یہ 21 جولائی 1977ء کی بات ہے خاکسار اس وقت مری میں ’’جنگ‘‘ کے نامہ نگار کے طورپر صحافت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ٹھیک پندرہ روز پہلے جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب اور ان کی کابینہ کے ارکان اور ان کی اپوزیشن قومی اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہوں کو فوج کی حفاظتی تحویل میں لے کر مری پہنچا دیا گیا تھا۔ جنگ راولپنڈی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر محترم شورش ملک نے راقم کو فون پر بتایا کہ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد دونوں کے لیڈروں کو فوج کی حراست میں مری پہنچا دیا گیا۔ شورش ملک مرحوم نے اپنے مخصوص انداز میں راقم سے کہا کہ ’’شیر پنجاب یہ تمہارے لئے چیلنج ہے‘ کوئی خبر مس نہیں ہونی چاہئے‘‘۔
پانچ جولائی کی سہ پہر کو معزول وزیراعظم ذوالفقار علی کو کشمیر پوائنٹ پر واقع گورنر ہاؤس میں پہنچا دیا گیا جہاں فوج کا پہرہ لگا دیا گیا۔ مسٹر بھٹو کی کابینہ کے ارکان کو پنڈی پوائنٹ میں واقع پنجاب ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا۔ پاکستان قومی اتحاد کے لیڈروں جن میں مولانا مفتی محمود‘ نوابزادہ نصر اللہ خان‘ پروفیسر غفور‘ سردار شیرباز مزاری‘ اصغر خان‘ بیگم نسیم ولی خان شامل تھے کو پنڈی پوائنٹ میں واقع سندھ ہاؤس میں فوج کی حفاظتی طویل میں رکھا گیا تھا۔ مارچ 1977ء کے دوسرے ہفتے سے 5 جولائی 1977ء تک 7 مارچ اور 10 مارچ 1977ء کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے زبردست احتجاجی تحریک چلائی اس تحریک کو شروع میں تو بھٹو صاحب نے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن پی این اے کی تحریک آہستہ آہستہ زور پکڑتی گئی اور اپریل میں اس تحریک میں لاکھوں افراد شریک ہونے لگے‘ شٹرڈاؤن سٹرائیک کی کال پر ملک بھر میں بازار بند ہو جاتے۔ اس تحریک کے دوران پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی تھی جس پر خیبر سے کراچی تک سڑکیں سنسان ہو گئی تھیں اور کوئی گاڑی سڑکوں پر نہیں چلنے پائی۔ اس تحریک نے بھٹو صاحب کو قومی اتحاد کی لیڈر شپ سے مذاکرات پر مجبور کر دیا۔ یہ مذاکرات طوالت اختیار کرتے گئے۔ مذاکرات کے دوران مسٹر بھٹو دس روز کے لئے اچانک اسلامی ملکوں کے دورے پر چلے گئے جس سے حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات تعطل کا شکار ہوتے رہے۔ بھٹو صاحب پر نئے انتخابات کے لئے دباؤ بڑھتا گیا۔ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کی مذاکراتی ٹیموں میں شامل رہنماؤں نے جن میں مولانا کوثر نیازی‘ پروفیسر غفور احمد شامل تھے نے بھٹو قومی اتحاد مذاکرات کے بارے میں کئی انکشافات کئے ہیں ان دونوں رہنماؤں نے لکھا کہ پی پی پی اور قومی اتحاد میں نئے انتخابات کے لئے اتفاق ہو چکا تھا کہ مارشل لاء لگا دیا گیا۔ سابق وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے اپنے ٹیلی ویژن انٹرویو میں بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد میں مارچ 1977ء کے متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت اور اسمبلیوں کو ختم کر کے ارسرنو انتخابات کرانے پر اتفاق ہو گیا تھا‘ سمجھوتے پر دستخط ہونے والے تھے کہ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔
5 جولائی 1977ء کو لگنے والے مارشل لاء کے فوراً بعد پی پی پی اور قومی اتحاد کی قیادت کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا اور سارے لیڈروں کو مری پہنچا دیا گیا تھا۔ ان لیڈروں کو پندرہ روز کے لئے حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا۔ مسٹر بھٹو کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر مری کے کشمیر پوائنٹ پر واقع گورنر ہاؤس میں رکھا گیا تھا۔ یہ وہی گورنر ہاؤس تھا جہاں مسٹر بھٹو نے 1972ء میں شملہ میں اندرا گاندھی سے مذاکرات سے قبل چند روز قیام کیا تھا اور ان مذاکرات کے لئے تیاری کی تھی۔ اسی گورنر ہاؤس میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھارتی ہم منصب سردار سورن سنگھ سے مذاکرات کئے تھے یہ مذاکرات کشمیر کے مسئلہ پر تھے۔ 