بھارت میں صف ماتم برپا ہے پاکستا ن کو دہشت گردی کا معاون قرار دینے والی بھارتی قرارداد کا بظاہر ہدف مو لانا مسعوداظہر تھے چین نے اپنے تما م معا شی اور اقتصادی مفادات داﺅ پر لگا کر اسے ویٹو کر دیا تو پاکستان کے ایوان با لا (سینٹ) کی انسانی حقوق کمیٹی کے اجلا س میں بھی اس بھارتی شکست پر بھرپور ما تم کیاگیا۔2جنو ری، سوموار 2017کے اس اجلاس کا ہمارے ذرائع ابلاغ نے مکمل بلیک آﺅٹ کیا۔
صرف وائس آف امریکہ نے اجلاس کی خبر کو نمایاں کرکے شائع کیا۔ بھارت اقوام متحد میں ناکام و نامراد ہو گیا جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کیخلاف بھارتی قرارداد چین نے ویٹو کرکے پاکستا ن کو بے بنیاد اور لغو الزامات لگا کر دیوار سے لگانے کی سازش ناکام بنادی۔ چانکیہ کی اولاد، بھارتی خارجہ امور کے ماہر ین نے 9ماہ قبل مولانا مسعوداظہر کو دہشت گرد شخصیت قرار دلانے کیلئے قرارداد اقوام متحدہ میں جمع کرائی تھی جس پر چین نے بھارتی درخواست کے ساتھ جمع کرائی جانیوالی دستاویزات اور دیگر ثبوتوں کی جانچ پڑتال کیلئے دومرتبہ رائے شماری کو مو¿خر کردیا تھا۔ اگر مولانا مسعوداظہر کیخلاف بھارتی قرارداد منظور ہو جاتی تو پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام ثابت کرنا بہت آسان ہو جاتا۔ مولانا مسعوداظہر کے بیرون ملک سفر پر پاپندی عائد ہو جاتی اور تما م اثاثے ضبط ہو جاتے۔
بھارت مولانا مسعوداظہر کی جیش محمد پر پٹھان کوٹ فوجی ہوائی اڈے پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کر چکا ہے بھارتی دباﺅ پر پٹھان کوٹ حملے کی ایف آئی آر گوجرانوالہ سبزی منڈی کے تھانے میں درج ہوچکی ہے پاکستانی تحقیقاتی اور تفتیشی ادارے مولانا مسعوداظہر سے پوچھ گچھ کرکے انہیں بے گناہ قرار دے چکے ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کا سفید بالوں والا، گرگ ِ باراں دیدہ ترجمان (Vikas Swarup) وکاس سوروپ سر پیٹ رہا ہے کہ ہم نے تو سلامتی کونسل کے تمام ارکان کو اعتماد میں لینے کے بعد یہ قرارداد جمع کرائی تھی ہمیں تمام ارکان نے مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی پھر اچانک یہ کیا ہوگیا؟ وکاس سوروپ نے تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھ کر چین پردہشت گردی کےخلاف جنگ میں دہرا معیار اپنانے اور منافقت کرنے کا الزام لگایا ہے۔
گزشتہ برس اپریل اور اکتوبر 2016 میں بھارتی قرارداد کو چین نے تکنیکی بنیادوں پر موخر کرایا تھا جس کے بعد گزشتہ مہینے 15رکنی سلامتی کونسل میں پاکستان کیخلاف اس قرارداد کو چین نے ویٹو کردیا۔
ماضی قریب میں ہزار سالہ چینی دانش کی حامل موجودہ قیادت نے واضح کیا تھا کہ دہشتگردی کی مخالفت کی آڑ مےں مودی سرکار جنوبی ایشیاءمیں اپنے مکروہ سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے اس لیے بھارتی موقف اور پیش کردہ دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد ہی اس میں بارے میں حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی حمایت میں چینی قیادت نے اپنی معاشی مفادات کو داﺅ پر لگا دیا ہے گزشتہ برسوں میں بھارت چین سالانہ باہمی تجارت 80ارب ڈالرکو عبور کر چکی تھی۔ جی ہاں 80ارب ڈالر سالانہ تجارت‘ جو 2001 میں صرف 2ارب ڈالر تھی۔
اس وقت بھارت چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت کار ہے۔ 600 بڑے چینی صنعت کار گزشتہ برس دسمبر میں ممبئی کا دورہ کر چکے ہیں لیکن پاکستان کی علاقائی سیاست اور قومی مفادات کے لیے چینی قیادت نے بھارت سے نفع بخش تجا رت کو داﺅ پر لگا دیا ہے جبکہ پاکستان کے ایوان بالا میں پاکستان کیخلاف قرارداد کر ویٹو کر نے پر چین کی مخالفت کی جا رہی ہے، جی ہاں۔۔ ایوان بالا (سینٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ارکان سینیٹر شدید ناراضگی کے عالم میں پوچھ رہے ہیں مولانا مسعوداظہر کےخلاف بھارت کی قرارداد کی مخالفت چین نے کیوںکی؟
