رسالت اورتشریح شریعت(۳)
حضرت براءن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ،عیدالاضحی کے دن نبی کریم ﷺنے ہمیں خطبہ دیا اورارشادفرمایا: جو ہماری طرح نماز پڑھے اورہماری طرح قربانی دے اس کا یہ عمل ٹھیک ہے۔ اورجو نماز سے پہلے قربانی کردے اسکی قربانی نماز سے پہلے جانور ذبح کرناہے ، اسکی قربانی نہیں ہوئی۔ حضرت ابوبردہ بن دینار ، حضرت براءکے ماموں ، نے عرض کیا : یارسول اللہ (ﷺ)! میںنے نماز سے پہلے بکری ذبح کردی ہے۔ مجھے معلوم تھاکہ یہ دن کھانے پینے کا دن ہے اورمیںنے چاہا کہ میری بکری میرے گھر میں ذبح کی جانے والی پہلی بکری ہو، اس لیے میںنے بکری کو ذبح کردیا اورنماز کیلئے آنے سے پہلے صبح کاکھانا کھالیا۔ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا: تو تمہاری یہ بکری وہ ہے جس کا تم نے گوشت کھالیا ہے اوربس۔(یعنی یہ قربانی نہیں ) انہوںنے عرض کیا: یارسول اللہ (ﷺ)! ہمارے پاس بکر ی کا ایک بچہ ہے جس کی عمر سال سے کم ہے لیکن میرے نزدیک وہ دوبکریوں سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے ۔ کیا میری طرف سے اس کی قربانی کافی ہوگی؟ فرمایا: ہاں ، تمہاری طرف سے کافی ہے لیکن تمہارے بعد ایسی بکری کی قربانی کسی کیلئے جائز نہیں ہوگی۔(صحیح بخاری)حضرت سالم بیان فرماتے ہیں ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے خاندان کے کمزور لوگوں کوپہلے بھیج دیتے تھے اوروہ مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس رات کو وقوف کرتے تھے اورجتنا چاہتے خدا کا ذکر کرتے تھے۔ پھر امام کے وقوف کرنے اورانکے روانہ ہونے سے پہلے لوٹ آتے تھے۔ ان میں سے کچھ نماز فجر کیلئے منیٰ پہنچ جاتے تھے اورکچھ اسکے بعد آتے ۔ وہ جب منیٰ آتے تو جمرے کوکنکریاں مارتے تھے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: ان (ضعیفوں )کو حضور اکرم ﷺنے ایسا کرنے کی رخصت عطافرمائی ہے۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ایک آدمی حضور اکرم ﷺکی خدمت عالیہ میں حاضر ہوااورعرض کی: یارسول اللہ (ﷺ)! مجھ سے روزہ توڑنے کا قصور سرزد ہوگیا ہے۔آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس اتنا مال ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے عرض کیا: نہیں ۔ آپ نے پوچھا : کیا دوماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا : نہیں ۔ آپ نے پوچھا : کیا ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلاسکتے ہو؟ اس نے عرض کیا : نہیں ۔ پھرحضور اکرم ﷺکی خدمت میں ایک ٹوکرایعنی زنبیل پیش کی گئی جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ نے اس سے فرمایا: اپنی طرف سے (روزہ توڑنے کے کفارہ کے طورپر)یہ کھجوریں لوگوں کو کھلادو۔اس نے عرض کیا: یارسول اللہ (ﷺ)!کیا ان لوگوں کو یہ کھجوریں کھلاﺅں جو ہم سے زیادہ حاجت مندہیں جب کہ اس شہر کی دونوں اطراف کے درمیان کوئی کنبہ ہم سے زیادہ حاجت مندنہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: پھر تم یہ کھجوریں اپنے ہی اہل خانہ کو کھلادو (تمہاراکفارا اداہوجائے گا)۔(صحیح بخاری)