹتے اور نئے بنتے رہتے ہیں لیکن اس سے انصاف کی راہیں مسدود نہیں ہونی چاہئیں۔ این آر او کیس سے لےکر حج کرپشن اور اب این آئی سی ایل سمیت ڈیڑھ درجن کے قریب مقدمات میں حکومت نے عدلیہ کے ساتھ عدم تعاون یا فیصلے ماننے سے انکار کیا ہے۔ ظفر قریشی نے اپنی وضاحت میں کہا تھا کہ انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے کو خط لکھا تھا میڈیا کو پریس ریلیز جاری نہیں کی تھی۔ مجاز حکام نے اس وضاحت پر عدم اطمینان ظاہر کیا اور معطلی کا حکم دےدیا۔قرائن سے ظاہر ہے کہ حکومت اس کیس سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور سپریم کورٹ کی نظر میں ایماندار افسر کو اس کیس سے ہر صورت دور رکھنا چاہتی ہے جس الزام کے تحت ظفر قریشی کو معطل کیا گیا وہ ”آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہے“ کے مترادف ہے۔ حکومت کا یہ اقدام عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل اور اپنا رعب جمانے کے مصداق ہے۔ بہتر ہے حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے این آئی سی ایل کیس میں غیر جانبداری سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے دے۔
یہ حقیقت ہے کہ جرنیلی آمر مشرف کے پیدا کردہ قومی‘ سیاسی اور اقتصادی مسائل سے عاجز آئے عوام نے 18 فروری 2008ءکے عام انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے خاموش انقلاب برپا کرکے اور مشرف آمریت کو اسکی باقیات سمیت مسترد کرکے سلطانی¿ جمہور سے جو توقعات وابستہ کی تھیں‘ وہ موجودہ منتخب حکومت کے اقتدار کے ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود نہ صرف پوری نہیں ہوئیں‘ بلکہ سول جمہوری حکمرانوں نے ان مسائل میں اضافہ بھی کیا اور اپنی طرف سے ملک و قوم کےلئے نئے مسائل بھی کھڑے کئے۔ اس تناظر میں عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر سلطانی ¿ جمہور سے وابستہ حکمرانوں نے انہیں ریلیف دینے کے بجائے انکی مالی اور اقتصادی مشکلات میں بھی اضافہ کیا ہے اور امریکی مفادات کی جنگ میں مشرف کی جانب سے قبول کئے گئے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے خلاصی حاصل کرنے کے بجائے وطن عزیز کو اس جنگ میں مزید الجھا دیا ہے تو کیوں نہ ان سے بھی خلاصی حاصل کرلی جائے۔
اگر حکمران طبقہ عوام کی توقعات پر پورا اتر رہا ہے‘ نہ اس نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی سلامتی‘ سسٹم کی بقاءو استحکام اور عوامی اقتصادی مسائل سے نجات کیلئے نااہل حکمرانوں کو گھر بھجوا دیا جانا چاہیے تاہم اس کیلئے صائب اور معروف آئینی طریقہ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کا ہے‘ جس کےلئے پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو پورا حق پہنچتا ہے کہ وہ باہم متحد ہو کر عددی اکثریت حاصل کریں اور وزیراعظم کےخلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر اسے کامیابی سے ہمکنار کریں اور اپنی حکومت کی راہ ہموار کریں۔ اسی طرح اگر صدر مملکت جو حکمران پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں‘ قوم کی توقعات پر پورے نہیں اتر رہے اور ملکی و قومی مفادات کے تقاضے نہیں نبھا رہے تو آئین کے تحت ان کیخلاف پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک لائی جا سکتی ہے جسے منظور کرانے کیلئے مشترکہ پارلیمنٹ کے ارکان کی دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ اگر اپوزیشن جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ متحد ہو کر پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کی تحریک پیش کرکے کامیاب کرا سکتی ہیں تو انہیں اپنا یہ جمہوری اور آئینی حق ضرور استعمال کرنا چاہیے تاہم اس وقت اپوزیشن کے مجوزہ گرینڈ الائنس کے جو