اپنی قومی شناخت اور جذبۂ حب الوطنی میں مزید استقامت پیدا کرنے کیلئے جنوری 2021 میں اپنے اس کالم کا آغاز وطن عزیز کو درپیش سیاسی‘ معاشی اور چند ان اقتصادی مسائل سے کرنے جا رہا ہوں جو ماضی کی طرح گزشتہ برس پاکستان کی مجموعی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کا سبب بنے۔ Gray List بدستور قائم پابندیاں COVID-19 تیسری لہر کے منفی اثرات‘ برٹش ورجن آئی لینڈ کی ہائیکورٹ کے حکم پر مشہور ریکوڈک کیس میں پاکستان کے اثاثوںکو منجمد کرنے کی کارروائی‘ Loc پر سلسلہ وار بھارتی جارحیت کا نہ رکنے والا بزدلانہ سلسلہ اور 73برس سے باکمال لوگوں کو لاجواب سروس مہیا کرنیوالی شدید مالی بحران کی شکار قومی ائیر لائن PIA کی زبوں حالی سے دنیا بھر میں ہونے والی جگ ہنسائی وہ چند مسائل تھے جن کے فوری اور موثر حل کیلئے حکومت نے گو ممکنہ اقدام تو اٹھائے مگر مالی بحرانوں کی شدت میں کمی واقع نہ ہو سکی یہ کہنا کہ ملک کو درپیش تمام مسائل پراس نئے سال میں مکمل طور پر قابو پا لیا جائے گا اس بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
PIA کی غیر معیاری اور سہولتوں سے محروم سروس‘ شرمناک حد تک مالی خسارہ‘ اپنی فضائی عمر پوری کرنے والے طیاروں کا فوری متبادل‘ انجینئرنگ‘ مینٹیننس‘ گرائونڈ سٹاف اور فضائی میزبانوں کی جدید خطوط پر ازسر نو تربیت کا رونا پہلی مرتبہ میں نے 2010 میں رویا تھا اور پھر زہے نصیب 2019 تک اس قومی رونے کا سلسلہ جاری رہا اس امید پر کہ حکومت یا انتظامیہ کے کسی بڑے بااختیار صاحب کو میرے یہ قومی ترلے‘ منتیں اور آنسو شاید اپنی جانب متوجہ کر سکیں تاہم کامیابی کی ایک ہلکی سی امید اس وقت پیدا ہوئی جب اپنی لاجواب سروس کے اس وقت کے جرمن نژاد سی ای او Mr. Bernard اپنے چند ڈائریکٹروں کے ایک وفد کے ہمراہ لندن آئے اپنی ملاقات کے دوران انہیں اپنے قومی رونے دھونے سے جب آگاہ کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے برطانوی پاکستانیوں کے تمام تحفظات دور کرنے کی حامی بھرتے ہوئے وعدہ کیا کہ کراچی پہنچتے ہی وہ میری ان قومی معروضات پر احکامات جاری کر دیں گے۔ مگر! میں بھی کتنا سادہ کالم نگار تھا احکامات کو مسئلے کا حل سمجھ بیٹھا تھابرنارڈ کراچی پہنچ گئے اور پھر معاملہ
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے سے آگے نہ بڑھ سکا… اور یوں میں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے قومی آنسوئوں کی اب یوں بے توقیری نہیں ہونے دوں گا کہ اگلے روز قومی ائیر لائن کو اپنی انتظامیہ کے کسی ایسے اللہ والے کی نظر لگ گئی جسے اتارنے کیلئے تمام ترکیبیں اور پھونکیں تک اب جواب دے چکی ہیں۔ گزشتہ برس آناً فاناً اس انکشاف پر کہ پی آئی اے کے 262 ہوابازوں کے مشکوک اور مبینہ جعلی لائسنس عالمی ایوی ایشن کے معیارسے مسابقت نہیں رکھتے پوری قوم کا سر شرم سے تو جھکا ہی تھا مگر بین الاقومی سطح پر اس خبر سے قومی ائیر لائن کو جو نقصان اٹھانا پڑا اس پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے اس بارے میں اگلے روز معزز جج اطہر من اللہ صاحب نے عدالت میں سیکرٹری ایوی ایشن سے جب یہ سوال پوچھا کہ 262 پائلٹوں میں سے کتنے پائلٹوں کے لائسنس درست نکلے تو سیکرٹری ایوی ایشن کا مبینہ طور پر یہ کہنا تھا کہ 50 پائلٹوں کے لائسنس منسوخ ہو چکے ہیں جبکہ مزید 32 پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیں جس پر معزز عدالت نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تو 262 جعلی پائلٹوں کا ذکر کیا گیا اب تعداد 82 کیسے ہو گئی؟ ایسے خلاف قانون اقدامات کا تحفظ کون کرے گا؟
