عشرت یو خان....ختم فسانہ ہوگیا
نوائے وقت سے ستمبر 91ءمیں وابستہ ہوا‘ ابتدائی ایام میں جن شخصیات سے تعارف ہوا‘ ان میں سے ایک عشرت یو خان بھی تھے جو 27 دسمبر کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ ملنسار‘ ہر دلعزیز‘ دکھ درد میں کام آنے والے‘ منافقت اور مصلحت کی بجائے حقیقی محبت کے پیکر کراچی آفس میں کون ہے‘ جس کا ان سے تعارف رہا اورافسردہ نہ ہوا ہو۔
نوائے وقت میں ملا قات سے پہلے ان کا نام چھ حروں کے قتل کیس میں ماخوذ ایس پی شبیر کلیار کی علاقہ غیر میں ہلاکت پر شائع شدہ اس نیوز اسٹوری میں پڑھا تھاجو نوائے وقت میں ہی شائع ہوئی تھی پھر اسے تفصیلی طورپر حیدرآباد کے سینئر صحافی ظہیر احمدنے رپورٹ کیا اوراپنی کتاب میں عشرت کی تعریف بھی کی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی خبریں اوربریکنگ نیوز ان کے کریڈٹ پر تھیں۔ وقت نیوز نے ابتداءکی تو اس کے بھی نوشہروفیروز کیلئے ڈسٹرکٹ رپورٹر مقرر ہوئے‘ خود مجھے بھی وسطی سندھ کی سیاست‘ معیشت‘ زراعت اور تاریخ پر معلومات درکار ہوتیں تو ان سے ہی رابطہ ہوتا۔ رات گئے بھی فون کیا تو اٹھاتے خندہ پیشانی ان کاوصف تھا‘ دوران گفتگو ان کے لبوں پر مسکان سجی رہتی تھی۔ راقم نے نوائے وقت جوائن کیا تو ڈسٹرکٹ ڈیسک سے ہی وابستگی رہی۔ اسی دوران متعدد دوست داغ مفارقت دے گئے۔ ڈسٹرکٹ ایڈیٹرراﺅ محفوظ علی‘ سانگھڑ کے حکیم ابراہیم نقشبندی‘ نواب شاہ کے احمد ضیائ‘ ٹنڈو آدم کے اختررانا‘ خیرپورکے رب نواز سیال‘ پیر گوٹھ کے مقیم رند‘ سکھرکے مشتاق گیلانی‘ رانی پورکے غلام محمد جعفری‘ سہون شریف کے نیاز سولنگی‘ جھول کے بہادر علی ‘ ٹنڈو محمد خان کے عمران انصاری‘ دادو کے وزیرمنگی‘ جیکب آباد کے علی شیر آفریدی‘ لاڑکانہ کے شرف صدیقی‘ شہداد کوٹ کے اشرف افغان‘ جام نواز علی کے سلیم صدیقی‘ دولت پور صفن کے الیاس خانزادہ‘ ڈگری کے مشتاق احمد نیاز‘ قمبر علی خان کے مسعود میمن ‘ ڈہرکی کے محبوب آصف‘ جاتی کے احمدشاہ بخاری ‘ کوئٹہ کے عزیز بھٹی سب یاد آتے ہیں۔ یادوں کی اسکرین پر نام اور چہرے سامنے آئیں تو آنکھیں نم دیدہ اور دل افسردہ ہوجاتاہے۔ کیسے کیسے پیارے اچھے اور ستھرے لوگ چلے گئے حالانکہ ان کی ضرورت تھی اور کتنے ہی اب تک زمین کابوجھ ہیں کہ چلے جاتے تو فرق نہ پڑتا۔
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمین کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
عشرت یو خان ضلع نوشہروفیروز ہی نہیں سندھ کی سیاسی تاریخ پر سند تھے۔ حالات ‘ واقعات‘ جزئیات تک حفظ تھیں‘ جتوئی خاندان سے خصوصی رفاقت تھی مگر انکے مخالفین بھی ان کی پیشہ ورانہ اہلیت کو تسلیم کرتے تھے۔ ضلع کے ایک ایم پی اے سے جو وزیر بھی رہے کافی عرصہ قبل نشست ہوئی تو عشرت کے ذکر پر کہنے لگے سائیں ”درویش“ ہے‘ کبھی کوئی کام نہیں لیتا‘ عزت احترام دیتا اور عزت احترام ہی مانگتا ہے۔ یہ وصف بہت کم لوگوں کے حصے میں آتاہے کہ وہ دنیا طلب نہ کریں‘ چند برس قبل انہوں نے سیاسی صفحات پر وسطی سندھ کا احوال رقم کرناشروع کیا تو اسے قارئین ہی نہیں سیاسی حلقوں نے بھی سراہاتھا۔ محتاط انداز میں کسی کی
دل آزاری کئے بغیروہ سب کچھ بیان کرجاتے تھے۔ کئی بار مشورہ دیاکہ یاداشتیں مرتب کرلو‘ ہم جیسوں کومدد ملے گی‘ مسکراتے اور ٹال جاتے۔ غم دوراں غم روزگار کتنوں ہی کو کھا گیا‘ ان میں سے ایک عشرت بھی ہیں‘ ان کے برادر نسبتی عمران بھائی سے پتہ چلا کہ ہیپاٹائٹس اور گردے متاثر ہیں۔ علاج سے کتراتے تھے‘ غالباً دو ماہ قبل کراچی آئے تو مورو کے مشاہیر پرشائع شدہ ڈاکٹر لائق زرداری کی کتاب ساتھ لائے کہنے لگے‘ آپ کے کام کی ہے‘ پھر عمران بھائی سے ہی ان کی علالت کا معلوم ہوا‘ فون پر بات کی تو نقاہت نمایاں لگی‘ لیکن حوصلہ مندی کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ SIUT میں زیر علاج تھے تو بھی رابطہ رہا‘ پھر ان کی وفات کی اطلاع عمران بھائی سے ملی تو لگا کوئی اپنا‘ کوئی پیارا چل بسا ہے‘ ان کا نہ ہونا ہم جیسے طالب علموں کا بڑانقصان ہے کہ ان کی صورت ایک نابغہ رخصت ہوگیا جو سیاسی رشتوں‘ خاندانوں‘ انتخابی اعدادو شمار اورثقافتی وسماجی تاریخ پردسترس رکھتا تھا۔ 26 برس کی رفاقت کا ماحصل یہ چند سطور نہیں ہوسکتیں وہ چھوٹے شہرکا بڑا آدمی تھا۔ کراچی‘ حیدرآباد‘ اسلام آباد میں وقت گزارتا توآسمان صحافت پرمزید جگمگاتا۔
”حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا“