حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد شدت پسندوں کا مورال کم ہوا ہے، غیر جانبدار حلقے
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستانی شدت پسندوں کے امور سے سے آگاہ غیر جانبدار حلقوں نے بتایا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملہ میں ہلاکت کے بعد شدت پسندوں کا مورال کم ہوا ہے۔ حکومت کے نکتہ نظر سے اگرچہ یہ ایک مثبت علامت ہو سکتی ہے لیکن مذاکرات کو پہنچنے والے دھچکہ نے اس افادیت کو کم کر دیا ہے۔ شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان ممکنہ مذاکرات کی تازہ ترین صورتحال کے حوالہ سے نوائے وقت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مذکورہ ذریعہ نے بتایا کہ صورتحال جوں کی توں ہے اور حالات میں کوئی جوہری تبدیلی رونماء نہیں ہوئی۔ البتہ اس صورتحال کا تجزیہ کرتے وقت دو بنیادی حقائق ضرور مدنظر رکھے جائیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد شدت پسندوں کے حوصلے اور مورال کافی کم ہوا ہے۔ بیت اللہ کی مانند حکیم ا للہ کا بھی تنظیم میں ایک دبدبہ تھا یہ دبدبہ نئی قیادت کو نصیب نہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ بعض گروپوں کی مخالفت کے باوجود مجموعی طور پر شدت پسند اب بھی حکومت کے ساتھ بات چیت کے حامی ہیں اور حکیم ا للہ محسود نے ہلاکت سے پہلے حکومتی پیشکش کے جواب میں جو تحریری جواب بھجوایا تھا ،غیر رسمی طور پر اس سلسلہ میں مزید پیشرفت ہوئی ہے۔ تاہم اس ساری صورتحال میں مولانا سمیع الحق سمیت دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا کوئی کردار نہیں۔ اس ذریعہ کے مطابق تنظیم کی قیادت میں صرف دو بنیادی تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیں۔ حکیم ا للہ کی جگہ فضل اللہ اور معاون کے طور پر خالد شیخ کو مقرر کیا گیا ہے۔ شوریٰ وہی پہلے والی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام متقدر حلقے شدت پسندوں کے کم مورال سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے خاتمہ کیلئے متفقہ حکمت عملی وضع کر لی جائے۔