خدوخال سامنے آرہے ہیں‘ وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے بجائے موقع کی تاک میں بیٹھے طالع آزماءغیرجمہوری عناصر کو ماضی کی طرح جمہوریت پر شب خون مارنے کا موقع دینے پر منتج ہو سکتے ہیں کیونکہ اس مجوزہ اتحاد کیلئے سرگرم عمل سیاسی قائدین نظریات اور اصولوں کے بجائے روایتی مفاداتی سیاست کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں اس لئے جو اتحاد اصولوں کے بجائے باہمی سیاسی مفادات کے تابع تشکیل پائے‘ اسے سسٹم کے استحکام سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
اگرچہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی حکومت کے حوالے سے رجائیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ باور کرا رہے ہیں کہ حکومت کو گرینڈ اپوزیشن سے کسی قسم کا خوف اور خطرہ نہیں ہے‘ وہ اور حکمران پیپلز پارٹی کے بعض دوسرے سرکردہ لیڈران اس خوش فہمی کا بھی شکار ہیں کہ ایم کیو ایم متحدہ پہلے کی طرح پھر حکومت کا حصہ بن جائیگی‘ اس سلسلہ میں حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ تاہم ماضی قریب کے کٹڑ حریف اگر گرینڈ الائنس کیلئے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور بقول اسحاق ڈار ملکی مفاد کی خاطر ماضی کی تلخ یادیں دفن کرکے اتحاد کی منزل آسان بنائی جا رہی ہے تو اس مجوزہ گرینڈ الائنس کیلئے جس پس منظر میں کوششیں کی جا رہی ہیں‘ اسکی بنیاد پر ایم کیو ایم کا دوبارہ حکومتی اتحادی بننا مشکل نظر آرہا ہے‘ اس لئے حکمران پیپلز پارٹی کو کسی خوش فہمی میں رہنے کے بجائے اپنی ان پالیسیوں کی اصلاح اور غلطیوں کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے جن کی بنیاد پر اسکے حکومتی اتحادی ایک ایک کرکے اس سے الگ ہوتے اور حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد اگر پیپلز پارٹی اپنی من مانیوں اور اداروں سے ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار نہ کرتی‘ میثاق جمہوریت پر عمل پیرا رہتی اور اپنی حلیف مسلم لیگ (ن) کےساتھ کئے گئے اسلام آباد اور بھوربن کے معاہدوں کی پاسداری کرتی تو بقول پیپلز پارٹی قاتل لیگ کےساتھ موجودہ حکومت کی تشکیل پر منتج ہونیوالا اتحاد نہ صرف سسٹم کے استحکام بلکہ عوام کے اقتصادی‘ معاشی اور بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے متعلق مسائل کے حل کےساتھ ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی کی بھی ضمانت بن جاتا اور اسے اب اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا جبکہ اب حکمران پیپلز پارٹی کی سابقہ حلیف جماعتیں ایک دوسرے کےساتھ نظریاتی اور سیاسی ہم آہنگی نہ رکھنے کے باوجود بغض معاویہ میں حکومت کی مخالفت کی خاطر ایک دوسرے کےساتھ متحد ہوتی نظر آرہی ہیں۔
اس مجوزہ اتحاد کا یک نکاتی ایجنڈہ عوام کو موجودہ حکمرانوں سے خلاصی دلانے کا ہے جس کیلئے پارلیمانی تبدیلی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے لوگوں کو سڑکوں پر لایا جائیگا تو اس کا نیتجہ حکومت کےساتھ ساتھ سسٹم کی بساط لپٹنے جانے کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو آئندہ انتخابات کی تیاری کیلئے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا بھی حق حاصل ہے‘ جو جمہوری روایات سے مطابقت بھی رکھتا ہے اور اگر اپوزیشن جماعتیں آئندہ انتخابات میں حکمران پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کی نیت سے گرینڈ الائنس تشکیل دینا چاہتی ہیں تو انہیں مستقبل کی سیاست کیلئے ضرور حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ تاہم اس وقت جن جماعتوں کے مابین وسیع تر اتحاد کے امکانات نظر آرہے ہیں‘ وہ ایک دوسرے کی فطری حلیف نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک میں تو شاید ہی کوئی دراڑ پیدا کر پائیں‘ البتہ وہ آزاد کشمیر کے انتخابات کی طرح پاکستان کے عام انتخابات میں بھی دوبارہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا ضرور باعث بنیں گی۔