دوسری جانب یورپی یونین کی ایوایشن سیفٹی ایجنسی نے CAA کے سیفٹی Audit کے بغیر پی آئی اے کو یورپ اور برطانیہ کیلئے پروازوں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے بنیادی طور پر پاکستانی پائلٹوں کے جعلی لائسنسوں کے انکشاف اور وفاقی وزیر ہوابازی کے دیئے گئے سچے اور کھرے بیان کے بعد یورپی یونین نے پی آئی اے کی پروازوں پر 6 ماہ کیلئے پابندی عاید کر دی تھی مگر اب یہ پابندی مبینہ طور پر غیر معینہ مدت تک برقرار رہ سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ پی آئی اے کو کسی کی ’’نظر‘‘ لگ چکی ہے اب ’’کور اور نن کور‘‘ کا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق قومی ائیر لائن میں اس وقت 10 ہزار5 سو کے قریب ریگولر اور 2400 کے قریب ڈیلی ویجزملازمین خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 2021کے آغاز سے ایسے ملازمین کی تعداد مبینہ طور پر پانچ سے چھ ہزار تک محدود کر دی جائے گی۔
یاد رہے کہ PIA کے بیڑے میں اس وقت 29 جہاز ہیں جبکہ 2022 تک بیڑے میں 16 نئے جہاز شامل کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے حکومت اور انتظامیہ اس بارے میں لیز پر مزید طیارے خریدنے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے مگر اصل مسئلہ سیفٹی آڈٹ اور قومی ائیر لائن کے گرے ہوئے معیار کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ ملازمین کی تعداد میں کٹوتی کے عمل کو بھی شفاف بنانا ہے ادھر پی آئی اے کی انتظامیہ میں شامل با اختیار صابوں کے ایک تاریخی مگر شاندار قومی فیصلے پر مجھے اپنی جانب سے انہیں خصوصی مبارکباد اس لئے پیش کرنی ہے کہ بین الاقوامی اڑانیں بھرنے والے طیاروں میں میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والی ان ائیر ہوسٹز اور پرسرز‘ کی مبینہ طور پر فہرستیں طلب کر لی گئی ہیں جن کے فربہ اجسام دوران سفر میزبانی میں دشواری کا سبب بن رہے ہیں۔ دیکھنا اب صرف یہ ہے کہ انتظامیہ کے ان احکامات پر کتنے عرصہ میں عمل درآمد ہوتا ہے یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ دنیا کے بعض ممالک PIA سے پہلے ہی امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ قومی ائیر لائن کے حالات اگر اسی نہج پر رہے تو ہو سکتا ہے قومی ائیر لائن 115 ارب روپے سے زائد کے نقصان سے دوچار ہو جائے جو حکومت کیلئے ہی نہیں اوورسیز پاکستانیوں کیلئے بھی ایک بہت بڑا صدمہ ہو گا ایک اور صدمہ ممتاز قانون دان‘ ڈاکٹر مجید نظامی کے معتمد دوست اور تحریک استقلال برطانیہ کے سابق صدر بیرسٹر ظہور بٹ کا لندن میں انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024