’’شہید جمہوریت‘‘کچھ یادیں، کچھ ملاقاتیں ،کچھ تاثرات
قارئین ایک بار پھر 27 دسمبر کا قیامت خیز دن گزر گیا ہے . گیارہ سال قبل دسمبر کے ان آخری چند دنوں میں وہ ملک کی خاطر وہ سب کچھ کردیتں جو اسکے وجود میں آنے کے بعد ابتک نہ ہوسکا تھا لیکن شاہد اللہ تعالٰی کو یہی منظور تھا۔انکی یادوں میں آج بھی لاکھوں دلوں اور آنکھوں نے ایک ساتھ سرخ آنسو بہائے ہیں میں بھی اپنی اس سرخ متلاطم کیفیت میں سب سے پہلے فیض کے ایک زندہ شعر میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے امر ہوجانے والی شہید جمہوریت کی نذر کرتی ہوں
؎جورکی توکوہ گراں تھی تو
جو چلی تو جاں سے گذر گئی
اس کے بعد اس کے ساتھ تین ملاقاتوں اور باتوں کی بات کرونگی لیکن سے سے پہلا واقعہ جو دنیائے اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم ، غیر معمولی ذہین،غیر معمولی حد تک دلیر خاتون کے حوالے سے ہے وہ یہ ہے کہ…!یہ گیارہ جون 1994ء کی پروقار سہہ پہر تھی اسلام آباد کے سب سے بڑے ہوٹل کے اردگرد غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے ٹریفک کڑے پہرے میں گذر رہی تھی تھوڑی دیر بعد محترمہ بے نظیر بھٹو گولڈ میڈلز دینے کی تقریب کی صدارت کرنے کیلئے آرہی تھیں ۔گولڈ میڈلز زینب نور تشدد کیس پر وزارت انصاف و قانون اور ہیومین رائیٹس سیل لیکران چند صحافیوں کو دیئے جارہے تھے جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے زینب نور کے شوہر کے ہاتھوں اسکے جسم کے اندرونی نظام کو بجلی کے جھٹکے دے دے کر نیم مردہ کردینے کی خبر پڑھکر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا میرا شدید ترین ردعمل بھی ایک اخبار میں حکومت کے نام خط کی صورت میں شائع ہوا جو براہ راست محترمہ وزیراعظم کی نظروں سے گزرا،حکومت نے نوٹس لیا اور میرا نام گولڈ میڈل کیلئے منظور کرلیا گیا۔اس موقعہ پر محترمہ نے کیش انعام کا بھی اعلان کیا ۔شہادت کے بعد محترمہ کی ویمن کاز کو قلم کے ذریعے آگے بڑھانے کے سلسلے میں مجھے وزارت ہیومن رائیٹس کیطرف سے حکومت تیسرا بے نظیر لیڈر شپ ان ویمن ایوارڈ بھی دیا بہر حال 11 جون کو وہ اندر اور باہر سے خوبصورت خاتون میرے سامنے موجود تھی اسکے نرم ہاتھ کا مشفق لمس آج بھی میرے ہاتھ پر نقش ہے اور اسکی زبان سے نکلے ہوئے پانچ الفاظ آج میرا سرمایہ افتخار ہیں۔ کہنے لگیں’’I salute your pen power‘‘اور آج میں اس تمہید کے بعد اسے کہنا یہ چاہتی ہوں کہ سنو بے نظیر میری قلم کی حس طاقت کو تم نے خراج تحسین پیش کیا تھا آج وہی طاقت تم پر کالم لکھتے وقت بھسم ہوگئی ہے میری بھری پری انعامی ادبی زندگی کے آٹھ گولڈ میڈلز چپ ہیں اور سارے عمدہ الفاظ مٹ گئے ہیں۔تمہاری جوان شہادت کے صدمے کیوجہ سے سارے لفظ،سارے نقطے،اپنا مفہوم کھوچکے ہیں،جمہوریت کی خاطر مٹ جانے والے تیسرے وجود کو خراج عقیدت ،خراج تحسین اور دعائے آخرت کا نذرانہ دینے کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا بلکہ اگر سچ کہوں تو یہ کیوں نہ کہہ دوں کہ قوم و ملک کی خاطر تمہاری قربانیوں کی یاد میری قلمکاری سب کچھ مل کرمجھے اور بھی بے بس کررہے ہیں میں کتنی ہی قلمی کوشش کیوں نہ کرلوں…تیرے جذبہ حب الوطنی تیری اپنی جان کی قربانی …میں کس کس پر کیا کیا لکھوں؟وطن کی مٹی پر تونے اتنا لہو بہادیا ہے کہ میرے قلم کو بھی سرخ رنگ لگ گیا ہے…اس کی زبان کو بھی گنگ لگ گئی ہے تمہارے ساتھ اپنی تین ملاقاتوں کا حال کیسے لکھوں، اتنا حوصلہ نہیں تیری جیسی ہمت سب میں تو نہیں ہوتی؟میرے ساتھ تمہاری خوبصورت تصاویر ،نئے سال کے تمہارے تہنتی کارڈز اور عید کارڈز میرے سامنے موجود ہیں صرف تم موجود نہیں ہو مگر یقین رکھو صرف پاکستان ہی میں نہیں دنیا کے ہر ملک کا ہر بندہ تیرے لیے دعا گو رہا ہے۔مجھے حیرت اس بات پرہے توجو اتنی ذہین ،اتنی سمجھدار تھی ،تیرا قاتل تیسری شہ رگ تک کیسے پہنچ گیا؟تجھے علم بھی نہ ہو سکا؟تجھے گولیاں مارنے کے بعد اس نے خودکش دھماکے کا ڈرامہ رچالیا اور توبے خبر رہی؟اے کاش تو کھڑی نہ ہوتی۔بیٹھی رہتی بخدا تیرا قد تب بھی سب سے اونچار رہتا تو کہ پچھلی تمام اور آنے والی تمام صدیوں کی واحد دلیر ترین عورت تھی تجھ سے اپنے قاتل سے کچھ بھی نہ پوچھا گیا؟اتنا بھی نہیں کہ اسے تجھ پر حتمی وار کرنے کیلئے کس نے یہاں بھیجا؟توتو بس خاموش ہوگئی عمر کے چون سال گزارنے کے بعد ایک ہی بار خاموش ہوگئی۔لیکن یقین رکھو تیرے چاہنے والے تیرے جانثار عوام کبھی بھی خاموش نہیں رہے۔وہ ایک نہ ایک دن ضرور تیرے قاتلوں سے بدلہ لیں گے ورنہ اللہ تعالٰی خود تیرے قاتلوں کو جہنم رسید کرے گا۔ قوم کیلئے تیری شہادت کا زخم صرف 27 دسمبر کو ہی نہیں ہر دن تازہ ہے … اللہ تعالٰی کی صد رحمت ہو پاکستان تیری جان تھا تبھی تونے اس پرجان دے دی۔ پوری قوم اس احسان عظیم کی قربانی پر تیرے لیے اجر عظیم کی دعا گو ہے وطن عزیز ہمیشہ کیطرح آج بھی مغربی کافر طاقتوں کے نشانے پر ہے اے کاش آج تو زندہ ہوتی تو ملک بھرکے سیاستدان کے ساتھ مل بیٹھتی اور وطن عزیز کو اندرونی سیاسی خلفشار اور بیرونی سازشوں سے بچانے کا چارہ کرتی۔
آسمان تیری لحدپہ شبنم افشانی کرے