اگر مسلم لیگ (ن) اقتدار کی سیاست کے تناظر میں اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد کی تشکیل کیلئے سرگرم ہے تو اسے ہم خیال جماعتوں کا فطری اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہیے‘ جبکہ اس کا فطری اتحاد مسلم لیگ کے دھڑوں کے ساتھ ہی بنتا ہے۔ اگر اپنی اپنی اناﺅں کے پیش نظر مسلم لیگی قائدین اپنے اپنے لیگی دھڑوں کو ایک مسلم لیگ نہیں بنا پائے تو کم از کم ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی انتخابی اتحاد تو قائم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اپنی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے جس سے ملک میں مستحکم دو جماعتی نظام کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ اگر ملک میں دو جماعتی نظام رائج ہو جائے تو اس سے پارلیمنٹ میں آنیوالے چھوٹے گروپوں کی بلیک میلنگ اور لوٹاکریسی سے بھی نجات مل جائیگی اور جمہوری نظام بھی اتنا مستحکم ہو جائیگا کہ کسی کو مفاد پرست سیاست دانوں کا کندھا استعمال کرکے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی جرا¿ت نہیں ہو گی۔
اس حوالے سے اگر گرینڈ اپوزیشن الائنس پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی یا حکومت کی اصلاح کیلئے تشکیل دیا جارہا ہے تو یہ سسٹم کے استحکام کیلئے ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے تاہم اگر ایک دوسرے کے کٹڑ نظریاتی مخالف سیاست دان سٹریٹ پاور کے ذریعے تبدیلی کے مقصد کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں تو یہ اقدام ماضی کی طرح ”میرے عزیز ہموطنو!“ کہہ کر ماورائے آئین اقتدار پر براجمان ہونیوالوں کو ہی موقع فراہم کریگا جس سے سیاست اور سیاست دانوں کی بھی مزید رسوائی ہو گی‘ عوام کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئیگا اور سسٹم کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی کیلئے بھی سخت خطرات پیدا ہوجائینگے۔ ہمارے محترم سیاسی قائدین کو اب کم از کم اپنی ماضی کی غلطیوں سے تو سبق حاصل کرلینا چاہیے۔
مغربی سرحد پر فضائی اور زمینی حدود
کی خلاف ورزیاں بزور روکی جائیں
پاک فوج نے کرم ایجنسی میں شدت پسندوں کے خلاف باقاعدہ زمینی اور فضائی آپریشن شروع کر دیا۔اس میں ہیلی کاپٹروں، بھاری توپ خانہ اور ٹینکوں کی مدد بھی لی گئی۔ سرکاری ذرائع کےمطابق اپریشن میں متعدد شدت پسند مارے گئے۔
پاکستان کو شروع سے مشرقی سرحد سے خطرہ رہا ہے یہاں ہمارا ازلی دشمن پاکستان کو نقصان پہنچانے کے موقع کی طاق میں رہتا ہے۔ گو ظاہر شاہ سے لےکر آج کرزئی کی حکومت تک سوائے طالبان کے چار پانچ سالہ دور کے کبھی خیر کی خبر اور ٹھنڈی ہوا نہیں آئی لیکن یہ مغربی سرحد قبائلیوں کے باعث بالکل محفوظ تھی۔ جو آج ان علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ پاک فوج کی موجودگی کے باوجود محفوظ نہیں رہی۔ پاکستان کی فضائی حدود کی امریکی ڈرون اور نیٹو ہیلی کاپٹر دھجیاں بکھیر رہے ہیں تو اب زمینی حدود کو افغان شدت پسندوں کے روپ میں نیٹو کی حمایت سے ”را“ کے ایجنٹ پامال کر رہے ہیں، کبھی چوکیوں پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی دیہات پر۔ گزشتہ روز ایک بار پھر باجوڑ میں چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ایک سیکورٹی اہل کار کو مار ڈالا۔ ڈرون نیٹو اور بھارتی ایجنٹوں کے حملے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ اپنی آزادی، سلامتی اور سالمیت کو یقینی بنانے کے بجائے ہم اپنے ہی لوگوں پر بارود برسا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان کا کیا مفاد وابستہ ہے۔ البتہ امریکی ڈکٹیشن اور ایجنڈا ضرور ہے۔ ضرورت تو ڈرون حملے بند کرانے کی ہے نہ کہ اس سے بڑھ کر خود حملے شروع کر دیئے جائیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی جنگ سے جان چھڑائے۔ قبائل میں موجود فوج کو وہاں سے نکال کر مشرقی سرحد پر لایا جائے۔ قبائل پر بارود برسانے کے بجائے انہیں اعتماد میں لیں تاکہ وہ پھر سے مغربی سرحد کی حفاظت کر سکیں اور بشرط ضرورت کشمیر کے محاذ پر 1947ءکی طرح کام آسکیں۔ ملکی و قومی خود مختاری کا تقاضا ہے کہ ڈرون حملے بند کروائے جائیں، آپکے پاس پارلیمنٹ کا مینڈیٹ موجود ہے۔ پاک فضائیہ کے پاس بھرپور صلاحیت بھی ہے، اب اسے آزمانے سے گریز نہ کیا جائے۔
این آئی سی ایل کیس، تفتیشی افسر پھر معطل
سپریم کورٹ کے حکم پر این آئی سی ایل کیس کی تفتیش کرنےوالے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ظفر احمد قریشی کو وزیر اعظم کے حکم پر گورنمنٹ سرونٹ (کنڈیکٹ) رولز 1964ءکی خلاف ورزی پر معطل کر دیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر چارج سنبھالتے ہی ڈی جی کو ان کی ٹیم میں شامل چار افسروں کے تبادلے منسوخ کرنے کےلئے خط لکھا، اس کی تفصیلات میڈیا میں آنے پر حکام نے 24 گھنٹے میں وضاحت طلب کی جس سے حکام نے عدم اتفاق کرتے ہوئے معطلی کے احکامات جاری کئے۔
یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے ظفر قریشی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن منسوخ کرتے ہوئے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش دوبارہ انکے حوالے کی تھی۔ اس کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر تین سیکرٹری توہین عدالت کا کیس بھگت رہے ہیں ایک ڈی جی ایف آئی اے ملک اقبال کےخلاف توہین عدالت پر فیصلہ محفوظ ہے۔ انہیں بالآخر ایف آئی اے کو خیر باد کہنا پڑا تاہم ڈی جی ہوتے ہوئے انہوں نے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش ظفر قریشی کے حوالے نہ کی۔ یکم جولائی کو حکومتی وکیل بابر اعوان نے اعتراف کیا تھا کہ تفتیشی افسر کو وفاقی سیکرٹریوں نے وزیر اعظم کی ہدایت پر ہٹایا۔ حکومت ایک طرف اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کا درس دیتی ہے اور دوسری طرف خود بطور ادارہ اپنے اختیارات کا ناجائز اور دیدہ دلیری سے استعمال کرتی ہے۔ سیاست میں پرانے اتحاد ٹوٹتے اور نئے بنتے رہتے ہیں لیکن اس سے انصاف کی راہیں مسدود نہیں ہونی چاہئیں۔ این آر او کیس سے لےکر حج کرپشن اور اب این آئی سی ایل سمیت ڈیڑھ درجن کے قریب مقدمات میں حکومت نے عدلیہ کے ساتھ عدم تعاون یا فیصلے ماننے سے انکار کیا ہے۔ ظفر قریشی نے اپنی وضاحت میں کہا تھا کہ انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے کو خط لکھا تھا میڈیا کو پریس ریلیز جاری نہیں کی تھی۔ مجاز حکام نے اس وضاحت پر عدم اطمینان ظاہر کیا اور معطلی کا حکم دےدیا۔قرائن سے ظاہر ہے کہ حکومت اس کیس سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور سپریم کورٹ کی نظر میں ایماندار افسر کو اس کیس سے ہر صورت دور رکھنا چاہتی ہے جس الزام کے تحت ظفر قریشی کو معطل کیا گیا وہ ”آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہے“ کے مترادف ہے۔ حکومت کا یہ اقدام عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل اور اپنا رعب جمانے کے مصداق ہے۔ بہتر ہے حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے این آئی سی ایل کیس میں غیر جانبداری سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے دے۔
مجوزہ گرینڈ الائنس کے مقاصد‘ توقعات‘ خدشات ....خدارا! اب ”میرے عزیز ہموطنو!“ کہہ کر آنیوالوں کو موقع نہ دیں
