۲۰۱۶ءمیں کیا کھویا، کیا پایا،۲۰۱۷ءکی تیاری
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قوم نے ۲۰۱۶ءمیں کتنے اہداف حاصل کیے کتنے نہ کرسکی اور ۲۰۱۷ءمیں کون سے اہداف حاصل کرنے کا عزم کرنا ہے۔ ہمارا یہ مضمون اسی خیال کے متعلق ہے۔پاکستان دو قومی نظریہ کے تحت وجود میں آیا تھا۔ قائد اعظمؒ نے جو مسلمانان برصغیر کے لیے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کے نعرے سے حاصل کیا اس مقصد کے ساتھ کتنے پر خلوص تھے۔ اسلام سے الرجک لوگ قائد اعظمؒکو سیکولر ثابت کرنے کے لیے جھوٹ کے پہاڑ بھی کھڑے کر دیں۔ مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قائد اعظم ؒ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے۔قائد ؒ کی سوچ کے مطابق کی بنیاد پر اسلام کی شیدائیوں نے پاکستان میں دستوری مہم چلائی۔۱۹۴۰ءکی قرارداد پاکستان کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنایا۔ ۱۹۷۳ءمیں پاکستان کی ساری سیاسی مذہبی جماعتوں کی منظوری سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے اسلامی آئین منظور کیا۔ جس میں مملکت کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔ آئین کے مطابق پاکستان میں رائج تمام قوانیں کو بتدریج اسلامی بنایا جائے گا۔ اس کام کے لیے ایک اسلامی نظریاتی کونسل بھی بنائی گئی جو قوانین کی جانچ پڑتال کر کے پارلیمنٹ کو سفارش کرے گی کہ فلاں فلاں قانون اسلام کے خلاف ہے اسے تبدیل کیا جائے۔ آئین کے مطابق ایک شریعت کورٹ بھی بنائی گئی۔ اس شریعت کورٹ نے بہت پہلے پاکستان میں سود کو حرام قرار دے کر ختم کر کے بغیر سود کے نظام کو رائج کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ مگر نواز شریف حکومت کے پہلے دور میں اس پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جو اب تک موجود ہے۔ضرورت اس امر کی تھی کہ قائد ؒ کی مسلم لیگ جن حضرات کے قبضے میں ہے وہ قائدؒ کے وژن کے مطابق سارے کے سارے قانون اسلام کے مطابق بناتے۔ ملک میں آئین کے مطابق اسلامی نظام حکومت قائم کرتے ۔مگر آئی ایم ایف اور مغربی آقاﺅں کے منشا کی مطابق مسلم لیگی حکمران الٹے چل رہے۔ وہ پاکستان کو سیکولر دیکھنا چاہتے ہیں۔ قائد اعظمؒ نے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ءمیں لاہور میں کہا تھاہم مسلمان ہندو سے علیحدہ قوم ہیں۔ ہماری ثقافت،ہماری تاریخ، ہمارا کھانا پینا، ہمارا معاشرہ،سب کچھ ان سے مختلف ہے۔ جبکہ مسلم لیگی حکمران نواز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان ۲۳ اگست ۲۰۱۱ءکولاہور ہی میں فرماتے ہیںہم مسلمان ہندو ایک قوم ہیںہمارا ایک ہی کلچر، ایک ہی ثقافت ہے ہم کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیںصر ف درمیان میں ایک سرحد کا فرق ہے۔ یہ کچھ ہم نے ۲۰۱۶ءیہ کھویا ہے۔ پاکستان کاچہرا بدنام کرنے والی شرمین چنائے کو وزیر اعظم ہاﺅس میں بلا کر نظریہ پاکستان کی نفی کی گئی۔ سیکولر حضرات جن کو قائدؒ نے شکست دی تھی ان کو حکومت میں شامل کیا گیا۔ جوپاکستان میں افغانیہ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت نواز سیکولرز حضرات کو حکومت کے اہم منصب پر بٹھایا گیا ہے۔ پاکستان کی اساس اور پاکستان کے آئین کے خلاف لکھنے والوں کو۲۰۱۶ءکے سالانہ قومی ایوارڈ کے لیے چنا گیا ہے۔ حسب عادت ۲۰۱۶ءمیں بھی پاکستان کی محافظ فوج کے ساتھ اختلافات جاری رکھے گئے۔فوج کے خلاف ڈان نے خبر نشر کی۔ صرف ایک وزیر سے وزارت اطلاعات واپس لے لی مگر خبر لیک کرنے والوں کو ۲۰۱۶ ءمیں سزا نہیں دی گئی۔۲۰۱۶ءمیں ہمارے ازلی دشمن نے ہماری زمینی،بحری اور بری سرحدوں کی خلاف ورزیاں کیں۔ مگر ہم نے ازلی دشمن کے ساتھ معذرت خواہانہ پالیسی جاری رکھی۔بین لاقوامی طور پر سامنے آنے والی پاناما لیکس کے موقع پر قوم سے تین دفعہ وعدے کے باوجود اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہیں کیا۔مقبوضہ کشمیر میں ۲۰۱۶ءمیں مظفر وانی کی شہادت پر کشمیر میں زبردست تحریک آزادی کشمیر شروع ہوئی۔ جو انشا اللہ ۲۰۱۷ءمیں تکمیل کو پہنچے گی۔ مشہور سماجی کارکن عبدلستارایدھی فوت ہوئے ۔ انہیں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ امجدصابری قوال کودہشت گردوںنے ہلاک کر دیا ۔ پاکستانی فوج کی کمان تبدیل ہوئی۔ ہمیں ۲۰۱۷ءمیں اپنے مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر، لبرل اور روشن خیالوں سے بچا کر پاکستان کے اسلامی آئین کے مطابق تحریک چلا کر تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہےے۔ کیا دینی اور سیاسی جماعتیں جو نظریہ پا کستان پر کامل یقین رکھتی ہیں لیے وقت نہیں آ گیا کہ تحریکِ پاکستان طرزکی ایک بار پھر عوام کی طاقت سے ایک تحریک برپا کریں اور جس طرح سیکولرز، لبرلز اور روشن خیال حضرات کو قائدؒ نے جمہوری طریقے سے شکست دے کر اسلامی پاکستان بناکر دیا ۔ اسلامی پاکستان کو آئین پر عمل کرانے کے ۲۰۱۷ءمیں پروگرام ترتیب دیں ۔ اللہ ہمارے پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