1962ء میں جب چینی سرخ فوج نے نیفا میں بھارتی فوج کی ٹھکائی کی تو اس دوران امریکہ اور مغربی ملکوں کو یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ پاکستان چین کی مدد سے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل نہ کر دے۔ اس خدشے کے پیش نظر امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر مذاکرات شروع کرائے تھے۔ یہ مذاکرات بھٹو سورن سنگھ مذاکرات کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ مستند رپورٹوں کے مطابق مری کے کشمیر پوائنٹ پر واقع گورنر ہاؤس میں جب بھارتی وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ مذاکرات کے لئے آئے تو مسٹر بھٹو سے مذاکرات کی میز پر سردار سورن سنگھ کی کرسی اس طرف رکھنے کی ہدایت کی جہاں سامنے والی کھڑکی سے کشمیر کے برف پوش پہاڑ نظر آتے تھے۔ مسٹر بھٹو نے بھارتی ہم منصب کو ان پہاڑوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے میں امن کے لئے کشمیر کے مسئلہ حل ناگزیر ہے۔
بات 21 جولائی 1977ء سے شروع ہوئی تھی 21 جولائی 1977ء کو جب پی پی پی اور پی این اے کی لیڈر شپ کو فوج کی حفاظتی تحویل سے رہا کیا گیا تو پنجاب ہاؤس میں مقیم قومی اتحاد کے لیڈروں کو ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مری سے راولپنڈی پہنچایا گیا جہاں سے وہ اپنے اپنے شہروں میں چلے گئے۔ 21 جولائی 1977ء کو جب مسٹر بھٹو کو حفاظتی تحویل سے چھٹکارا ملاتو کشمیر پوائنٹ کے گورنر ہاؤس کے سامنے پہاڑی پر موجود پی پی پی کے سینکڑوں کارکن جو ملک بھر سے مسٹر بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے جمع ہوئے تھے اور جن میں خواتین شامل تھیں گورنر ہاؤس کا گیٹ کھلتے ہی اندر داخل ہو گئیں‘ خاکسار کو ان کارکنوں کے ساتھ گورنر ہاؤس میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ ایک اونچے ٹیلے پر مسٹر بھٹو جو سفید قمیض اور شلوار میں ملبوس تھے کھڑے ہو گئے ان کی آنکھیں نمناک تھیں۔شاید کارکنوں کو دیکھ کر وہ جذباتی ہو گئے تھے۔ بہت سے کارکنوں نے مارشل لاء حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے حق میں نعرے لگائے جس پر مسٹر بھٹو نے کہا کہ ’’اب تحریک نہیں چلے گی اب انقلاب آئے گا آپ انقلاب کی تیاری کریں‘‘۔ مسٹر بھٹو کی اس تقریر کی Exclusive رپورٹ خاکسار نے اخبار کو بھیجی جو لیڈ سٹوری کے طورپر شائع ہوئی۔ 21 جولائی کی رات کو مسٹر بھٹو گورنر ہاؤس میں ٹھہرے۔ اگلے روز فوج کی طرف سے ہیلی کاپٹر سے انہیں راولپنڈی تک پہنچانے کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے کہا کہ وہ کار کے ذریعے مری سے راولپنڈی جائیں گے۔ ملٹری پولیس نے مسٹر بھٹو کی کار کو کشمیر پوائنٹ کے گورنر ہاؤس سے جی پی او چوک پہنچایا۔ فوجی افسروں کو ہدایت تھی کہ وہ معزول وزیراعظم کو جی پی او چوک سے دائیں طرف کلڈنہ روڈ پر موڑ کر چپکے سے راولپنڈی پہنچائیں لیکن جب یہ کار جی پی او چوک پہنچی تو مسٹر بھٹو نے کار میں بیٹھے فوجی افسر کو جو کرنل کے عہدہ کا افسر تھا سے کہا کہ وہ انہیں مال روڈ کے راستے لے کر جائے۔ جب کار مال روڈ پر پہنچی تو وہاں موجود سیاحوں نے بھٹو زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ بھٹو نے کار سے باہر نکل کر نعرے لگانے والوں کا ہاتھ ہلا کر جواب دیا۔ اس سے پہلے کہ ہجوم بڑھتا کار تیزی سے کلڈنہ روڈ پر موڑ دی گئی اور مسٹر بھٹو کو 22 جولائی 1977ء کو راولپنڈی پہنچایا گیا جہاں سے وہ لاڑکانہ روانہ ہو گئے۔ اس سے قبل جولائی 1977ء کے دوسرے ہفتے میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق اور ان کے اس وقت کے دست راست جنرل فیض علی چشتی ذوالفقار علی بھٹو سے مری کے گورنر ہاؤس میں ملاقات کر چکے تھے اور انہیں ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرا چکے تھے لیکن 90 دن میں انتخابات کرانے کا یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ مسٹر بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو طیارے کے حادثے میں چل بسے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024