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماءسینیٹر اسحاق ڈار نے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کو قومی ضرورت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس اتحاد کیلئے مختلف جماعتوں کے قائدین سے رابطے ہو رہے ہیں اور اس حوالے سے عوام کو بہت جلد خوشخبری ملے گی۔ لندن سے ملک واپس آنے کے بعد پیر کی شب لاہور ایئرپورٹ پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انکی ایم کیو ایم کے رہنماءڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقات ہوئی ہے لیکن یہ غیررسمی ملاقات تھی۔ اب جلد ایم کیو ایم سے رسمی ملاقات ہو گی‘ انکے بقول موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کو مو¿ثر کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس کیلئے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت مختلف اپوزیشن جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے ہیں۔ گرینڈ اپوزیشن الائنس کا ٹارگٹ مہینوں میں نہیں‘ ہفتوں میں پورا کرلیا جائیگا۔ انکے بقول ملکی مفاد کی خاطر ماضی کی تلخ یادیں دفن کرکے تمام اپوزیشن جماعتوں کو مل جل کر چلنا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ جرنیلی آمر مشرف کے پیدا کردہ قومی‘ سیاسی اور اقتصادی مسائل سے عاجز آئے عوام نے 18 فروری 2008ءکے عام انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے خاموش انقلاب برپا کرکے اور مشرف آمریت کو اسکی باقیات سمیت مسترد کرکے سلطانی¿ جمہور سے جو توقعات وابستہ کی تھیں‘ وہ موجودہ منتخب حکومت کے اقتدار کے ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود نہ صرف پوری نہیں ہوئیں‘ بلکہ سول جمہوری حکمرانوں نے ان مسائل میں اضافہ بھی کیا اور اپنی طرف سے ملک و قوم کےلئے نئے مسائل بھی کھڑے کئے۔ اس تناظر میں عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر سلطانی ¿ جمہور سے وابستہ حکمرانوں نے انہیں ریلیف دینے کے بجائے انکی مالی اور اقتصادی مشکلات میں بھی اضافہ کیا ہے اور امریکی مفادات کی جنگ میں مشرف کی جانب سے قبول کئے گئے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے خلاصی حاصل کرنے کے بجائے وطن عزیز کو اس جنگ میں مزید الجھا دیا ہے تو کیوں نہ ان سے بھی خلاصی حاصل کرلی جائے۔
اگر حکمران طبقہ عوام کی توقعات پر پورا اتر رہا ہے‘ نہ اس نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی سلامتی‘ سسٹم کی بقاءو استحکام اور عوامی اقتصادی مسائل سے نجات کیلئے نااہل حکمرانوں کو گھر بھجوا دیا جانا چاہیے تاہم اس کیلئے صائب اور معروف آئینی طریقہ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کا ہے‘ جس کےلئے پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو پورا حق پہنچتا ہے کہ وہ باہم متحد ہو کر عددی اکثریت حاصل کریں اور وزیراعظم کےخلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر اسے کامیابی سے ہمکنار کریں اور اپنی حکومت کی راہ ہموار کریں۔ اسی طرح اگر صدر مملکت جو حکمران پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں‘ قوم کی توقعات پر پورے نہیں اتر رہے اور ملکی و قومی مفادات کے تقاضے نہیں نبھا رہے تو آئین کے تحت ان کیخلاف پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک لائی جا سکتی ہے جسے منظور کرانے کیلئے مشترکہ پارلیمنٹ کے ارکان کی دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ اگر اپوزیشن جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ متحد ہو کر پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کی تحریک پیش کرکے کامیاب کرا سکتی ہیں تو انہیں اپنا یہ جمہوری اور آئینی حق