علامہ اقبال نے اللہ میاں سے امت مسلمہ کا شکوہ کیا تھا۔ پھر اسے مولویوں کے ڈر خوف سے جواب شکوہ بھی لکھنا پڑا۔ ’’اللہ میاں تھلے آ‘‘جیسی پنجابی لکھنے والا سائیں اختر لاہوری اپنی بات اور ڈھب سے کرتا ہے۔
میرے سوہنے اللہ میاں
اللہ کردا
تیرا وی کوئی اللہ ہوندا
جیہڑا تینوں ووہٹی دیندا
نالے دیندا پتر دھیاں
میرے سوہنے اللہ میاں
توں اینہاں نے پالن کارن
ٹڈھ تندوری بالن کارن
آٹے دال دا بھا جے پچھدوں
ہٹی والا تینوں دسدا
سو وچ ہوون کنیاں ویہاں
میرے سوہنے اللہ میاں
میں ترجمہ سے اس خوبصورت پنجابی نظم کا حسن غارت نہیں کرونگا۔ البتہ نئی نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اک سادہ سے زمانے میں عام لوگوں کی گنتی سو(100) پر ہی ختم ہو جایا کرتی تھی۔ سو میں پانچ ویہاں (20)ہوتی تھیں۔ تگڑے لوگ اس زمانہ میں بھی لین میں دین میں نہیں سات ویہوں سے سو شمار کرتے۔ کمزور اللہ میاں سے تگڑوں کے مقابلہ میں مدد مانگتے رہتے۔ لیکن اللہ میاں نے ایسے تمام معاملات روز حشر کیلئے اٹھا رکھے ہیں۔ تبھی تو غریبوں کا بے پایاں درد رکھنے والا شاعر ساحر لدھیانوی جھنجھلا کر کہتا ہے:
فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن
فطرت کسی بے بس کا سہارا نہیں ہوتی
سائیں اختر اللہ میاں سے بھرا بیٹھا تھا۔ چندہ برائے تعمیر مسجد والا ڈبہ دیکھ کرچلّا اٹھا۔مینوں گھر تے دے نئیں سکیا‘اپنا گھر تے آپ بنا۔ سرائیکی بیلٹ سے اک عجب آواز آئی ہے۔ بے درو دیوار کے سے گھر کا مالک شاعر اللہ میاں کو گوش گزار کرتا ہے کہ میں تمہارے گھر کی تعمیر کیلئے اینٹ، روڑا، پتھر، سیمنٹ، ریت دینے سے قاصر ہوں البتہ جب تک تمہارا گھر مکمل نہیں ہوتا، اگر تم پوہ کی سردی اور ہاڑ کی گرمی برداشت کر سکتے ہو تو میرے گھر میں بسیرا کر سکتے ہو۔ اک دکھڑا اور۔۔۔
رزق پتھر میں بھیجنے والے
میرے بچوں کی فیس رہتی ہے
لیکن امجد اسلام امجد اور طرح کی بات کرتے ہیں:
خدا کا رزق تو ہر گز زمیں پہ کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے، مگر یہ بانٹنے والے
قرآن پاک کی سورۃالرحمٰن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ پھر یہ بات تکرار کے ساتھ ہے کہ ’تم خدا کی کون کونسی نعمتوں کاجھٹلاؤ گے‘۔ اس کا مطلب یوں ہوا کہ یہ تمام پھل فروٹ، تمام مخلوق کیلئے پیدا کئے گئے ہیں لیکن پھر کچھ لوگ اپنے حصے سے زیادہ سمیٹ بیٹھے ہیں۔ اس وقت صرف آٹھ آدمیوں کے پاس کل دنیا کی نصف دولت موجود ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان آدمیوں کی مزید دولت کمانے کی تگ و دو ابھی ختم نہیں ہوئی۔
رزق کی منصفانہ تقسیم نسل انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مذہب ایثار کی راہ میں اس کا حل ڈھونڈتا ہے۔ جب علامہ اقبال کارل مارکس کے بارے کہتے ہیں کہ’قلب او مومن دماغش کافرست‘ کہ اس کا دل مومن سہی لیکن دماغ کافر ہے۔ یہاں علامہ اقبال کارل مارکس کی مالی امور میں اسی ایثار سے روگردانی کو کفر قرار دیتے ہیں۔
کسی معاشرے میں دو طبقات کا ہونا ایک فطری امر ہے۔ یہ قدرت کے پیدا کردہ ہیں۔ یہ ہمیشہ رہیں گے۔ پہلا برتر طبقہ دوسرا نچلا طبقہ۔ہمارے ہاں برتر طبقہ رفاہی نہیں استحصالی ہے۔ یہی ہمارا مسئلہ ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے وزیر خزانہ نے انکشاف کیا کہ ہمارا صرف پانچ فیصد زیادہ کمانے والا طبقہ 12بلین سالانہ ٹیکس چوری کا مرتکب ہوتا ہے۔ سید قطب شہید نے غیر منصفانہ شرح منافع کو مانند سود کے ہی حرام قرار دیا ہے۔ انڈین پنجاب میں گنے کا ریٹ 400روپے من ہے۔ یہ رقم پاکستانی کرنسی میں 1312روپے بنتی ہے۔ جبکہ انڈیا میں چینی کا ریٹ پاکستان سے تین گنا کم ہے۔ پاکستان میں گنے کا ریٹ 400روپے فی من ہے جبکہ یہاں شوگر مل مالکان، چینی انڈیا سے تین چار گنا مہنگی بیچتے ہیں۔ شوگر ملیں جاگیرداری کی انتہائی جدید شکل ہیں۔ برسوں پہلے جنرل ضیاء الحق کی کابینہ نے 28سالہ نوجوان جاوید ہاشمی کو سیٹھ احمد داؤد نے بتایا تھا کہ آئندہ پاکستانی سیاست میں شوگر مل مالکان کا اہم کردار ہوگا۔ اس وقت اس جہاندیدہ صنعتکار کے ذہن میں آئی پی پیز کی لوٹ کھسوٹ بالکل نہیں تھی۔ شاید وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سرکاری طور پر اس سطح کی کرپشن بھی ممکن ہے۔
غربت رازق کی پیدا کردہ نہیں، یہ اللہ کے رزق کی تقسیم میں انسانی بدانتظامی کا نتیجہ ہے ورنہ خالق نے اپنی مخلوق کے رزق کا بندوبست اس کی پیدائش سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ ہمارا تاجر غیر منصفانہ شرح منافع کی مانند سود کو حرام نہیں سمجھتا، نہ ہی ہمارا مْلا، مفتی، قاضی اسے یہ باریک نکتہ سمجھاتا ہے۔ ایک تاجر سے پوچھا گیا، جب کسی غریب کی کمائی اس کی ضروریات کے قریب قریب پہنچ بھی جائے تووہ خوشی سے نہال ہو جاتا ہے۔ آپ کتنی کمائی پر خوش ہوتے ہیں؟ جواب آیا۔ دیکھئے ضروریات کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہوتی ہے، خواہشات کی کوئی حد نہیں۔ کبھی کبھی تو یہ خواہشات پوری کرنے کیلئے عمر بھی تھوڑی پڑ جاتی ہے۔’دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے‘۔ علامہ اقبال اس لوٹ کھسوٹ کو اور نظر سے دیکھتے ہیں:
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے؟ مردِ غریب و بے نوا
مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا
٭…٭…٭
بہت سے لوگ بھوکے کیوں رہ جاتے ہیں؟
Jan 06, 2025