باہر کے ملکوں میں جب بھی جاتی ہوں تو ٹریفک کے نظام میں نظم و ضبط دیکھ کررشک پیدا ہوتا ہے۔ کھلی سڑکوں پر گاڑیاں تیز رفتار میں چلتی ہوئی ٹریفک سگنل کو دیکھ کر رک جاتی ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف فٹ پاتھوں پر لوگ پیدل چلتے ہوئے زیبرا کراسنگ پر آرام سے سڑک پار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھار معذور لوگ بھی اس سگنل کا انتظار کرتے ہوئے کسی نہ کسی کی مدد سے سڑک پار کر لیتے ہیں۔ٹریفک کھلتے ہی اشارہ پاتے ہی سبز بتی کو دیکھ کر اپنی اپنی گاڑیوں کو مطلوبہ جگہوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ کسی کو اتنی جلدی نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی کوشش کرتا ہے کہ آگے جانے والی گاڑی کو نیچا دکھاکر آگے نکل جائے۔ جیسا کہ پاکستان میں بعض نوجوان پیچھے آنے والی گاڑی کو ناک کا مسئلہ بناتے ہوئے اپنی گاڑی بھگاتے ہیں اور اس سے آگے نکل جاتے ہیں اور خوشی کا نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم نے میدان جیت لیا۔ اور یہ نہیں سوچتے کہ جو شخص آگے نکلا ہے ہو سکتا ہے کہ کسی مجبوری کی بناہ پر نکلا ہے یا کسی مریض کو ہسپتال پہنچانے کی خاطر جلدی میں ہو۔ مگر پیچھے رہنے والا شخص اس کی اس حرکت سے نالاں ہو کر ریس لگا بیٹھتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ اس طرح کرنے سے کسی کی جان بھی جا سکتی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے نوجوانوں کو کون سمجھائے۔۔۔بگڑے گھروں کے نو دولتیے لڑکے جب سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ گھمنڈ اور دولت کے نشے میں اپنے آپ کو دوسروں پر فوقیت دیتے ہیں۔ وہ چھوٹے دل و دماغ کے ہوتے ہیں جن کا ذہن ایک محدود دائرے تک ہی ہوتا ہے۔۔ جو بھی باہر کے ملک سے آتاہے تو اس کو سب سے بڑی شکایت یہ ہوتی ہے کہ میرا بلڈ پریشر گاڑی چلاتے ہوئے بڑھ جاتا ہے۔ اگر اس طرح کی ٹریفک کا حال رہا تو مجھے سوچنا پڑے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں ٹریفک میں بری طرح پھنس جائوں تو کہیں اللہ کو پیارا نہ ہو جائوں۔ حالانکہ وہ شخص بھی اسی مٹی کی پیداوار ہوتا ہے۔ چند سال وہ باہر گزار کر بھول جاتا ہے کہ میں بھی اسی ملک کا باشندہ ہوں۔ اسی سر زمین پر میں نے آنکھ کھولی ہے اور یہ بھی اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نظم و ضبط کا فقدان ہے۔
لیکن میزبان باہر سے آنے والے شخص کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے’’ مریں آپ کے دشمن آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ اگر پاکستان میں کامیاب گاڑی چلانی ہے تو ایک بات کا خیال رکھیں کسی کی پرواہ نہ کریں۔ آپ یہ سوچیں اپنے آپ کو کیسے بچانا ہے۔ گاڑی چلاتے وقت سامنے سے آنے والا کتا یا بلی اور یا کوئی اور جانور آگیا تو اس کی جان بچانے کی کوشش نہ کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کی اپنی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ بلی یا کتا تو بچ جائیں گے مگر آپ ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سو جائیں گے۔ کئی لوگوں کی جانیں جانوروں کو بچانے کیلئے چلی جاتی ہیں۔ کیا کریں باہر کے ملکوں کی طرح یہاں اچھا نظام نہیں ہے۔ آپ نے یہاں رہنا ہے آپ کو گاڑی بھی چلانی پڑے گی۔ اسلئے یہاں کے طور طریقے اپنانے پڑیں گے۔ آپ کو عادت پڑ گئی ہے امریکہ یورپ کی۔۔۔وہاں مانتا ہوں بہت اچھا نظام ہے۔ مگر یہ تو سوچیں یہ ہمارا ملک ہے۔ ہماری اپنی پہچان ہے۔ کسی قسم کے تعصب کے بغیر خلوص،محبت اور اچھے اخلاق سے آپ کے دوست چاہنے والے ملیں گے‘‘۔ پھر وہ صاحب جواب دیتے ہیں ’’اگر گاڑی چلاتے ہوئے کوئی انسانی زندگی کا نقصان ہو جائے تو کیا ہو گا‘‘۔ہونا کیا ہے بھائی تھوڑا سا جرمانہ۔۔۔کچھ روز کی قید پھر آپ ہر خطرے سے محفوظ ہیں۔ یہاں پر بڑے بڑے لوگوں کو دعوت میں بلائیں۔۔۔ماشااللہ اتنا کما کر لائے ہیں۔۔۔اثر رسوخ پیدا کریں۔ اوہ پھر جواب دیتے ہیں۔ ’’سب باتیں آپ کی ٹھیک ہیں۔۔۔مگر ایسا کرنے سے میرا ضمیر مر جائے گا‘‘۔ دور کی مت سوچیں یہاں پر کسی کا ضمیر ہے ہی نہیں۔کہا نا اگر یہاں رہنا ہے تو آنکھوں سے اندھے، کانوں سے بہرے اور منہ سے گونگے بن جائیں۔ بس پھر عیش ہی عیش ہے اگر پھر بھی گاڑی چلانے سے ڈر لگتا ہے تو بڑا ہی ماہر(ایکسپرٹ) ڈرائیور رکھ لیں۔
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38