ایم کیو ایم پاکستان کی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ہم حکومت سے کہیں گے اگر چین کی حکومت پر دباﺅ ڈال کر مولانا مسعوداظہر کیخلا ف قراردادکو ویٹو کرایا گیا ہے تو حکومت پاکستا ن کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ایوان بالا کے گزشتہ سوموار 2جنوری 2017 کو انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس میں بھارتی قرارداد کو ویٹو کرنے پر "شدید تحفظات" کا اظہار کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہ نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیاکہ اجلاس میں جیش محمدکے متعلق بھارتی قرارداد کو ویٹو کرنے پر بات ہوئی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت سے کہا جائیگا کہ اگر چین کی حکومت پر زور ڈال کر یہ قرارداد ویٹو کرائی گئی ہے تو حکومت پاکستان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہ کہ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے اپنی پالیسی کی سمت درست کرنا چاہیے۔ سفارتی سطح پر پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارتی قرارداد کو سیاسی حربہ قراردیا ہے اگر پاکستان کے ایوان بالا میں ایسے ارکان موجود ہیں جو بھارتی موقف اور ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں تو پاکستان کا اللہ حافظ ہوگا۔
محترمہ نسرین جلیل کا نام آتے ہیں یہ کالم نگار ماضی کے دھندلکوںمیں بہت دور نکل گیا اسے اپنا مہربان دوست میجر سلطان سکندر مرحوم یاد آیا جس کا روشن چہرہ نہاں خانہ ِدل سے نکل کر پردہ سکرین پر آگیا بے تکلف دوست انہیں پیارے بحری قزاق کہا کرتے تھے سلطان سکندر ضیاءمارشل لاءمیں گورنر پنجاب سوار خان کے قریبی عزیز ہونے کی وجہ سے کراچی بندرگاہ کے بادشاہ تھے محترمہ نسرین جلیل سے اس کالم نگار کی برسوں پہلے چند ملاقاتیں سلطان سکندر کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ چوتھائی صدی قبل نسرین جلیل شعلہ جوالا ہوتی تھیں جس محفل میں جاتیں سارے چراغ گل کر دیتیںاور سب کی شمعیں بجھا دیا کرتی تھیں۔ آج ایم کیو ایم کی چوٹی کی راہنما سینٹر نسرین جلیل ایوان بالا میں بیٹھ کر بھارت کی وکالت کر رہی ہیں تو بے طرح سلطان سکندر یاد آگئے جنہیں پراسرار حالات میں انکی رہائش گاہ پر قتل کر دیا گیا تھا وہ ہوتے تو نسرین جلیل کے یہ حوصلے ہوتے گم سم سوچتا رہاکہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیاکیا سے کیا ہوچکی ہے؟
حرف آخر وہی پرانا رونا دھونا کہ اس اہم ترین واقعہ پر سرشام جادوئی سکرین پر عقل ودانش کے دریا بہانے والے کسی چھاتہ بردار کو نسرین جلیل سے گفتگو کی توفیق کیوں نہ ہوئی؟ موضوع بھی مقامی نہیں، بین الاقوامی تھا لیکن پاکستان کی فتح یہاں کسی کو گوارا نہیں۔
پاکستان کے اعصابی مراکز کو نادیدہ ہاتھوںنے جکڑ رکھا ہے اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ نادیدہ ہاتھ ہمارے نیوز روموں تک بھی پہنچ چکے ہیں سینٹ انسانی حقوق کی کمیٹی کے اہم اجلاس کے بارے میں 3جنوری 2017کے تمام بڑے اخبارات میں ایک لفظ بھی شائع نہیں ہوا۔ اللہ بھلا کر میرے محققین کا جو اس کالم نگار کی رضاکارانہ راہنمائی کرکے کالم کیلئے موضوعات اور مواد فراہم کرتے ہیں۔ اگر پاکستان کی مقدس پارلیمان کے اعلی وبالا ایوانوں میں بھارتی گھس بیٹھےے، پہنچ چکے ہیں جو پاکستان ہی نہیں ہمارے وفادار دوست، چین پر بھی چیں بجبیں ہورہے ہیں کہ بھارت کی قرارداد ویٹو کرکے عالمی سطح پر پاکستان کو رسوائی سے کیوں بچایا گیا۔ ہے کوئی جو اس لاوارث پاکستان کا وارث بنے اور پارلیمان کے بلندوبالا ایوانوں میں بیٹھے پاکستان کے دشمنوں کا راستہ روکے؟ ہے کوئی ۔۔۔؟
نی سسیئے بے خبرے تیرا لٹیا شہر بھنبھور
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024