بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میںانتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی مسلسل دوسری بار برسر اقتدار آئی ہے۔ نریندر مودی نے اپنے پہلے دور حکومت میں بھی مسلمانوں کیخلاف پالیسیاں اپنائیں مگر اپنے دوسرے دور قتدار میں ان کی مسلم کش پالیسیوں میں تیزی آ گئی ہے۔ اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد سال کے آخر میں سٹیزن شپ ایکٹ میں متنازع ترامیم بھی کر ڈالیں۔ متنازعہ شہریت ایکٹ کی منظوری کے بعد بھارت بھر میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو سہولت دینے والا یہ قانون انڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ احتجاجی مظاہروں میں ریاست اترپردیش سب سے زیادہ متاثرہ ہوئی ہے جبکہ آسام ، دہلی، بنگال و دیگر شہروں میں بھی مسلمان و دیگر اقلیتیں سراپا احتجاج ہیں۔ یو پی میں 20 دسمبر سے شروع ہونے والے مظاہروں میں 25 افرادجاں بحق ہو چکے ہیں۔یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے ان سے ’انتقام‘ لیا جائے گا اور سرکاری املاک کے ہرجانے کے طور پر ان کی جائیداد کی قرقی کی جائے گی۔ پولیس نے ان کے حکم پر عمل کیا ہے اور ’مطلوب‘ افراد کی نشاندہی کے بعد، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، ان کے پوسٹر پورے کانپور میں چسپاں کروا دیے ۔ اس سے مسلم برادری میں خوف کا ماحول ہے۔ اس خوف میں مزید اضافہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے وجود سے پیدا ہوا ہے۔ این آر سی میں لوگوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ انڈیا کے شہری ہیں۔ کتنا بڑا تضاد ہے کہ ایک ہندو خاندان اور ایک مسلم خاندان دونوں شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو اول الذکر سی اے اے کے تحت شہریت حاصل کر لے گا لیکن مسلم خاندان کو اس کی شہریت سے محروم کر دیا جائے گا۔ بھارت بھر میں ہزاروں مسلمانوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ بہت دنوں تک مختلف اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولیات معطل رہیں۔ پولیس مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں اور پاکستان چلے جانے کا حکم دیتے نظر آ رہے ہیں۔
یوں تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ مگر نریندر مودی کی حکومت میں انتہاپسندانہ اور متعصبانہ رویوں کی بدولت اس میں مزید شدت آ گئی ہے ۔ بھارت میں مسلمانوں کو تیسرے درجے کا شہری سمجھا جا رہا ہے۔ ان حالات میں وہ حلقے بھی قائداعظمؒ کی عظمت اور ان کے وژن کو درست مان رہے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت ان کی مخالف تھی ۔قائداعظمؒ بیسویں صدی کے سب سے قدآور رہنما تھے۔ قائداعظمؒ نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس کے پلیٹ فارم سے کیا اور پہلے پہل وہ ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے اور نہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بھی کہا گیا۔ تاہم جب انہوں نے ہندو رہنمائوں کے ساتھ کام کیا توان پر ہندو ذہنیت آشکار ہو گئی کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندو اس خطہ میں بالادستی کا خواب دیکھ رہے ہیں تاکہ مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لیا جائے۔ چنانچہ قائداعظمؒ نے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد کر دیا اور مسلمانان برصغیر اپنے تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی قیادت میں ایک ہو گئے۔ قائداعظمؒ نے فرمایا کہ مسلمان قومیت کی ہر تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں ۔ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے الگ الگ قوم ہیں یہی دوقومی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے اپنے لئے الگ وطن حاصل کیا۔ قائداعظمؒ کا مطمع نظر یہ تھا کہ پاکستان میں ایک ایسا اسلامی معاشرہ قائم ہو جو پوری دنیا کیلئے مثال ہو اور جہاں مسلمان اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔
مسلمانانِ ہند اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسا زیرک‘ مدبر اور دیدہ ور رہنما عطا فرمایا۔ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات پر توکل اور محض اپنی قوتِ ارادی کے بل بوتے تاریخ کے دھارے کا رخ تبدیل کردیا۔ اُنہوں نے اپنی پرخلوص مساعی کی بدولت برصغیر کے مختلف علاقوں میں ہجوم کی مانند منتشر مسلمانوں کو ایک قوم کی صورت مجتمع کیا‘ ان کیلئے ایک سمت کا تعین اور منزل کی نشاندہی کی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جس وقت تحریک قیام پاکستان کی قیادت سنبھالی‘ وہ ان کی پیرانہ سالی کا زمانہ تھا۔ اُس عمر میں انہیں آرام و سکون کی ضرورت تھی مگر اُنہوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مسلمانوں کو آزادی دلانے کی خاطر اپنا عیش و آرام قربان کردیا۔ اللہ کریم نے انہیں بے مثال قوتِ ایمانی سے مالامال فرما رکھا تھا‘ لہٰذا وہ مشکلات و مصائب سے بالکل نہ گھبرائے اور انگریز سامراج‘ ہندو بنیے‘ عاقبت نااندیش سکھوں اور کانگریس کے فریب میں آئے ہوئے وطن پرست مسلمانوں کے ایک مٹھی بھر گروہ سے چومکھی لڑائی میں فتح یاب ہوگئے۔ اُنہوں نے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کی اور اپنے پیروکاروں کو بھی آئین و قانون کی پاسداری کی تاکید کی۔ تحریک پاکستان کے رہنما قائداعظمؒ کے سپاہی نواب صدیق علی خاں مرحوم قائداعظمؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
’’مجھ سے پوچھئے قائداعظمؒ کیا تھے۔ قائداعظمؒ قوم کا دماغ تھے۔ قائداعظمؒ قوم کی زبان تھے۔ قائداعظمؒ قوم کے سب سے بڑے نباض تھے۔ قائداعظمؒ چارہ گر تھے۔ قائداعظمؒ قوم کے دلی جذبات کے واحد عکاس تھے۔ قائداعظمؒ قوم کے درد کا درماں تھے۔ قائداعظمؒ قوم کے غمگسار تھے۔ قائداعظمؒ قوم کے بہی خواہ تھے۔ قائداعظمؒ قوم کی ڈھال تھے۔ قائداعظمؒ پیروِ اسلام تھے۔ قائداعظم ؒمجاہد اسلام تھے۔ قائداعظمؒ نہتی قوم کے بے تیغ سپہ سالار تھے۔ قائداعظمؒ قوم کے بے تاج بادشاہ تھے۔ قائداعظمؒ قوم کے محسن اعظم تھے۔ قائداعظمؒ پاکستان کے بانی تھے۔ قائداعظمؒ قوم کے قائداعظمؒ تھے۔ الحاصل قائداعظمؒ ہمارے سب کچھ تھے اور تاقیامت سب کچھ رہیں گے۔‘‘
بھارت کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے برصغیر کا ہر مسلمان قائداعظمؒ کی عظمت اور ان کے نظریات کا گرویدہ ہو گیا ہے کہ قائداعظمؒ نے جو بات آج سے اسی نوے برس قبل محسوس کر لی تھی وہ بعض حلقوں کو آج سمجھ آ رہی ہے۔ ایسے میں برصغیر کے ہر مسلمان کی زبان پر یہ الفاظ ہیں ’’ شکریہ قائداعظمؒ ‘‘۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024