اتوار ‘ 29؍ ربیع الثانی 1440 ھ ‘ 6 ؍ جنوری 2019ء
مودی کو کشمیر کے مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا: عمر عبداللہ
مودی کو مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی سے سوچنے کا مشورہ دینے والے اس غدار ابن غدار کو کشمیریوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ یہ صرف آئندہ الیکشن میں کشمیریوں کو بے وقوف بنا کر ووٹ حاصل کرنے کی نوٹنکی ہے۔ مودی کی تو اپنی کشتی اس وقت منجدھار میں ہے۔ خود عمر عبداللہ ذرا اپنے والد کے لچھن تو ملاحظہ کریں ۔ پہلے ان کو کہیں کہ کم از کم وہ ہی کشمیریوں کے جذبات کا احترام کریں۔ پورا کشمیر بھارتیو واپس جائو کے نعروں سے گونج رہا ہے اور یہ غدار سابق وزیر اعلیٰ کشمیر شیخ عبداللہ کا بیٹا فاروق عبداللہ نئی دہلی میں بڑے فخر سے جئے بھارت ماتا کے نعرے لگا کر کانگریس بی جے پی اور بھارتیو کو خوش کر کے ا پنے بیٹے عمر عبداللہ کی نوکری پکی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کشمیری بھارت اور بھارت سے وابستہ ہر سیاستدان کو خواہ شیخ فیملی ہو یا مفتی فیملی یا کوئی اور سیاسی مداری ان کو ووٹ دینے سے عرصہ ہوا انکار کر چکے ہیں۔ ہر 5 سال بعد جو الیکشن پریکٹس ہوتی ہے اس کے جعلی بوگس نتائج کے باوجود صرف 17 تا 20 فیصد ووٹ کاسٹ ہو پاتے ہیں جس کے بل بوتے پر یہ کٹھ پتلی بھارت کے تلوے چاٹنے والے سیاستدان پرانی تنخواہ پر ہی کام شروع کر دیتے ہیں۔ کیا خود فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کے دور میں بھارتی فوجی آپریشن بند ہوا۔ کشمیریوں کی شہادتیں رکی، نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو اب یہ کس منہ سے بھارت کومشورے دے رہے ہیں۔ کیا بھارت اپنے زرخریدوں کی باتوں پر کان دھرے گا۔
٭٭٭٭٭
لنڈے کے کپڑوں کی درآمدات میں 5 ماہ کے دوران 6 فیصد اضافہ
موجودہ معاشی صورتحال دیکھ کر لگ تو یہی رہا ہے کہ پوری قوم کو اب لنڈے کا رخ کرنا پڑے گا۔ درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی کا اعشاریہ منہ پھاڑ کر ہمیں اپنے معاشی حالات سے آگاہ کر رہا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ اپنی دھن میں مست چلے جا رہے ہیں جو حضرات اپنے آپ کو دنیا کے بہترین ماہرین معاشیات قرار دیتے تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ پاکستان کی تمام معاشی مشکلات دور کرنے کے مکمل پلان رکھتے ہیں۔ نجانے ان کے پلان کیوں فیل ہو گئے۔ وہ اس وقت کیوں خاموش بیٹھے ہیں۔ اپنے خفیہ خانوں میں محفوظ پلانوں کو نکال کر ان پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ بے شک مسائل پلک جھپکتے حل نہیں ہوتے مگر 4 ماہ میں کچھ تو جنبش ہو۔ مگر یہاں تو ’’قدم ہے تیز تر اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والی حالت ہے۔ اگر لوگوں کا معاشی میزانیہ اسی طرح متاثر ہوتا رہا روپیہ ٹکے سیر ہوتا رہا عوام کی حالت یہی رہی تو پھر …؎
گر یونہی روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
