بلدیاتی انتخابات کی آمد آمد ہے اور امید ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 2014 کے شروع میں ہو جائیں گے۔ اگرچہ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں جملہ انتظامات خاصے دشوار ہیں اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ الیکشن ہوں تاکہ گلیوں‘ محلوں اورقصبوں سے منتخب ہونے والے افراد حکومت کا حصہ بن سکیں۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم دنیا کے کم و بیش سبھی جمہوری ملکوں میں رائج ہے۔ اس کا مقصد ہی عوام کو شریک اقتدار کرنا اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا ہے۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کا نقطہ نظر بھی یہ ہے کہ عوام کے زیادہ سے زیادہ نمائندوں کو حکومتی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ بلدیاتی انتخابات کے بارے میں اگرچہ یہ شکوک و شبہات موجود ہیں کہ کیا وقت پر ہوسکیںگے یا نہیں؟ تاہم اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہرحال ہوں گے ضرور۔ حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں کی ذمہ دار ہے کہ وہ ان الیکشن کے لئے شفاف اور مکمل انتظامات کریں اور تاکہ اس ضمن میں کسی طرف سے انگشت نمائی نہ ہو۔ اگلے بلدیاتی انتخابات کے لئے جہاں یونین کونسلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہاں کونسلر کی سطح پر ہر طبقے کو نمائندگی بھی دی گئی ہے۔ اس طرح عوام اپنی حکومتوں کو اپنے زیادہ قریب محسوس کر سکیں گے۔ ہر یونین کونسل جو کم و بیش 13 ارکان پر مشتمل ہو گی اس میں 6 کونسلر تو عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوں گے جنہیں جنرل کونسلر کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح چیئرمین اور وائس چیئرمین کو بھی اس یونین کونسل کے ووٹرز ہی منتخب کریں گے۔ بقیہ پانچ مخصوص نشستیں ‘ خاتون‘ لیبر نمائندہ‘ نوجوان اور اقلیتی ارکان پر مشتمل ہوں گی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معاشرے کے ہر طبقے کا نمائندہ یونین کونسل میں موجود ہو گا اور وہ اپنے طبقے کی نمائندگی کر سکے گا۔ پہلی بار نوجوان کو بھی یونین کونسل کی سطح پر نمائندگی دی گئی ہے جو ایک اچھی روایت ہے کی ابتداء ہے۔ (محمد لطیف رانا)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024