ضرور استعمال کرنا چاہیے تاہم اس وقت اپوزیشن کے مجوزہ گرینڈ الائنس کے جو خدوخال سامنے آرہے ہیں‘ وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے بجائے موقع کی تاک میں بیٹھے طالع آزماءغیرجمہوری عناصر کو ماضی کی طرح جمہوریت پر شب خون مارنے کا موقع دینے پر منتج ہو سکتے ہیں کیونکہ اس مجوزہ اتحاد کیلئے سرگرم عمل سیاسی قائدین نظریات اور اصولوں کے بجائے روایتی مفاداتی سیاست کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں اس لئے جو اتحاد اصولوں کے بجائے باہمی سیاسی مفادات کے تابع تشکیل پائے‘ اسے سسٹم کے استحکام سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
اگرچہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی حکومت کے حوالے سے رجائیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ باور کرا رہے ہیں کہ حکومت کو گرینڈ اپوزیشن سے کسی قسم کا خوف اور خطرہ نہیں ہے‘ وہ اور حکمران پیپلز پارٹی کے بعض دوسرے سرکردہ لیڈران اس خوش فہمی کا بھی شکار ہیں کہ ایم کیو ایم متحدہ پہلے کی طرح پھر حکومت کا حصہ بن جائیگی‘ اس سلسلہ میں حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ تاہم ماضی قریب کے کٹڑ حریف اگر گرینڈ الائنس کیلئے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور بقول اسحاق ڈار ملکی مفاد کی خاطر ماضی کی تلخ یادیں دفن کرکے اتحاد کی منزل آسان بنائی جا رہی ہے تو اس مجوزہ گرینڈ الائنس کیلئے جس پس منظر میں کوششیں کی جا رہی ہیں‘ اسکی بنیاد پر ایم کیو ایم کا دوبارہ حکومتی اتحادی بننا مشکل نظر آرہا ہے‘ اس لئے حکمران پیپلز پارٹی کو کسی خوش فہمی میں رہنے کے بجائے اپنی ان پالیسیوں کی اصلاح اور غلطیوں کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے جن کی بنیاد پر اسکے حکومتی اتحادی ایک ایک کرکے اس سے الگ ہوتے اور حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد اگر پیپلز پارٹی اپنی من مانیوں اور اداروں سے ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار نہ کرتی‘ میثاق جمہوریت پر عمل پیرا رہتی اور اپنی حلیف مسلم لیگ (ن) کےساتھ کئے گئے اسلام آباد اور بھوربن کے معاہدوں کی پاسداری کرتی تو بقول پیپلز پارٹی قاتل لیگ کےساتھ موجودہ حکومت کی تشکیل پر منتج ہونیوالا اتحاد نہ صرف سسٹم کے استحکام بلکہ عوام کے اقتصادی‘ معاشی اور بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے متعلق مسائل کے حل کےساتھ ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی کی بھی ضمانت بن جاتا اور اسے اب اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا جبکہ اب حکمران پیپلز پارٹی کی سابقہ حلیف جماعتیں ایک دوسرے کےساتھ نظریاتی اور سیاسی ہم آہنگی نہ رکھنے کے باوجود بغض معاویہ میں حکومت کی مخالفت کی خاطر ایک دوسرے کےساتھ متحد ہوتی نظر آرہی ہیں۔
اس مجوزہ اتحاد کا یک نکاتی ایجنڈہ عوام کو موجودہ حکمرانوں سے خلاصی دلانے کا ہے جس کیلئے پارلیمانی تبدیلی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے لوگوں کو سڑکوں پر لایا جائیگا تو اس کا نیتجہ حکومت کےساتھ ساتھ سسٹم کی بساط لپٹنے جانے کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو آئندہ انتخابات کی تیاری کیلئے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا بھی حق حاصل ہے‘ جو جمہوری روایات سے مطابقت بھی رکھتا ہے اور اگر اپوزیشن جماعتیں آئندہ انتخابات میں حکمران پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کی نیت سے گرینڈ الائنس تشکیل دینا چاہتی ہیں تو انہیں مستقبل کی سیاست کیلئے ضرور حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ تاہم اس وقت جن جماعتوں کے مابین وسیع تر اتحاد کے امکانات نظر آرہے ہیں‘ وہ ایک دوسرے کی فطری حلیف نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک میں تو شاید ہی کوئی دراڑ پیدا کر پائیں‘ البتہ وہ آزاد کشمیر کے انتخابات کی طرح پاکستان کے عام انتخابات میں بھی دوبارہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا ضرور باعث بنیں گی۔