والی نوبت آ سکتی ہے۔ سفید پوش اب مارکیٹوں اور دکانوں کی بجائے لنڈے بازار تک پہنچ گئے ہیں۔ ان کی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرف ہمارے سقراط ، بقراط اور افلاطون جیسے ماہرین کوتوجہ دینا ہو گی۔ ورنہ عالمی ماہرین تو پہلے ہی ملک میں کساد بازاری کا بگل بجا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
زرداری، بلاول سے فضل الرحمن اور شجاعت کی ملاقات سیاسی صورتحال پر غور کیا
اب یہ جومقدمات کی زد میں آئے اپوزیشن رہنمائوں کا اجتماع ہوا ہے اسے سعد قرن یا نحس قرن فی الحال ماہرین علوم فلکیات بھی نہیں بتاسکتے کیونکہ یہ فلکیات کا نہیں سیاسیات کا مسئلہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی تو چلیں اپوزیشن کی جماعتیں ہیں۔ ان پر اقتدار سے دوری بہت گراں گزرتی ہو گی۔ اس لئے وہ ہارے ہوئے جواریوں کی طرح پھینکے ہوئے تاش کے پتوں کو پھر قسمت آزمانے کے لئے اکٹھا کر رہے ہیں۔ مگر ق لیگ کے چودھری شجاعت کی جماعت تو اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ اسی طرح شریک اقتدار ہے جس طرح کبھی خیبر پی کے میں جماعت اسلامی والے شریک اقتدار تھے۔ اس کے باوجود اگر چودھری شجاعت اپوزیشن کے اس اجتماع میں شریک ہیں تو بات کچھ کچھ اچنبھے والی لگتی ہے۔ مگر چودھری صاحب بھی ماہر کھلاڑی ہیں۔ ان کی بھی ساری عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے۔ انہوں نے کچی گولیاں نہیں کھیلیںکہ ہارے ہوئے لوگوں اور پٹے ہوئے مہروں کے بہکاوے میں آ جائیں۔ ہاںالبتہ اس خبر سے پی ٹی آئی والوں کی ضرور پھرکی گھوم رہی ہو گی کہ اس ملاقات میں کیا کچھ ہوا۔ مگر انہیں فکر نہیںکرنی چاہئے۔ چھوٹے چودھری پرویز الٰہی خود وڈھے چودھری سے کچھ نہ کچھ یا سب کچھ اگلوا لیں گے۔ فی الحال تو یہ ملاقات بالکل ہومیو پیتھک قسم کی لگتی ہے۔
٭٭٭٭٭
ایف بی آر کی دلچسپ کارروائی۔ انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی پر منجمد اکائونٹ سے 2 روپے نکلوا لئے
اسے پھرتی کہیں یا جھنجھٹ۔ ایسی کارروائی تو تب ہوتی ہے جب کھسیانی بلی کھمبے نوچنے پر اُتر آتی ہے۔ اب انکم ٹیکس ادا نہ کرنے والی جس فروٹ کمپنی کے ذمہ 13 لاکھ روپے واجب الادا ہیں وہ اتنی بھولی تو ہے نہیں کہ اپنے اکائونٹس میں کچھ رقم رکھ چھوڑتی کہ انکم ٹیکس والے آئیں اور نکال کر لے جائیں۔ اس کمپنی کے عقل مند مالکان نے اپنے اکائونٹ میں صرف 2 روپے علامتی طور پر چھوڑے تھے کہ اکائونٹ جاری رہے۔ اب بورڈ آف ریونیو والوں نے 13 لاکھ وصولی کے لئے یہ منجمد اکائونٹ کھلوایا تواندر پتہ چلا کہ یہ تو فقیر کے کاسہ کی طرح خالی ہے۔ ’’دے جا سخیا‘‘ کے نعرے کے بدلے میں ملنے والے صرف 2 روپے موجود ہیں۔ اب معلوم کرنا پڑے گا کہ یہ یہاں کس طرح رہ گئے اکائونٹ میں ورنہ کمپنی والے تو جھاڑو پھیرکر گئے ہوں گے۔ اب ان سے بھی بری حرکت ایف بی آر والوں نے کی انہوں نے نادیدوں کی طرح یہ 2 روپے بھی نکلوا لئے اس طرح کم از کم ہزاروں روپے خرچ کر کے کی گئی اس کارروائی میں برآمدگی صرف 2 روپے ہوئی جو شاید آنیوں جانیوں کے حساب سے بہتر ہی تصور ہو گی کیونکہ کچھ نہ ملنے سے کچھ ملنا ہی بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