آجکل ہمارے ملک کے اندر دانشوری کا ایک جمعہ بازار لگا ہے....
کوئی چینل کھول لیجئے۔ کوئی اخبار اٹھا لیجئے۔ صرف مباحثہ اور مذاکرہ نظر آئے گا....
ماشاءاللہ ہم لوگ ویسے بھی بحث و مباحثے میں کافی طاق ہو چکے ہیں۔ فضا کے اندر باتوں کا ایک غل چھایا ہوا ہے جن کو کبھی کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ آجکل ان کی بھی بات بن گئی ہے....
یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر آدمی ہر فیلڈ کی بات نہیں کر سکتا.... ہر شخص تجزیہ نگار نہیں ہوتا.... ہر شخص ماہر قانون و نکتہ دان نہیں ہوتا....
ہاں بولنے اور کہنے والوں کا تعلق کس گروپ سے ہے۔ یا وفاداریاں کس کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں صاف پتہ چل جاتا ہے.... کون کس کی زبان بول رہا ہے.... کس کے قلم سے کس کے خیالات ٹپک رہے ہیں.... اب یہ سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے....
شاید اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔
مگر کچھ لوگ تو جمہوریت کے خلاف بھی بول رہے ہیں۔ بڑی مشکل سے عوام نے اپنے لئے یہی راہ منتخب کی تھی۔
گزشتہ حکومت کے پانچ سال ہر طبقے کے لئے کافی تکلیف دہ تھے۔ مگر کوئی بھی نہیں کہہ رہا تھا کہ اس حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ خود حکومت نے اپنی ناقص کارکردگی سے اگلی ٹرم کیلئے اپنا سیاسی خاتمہ کر دیا۔ اس لحاظ سے ووٹ کی طاقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
انتخابات کے دوران بہت ہی عالیشان اور خوابوں سے لبریز منشور چھاپے جاتے ہیں۔ مگر ہم نے بعض حکومتوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی دیکھا ہے.... کہ اندر آتے ہی.... منشور قصہ¿ پارینہ بن جاتا ہے۔ اور نظریہ¿ ضرورت کے تحت کام شروع ہو جاتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے جب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تھا۔ تو بعض مخلص لوگوں نے پارلیمنٹ کے اندر اسکی مخالفت کی تھی۔ اور ایسے فلاحی منصوبے شروع کرنے کی صلاح دی تھی جو قوم کو بھکاری مفت خورے یا کاہل نہ بنائیں۔ بلکہ ہاتھ پاﺅں ہلانے کی ترغیب دیں مگر پیپلز پارٹی کا ہر رکن قومی اسمبلی کا ہو یا صوبائی اسمبلی کا اس یقین کے ساتھ گر دن پھلائے پھرتا تھا کہ اس سکیم سے پاکستان کے ہر خاندان کے اندر ان کے دس بارہ ووٹ ہوں گے۔ 11 مئی کو اتنے زیادہ خاندان ووٹ دینے کے لئے باہر کیوں نہیں نکلے....“
کیا خلقت کی سائیکی کو کسی نے سمجھا ہے۔ بندہ تو رب کی مہربانیاں پل بھر میں بھول جاتا ہے اور گلے شکوے کرنے لگتا ہے۔ جو چیز بغیر محنت کے مل جائے اسکی کسی کو قدر نہیں ہوتی۔ موجودہ حکومت نے بھی آتے ہی ایسی سکیموں کا اجرا کیا ہے.... کل ان کا انجام کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن پاکستان کی ایک خاموش اکثریت کو بنیادی ضرورتوں میں خودکفیل کرنا ہی سب سے بڑا کام ہے....
آجکل شدید سردی، کہرے اور برفانی موسم میں جب علی الصبح کسی گھر میں گیس نہیں آتی۔ تو وہ کیا کریں۔ جو حکومت اپنی رعایا کو صبح کا ناشتہ کرنے کی سہولت بھی نہیں دے سکتی۔ تو پھر اس کا اتنی بڑی بڑی سکیموں کا دعویٰ کرنا بے معنی ہے۔ پاکستان کے ہر شہر کے ہر گھر میں بچے صبح کو تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں۔ مرد اپنے اپنے کام پر جاتے ہیں۔ گھر کا چولہا نہیں جلے گا۔ تو یہ لوگ کس طرح جائیں گے۔ اور ہر آدمی اتنا امیر نہیں ہوتا کہ جا کر بازار میں ناشتہ کرے اور روزانہ بچوں کے لئے بازار سے ناشتہ لے آئے۔ اتنے بڑے بڑے قرضے دینے کی کیا ضرورت ہے کہ آپ ہنستے بستے لوگوں کو کھانے پینے سے ہی محروم کر دیں۔ ہر گھنٹے کے بعد بجلی چلی جاتی ہے۔ پانی بند ہو جاتا ہے.... اگر خزانے میں پیسہ تھا۔ تو ٹیکس دینے والی رعیت کو گھروں کے اندر سہولتیں کیوں نہیں بہم پہنچائی گئیں.... ایک خاموش طبقہ بھی اب تو چلّا اٹھا ہے.... نئی نسل کو آپ قرضے دیں۔ اور پرانی نسل سے جینے کا حق چھینتے جائیں۔
سب منصوبے اپنی جگہ اہم سہی مگر عوام کو سہولیات زندگی پہنچانا اولین فریضہ ہے.... پھر دبے لفظوں میں لوگ پرویز مشرف کے دور کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ یہی ملک تھا، یہی بجلی تھی، یہی گیس تھی، یہی ڈالر تھا، یہی معیشت تھی۔ اس کا جو بھی جرم ہے وہ ثابت ہو گا اور وہ بھگتے گا۔ مگر دانشوروں سے یہ تو پوچھو کہ زندگی کی بعض سہولتوں کو وہ تالا لگا گیا ہے کیا؟
یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بندہ دنیا میں بھی سب بھگت لیتا ہے۔ اور دنیا میں بھی اجر ملتا ہے.... لیکن فقط ایک نیکی جو کبھی خلقت کے ساتھ کی گئی ہو خلقت اسے فراموش نہیں کرتی....
کچھ معتبر لوگ ٹیلی ویژن پر آ کر پرویز مشرف کے دور کی کار گزاریوں کی بات کرنے لگے ہیں بعض محفلوں میں ہم نے اکثر خواتین و حضرات کو آج کے دور کا مشرف دور کے ساتھ تقابل کرتے سنا ہے۔ تعلیمی اداروں میں خاص طور پر کہا گیا کہ مشرف نے اس میں بہت پیشرفت کی تھی۔ بہت سے حقائق اب کہنے کی لوگوں کو جرا¿ت ہو رہی ہے.... حکومت اپنے منہ کا ذائقہ خراب کرنے کی بجائے.... ریسرچ کرے کہ مشرف نے معیشت کو کس طرح اپنے قدموں پر کھڑا کیا تھا.... دشمن سے نفرت تو ہر کوئی کرتا ہے۔ مگر دشمن سے سیکھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں نفرت اور محبت کرنے والوں کے لئے درمیانہ راستہ ہی نہیں۔ یا تو بانس پر چڑھا دیتے ہیں۔ یا پھر تحت الثریٰ میں پھینک دیتے ہیں....
وہاں ہسپتال کے صاف ستھرے بستر پر لیٹا ہوا۔ پرویز مشرف اکثر سوچتا تو ہو گا
مانتا تھا سب کی تو یہ سب میرے ہمراہ تھے
اپنے دل کی مان کر میں کسقدر تنہا ہوا
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024