اگر مسلم لیگ (ن) اقتدار کی سیاست کے تناظر میں اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد کی تشکیل کیلئے سرگرم ہے تو اسے ہم خیال جماعتوں کا فطری اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہیے‘ جبکہ اس کا فطری اتحاد مسلم لیگ کے دھڑوں کے ساتھ ہی بنتا ہے۔ اگر اپنی اپنی اناﺅں کے پیش نظر مسلم لیگی قائدین اپنے اپنے لیگی دھڑوں کو ایک مسلم لیگ نہیں بنا پائے تو کم از کم ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی انتخابی اتحاد تو قائم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اپنی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے جس سے ملک میں مستحکم دو جماعتی نظام کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ اگر ملک میں دو جماعتی نظام رائج ہو جائے تو اس سے پارلیمنٹ میں آنیوالے چھوٹے گروپوں کی بلیک میلنگ اور لوٹاکریسی سے بھی نجات مل جائیگی اور جمہوری نظام بھی اتنا مستحکم ہو جائیگا کہ کسی کو مفاد پرست سیاست دانوں کا کندھا استعمال کرکے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی جرا¿ت نہیں ہو گی۔
اس حوالے سے اگر گرینڈ اپوزیشن الائنس پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی یا حکومت کی اصلاح کیلئے تشکیل دیا جارہا ہے تو یہ سسٹم کے استحکام کیلئے ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے تاہم اگر ایک دوسرے کے کٹڑ نظریاتی مخالف سیاست دان سٹریٹ پاور کے ذریعے تبدیلی کے مقصد کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں تو یہ اقدام ماضی کی طرح ”میرے عزیز ہموطنو!“ کہہ کر ماورائے آئین اقتدار پر براجمان ہونیوالوں کو ہی موقع فراہم کریگا جس سے سیاست اور سیاست دانوں کی بھی مزید رسوائی ہو گی‘ عوام کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئیگا اور سسٹم کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی کیلئے بھی سخت خطرات پیدا ہوجائینگے۔ ہمارے محترم سیاسی قائدین کو اب کم از کم اپنی ماضی کی غلطیوں سے تو سبق حاصل کرلینا چاہیے۔
مغربی سرحد پر فضائی اور زمینی حدود
کی خلاف ورزیاں بزور روکی جائیں
پاک فوج نے کرم ایجنسی میں شدت پسندوں کے خلاف باقاعدہ زمینی اور فضائی آپریشن شروع کر دیا۔اس میں ہیلی کاپٹروں، بھاری توپ خانہ اور ٹینکوں کی مدد بھی لی گئی۔ سرکاری ذرائع کےمطابق اپریشن میں متعدد شدت پسند مارے گئے۔
پاکستان کو شروع سے مشرقی سرحد سے خطرہ رہا ہے یہاں ہمارا ازلی دشمن پاکستان کو نقصان پہنچانے کے موقع کی طاق میں رہتا ہے۔ گو ظاہر شاہ سے لےکر آج کرزئی کی حکومت تک سوائے طالبان کے چار پانچ سالہ دور کے کبھی خیر کی خبر اور ٹھنڈی ہوا نہیں آئی لیکن یہ مغربی سرحد قبائلیوں کے باعث بالکل محفوظ تھی۔ جو آج ان علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ پاک فوج کی موجودگی کے باوجود محفوظ نہیں رہی۔ پاکستان کی فضائی حدود کی امریکی ڈرون اور نیٹو ہیلی کاپٹر دھجیاں بکھیر رہے ہیں تو اب زمینی حدود کو افغان شدت پسندوں کے روپ میں نیٹو کی حمایت سے ”را“ کے ایجنٹ پامال کر رہے ہیں، کبھی چوکیوں پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی دیہات پر۔ گزشتہ روز ایک بار پھر باجوڑ میں چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ایک سیکورٹی اہل کار کو مار ڈالا۔ ڈرون نیٹو اور بھارتی ایجنٹوں کے حملے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ اپنی آزادی، سلامتی اور سالمیت کو یقینی بنانے کے بجائے ہم اپنے ہی لوگوں پر بارود برسا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان کا کیا مفاد وابستہ ہے۔ البتہ امریکی ڈکٹیشن اور ایجنڈا ضرور ہے۔ ضرورت تو ڈرون حملے بند کرانے کی ہے نہ کہ اس سے بڑھ کر خود حملے شروع کر دیئے جائیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی جنگ سے جان چھڑائے۔ قبائل میں موجود فوج کو وہاں سے نکال کر مشرقی سرحد پر لایا جائے۔ قبائل پر بارود برسانے کے بجائے انہیں اعتماد میں لیں تاکہ وہ پھر سے مغربی سرحد کی حفاظت کر سکیں اور بشرط ضرورت کشمیر کے محاذ پر 1947ءکی طرح کام آسکیں۔ ملکی و قومی خود مختاری کا تقاضا ہے کہ ڈرون حملے بند کروائے جائیں، آپکے پاس پارلیمنٹ کا مینڈیٹ موجود ہے۔ پاک فضائیہ کے پاس بھرپور صلاحیت بھی ہے، اب اسے آزمانے سے گریز نہ کیا جائے۔
این آئی سی ایل کیس، تفتیشی افسر پھر معطل
سپریم کورٹ کے حکم پر این آئی سی ایل کیس کی تفتیش کرنےوالے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ظفر احمد قریشی کو وزیر اعظم کے حکم پر گورنمنٹ سرونٹ (کنڈیکٹ) رولز 1964ءکی خلاف ورزی پر معطل کر دیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر چارج سنبھالتے ہی ڈی جی کو ان کی ٹیم میں شامل چار افسروں کے تبادلے منسوخ کرنے کےلئے خط لکھا، اس کی تفصیلات میڈیا میں آنے پر حکام نے 24 گھنٹے میں وضاحت طلب کی جس سے حکام نے عدم اتفاق کرتے ہوئے معطلی کے احکامات جاری کئے۔
یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے ظفر قریشی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن منسوخ کرتے ہوئے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش دوبارہ انکے حوالے کی تھی۔ اس کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر تین سیکرٹری توہین عدالت کا کیس بھگت رہے ہیں ایک ڈی جی ایف آئی اے ملک اقبال کےخلاف توہین عدالت پر فیصلہ محفوظ ہے۔ انہیں بالآخر ایف آئی اے کو خیر باد کہنا پڑا تاہم ڈی جی ہوتے ہوئے انہوں نے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش ظفر قریشی کے حوالے نہ کی۔ یکم جولائی کو حکومتی وکیل بابر اعوان نے اعتراف کیا تھا کہ تفتیشی افسر کو وفاقی سیکرٹریوں نے وزیر اعظم کی ہدایت پر ہٹایا۔ حکومت ایک طرف اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کا درس دیتی ہے اور دوسری طرف خود بطور ادارہ اپنے اختیارات کا ناجائز اور دیدہ دلیری سے استعمال کرتی ہے۔ سیاست میں پرانے اتحاد ٹوٹتے اور نئے بنتے رہتے ہیں لیکن اس سے انصاف کی راہیں مسدود نہیں ہونی چاہئیں۔ این آر او کیس سے لےکر حج کرپشن اور اب این آئی سی ایل سمیت ڈیڑھ درجن کے قریب مقدمات میں حکومت نے عدلیہ کے ساتھ عدم تعاون یا فیصلے ماننے سے انکار کیا ہے۔ ظفر قریشی نے اپنی وضاحت میں کہا تھا کہ انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے کو خط لکھا تھا میڈیا کو پریس ریلیز جاری نہیں کی تھی۔ مجاز حکام نے اس وضاحت پر عدم اطمینان ظاہر کیا اور معطلی کا حکم دےدیا۔قرائن سے ظاہر ہے کہ حکومت اس کیس سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور سپریم کورٹ کی نظر میں ایماندار افسر کو اس کیس سے ہر صورت دور رکھنا چاہتی ہے جس الزام کے تحت ظفر قریشی کو معطل کیا گیا وہ ”آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہے“ کے مترادف ہے۔ حکومت کا یہ اقدام عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل اور اپنا رعب جمانے کے مصداق ہے۔ بہتر ہے حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے این آئی سی ایل کیس میں غیر جانبداری سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے دے۔