یہ سونامی کا زمانہ ہے۔ شاعروں میں ناصر بشیر سونامی کی زد میں ہیں۔ روز ایک بڑے ٹھسے کی غزل لکھ کر لاتے ہیں۔ انہوں نے مجھے ایس ایم ایس کے ذریعے ایک شعر بھجوایا ہے؟…؎
سچ کہوں؟ خون تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
اے نئے سال ترے پاس نیا کچھ بھی نہیں
مجھے ان سے بصد احترام اختلاف ہے۔ مجھے نئے برس سے بڑی امیدیں ہیں۔ میں قنوطی نہیں رجائی ہوں۔ دیکھئے 2013ء کے آخری دنوں میں مولانا طاہرالقادری نے کیسا شاندار دھماکہ کیا ہے۔ شاید آپ کو دھماکے کے ساتھ لفظ شاندار کچھ عجیب سا لگے۔ لیکن سرکار یہاں یہی لفظ استعمال کرنے کا ہے۔ انہوں نے کہا ہے لیکن ذرا ٹھہریے، میں ان کا ذرا تھوڑا سا تعارف کروا دوں۔ یہ وہی حضرت مولانا طاہرالقادری ہیں جنہوں نے ہمارے آئین کی دفعہ 62, 63 کا کھوج لگایا تھا۔ پھر 62, 63کی دفعات نے کیا کیا گل کھلائے۔ نمازجنازہ سنائیے؟ پہلا کلمہ اور تیسرا کلمہ؟ سورہ فاتحہ؟ کیا اچھی بات یاد آ گئی۔ ہمارے ایک بزرگ ہیں بڑے بہادر، اللہ کی رضا پر راضی، صابر سے آدمی، ہر سال میں خوش بھی اور قانع بھی۔ ایک زندہ آدمی جسے دیکھ کر زندہ رہنے کی امنگ جاگتی ہے۔
کسی کی بزم طرب میں حیات بنتی تھی
امیدواروں میں کل موت بھی نظر آئی
انہوں نے جوانی کے بعد نماز سیکھی اور قرآن پڑھا۔ فرمانے لگے پاکپتن شریف عرس پر حاضر تھا۔ نماز کا وقت ہوا، قریبی مسجد میں نماز کے لئے چلا گیا۔ سبھی نمازی مجھے باریش دیکھ کر امامت کی دعوت دینے لگے۔ میں بولا میں گناہگار اور سیاہ کار ہوں لیکن وہ بضد رہے۔ میں آگے بڑھا، تکبیر کے بعد اللہ اکثر کہہ کر بار امامت اٹھا لیا۔ اب سورہ فاتحہ کی قرات کا مرحلہ آیا۔ انہوں نے بڑی سنجیدگی سے بتایا میں نے آیات پوری تلاوت کیں کیونکہ وہ میں نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں پر گن لی تھیں۔ پوری سات، لیکن ان آیات کے آگے پیچھے ہونے کے بارے میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سلام پھیرنے کی دیر تھی کہ نماز لاحول پڑھنے لگے۔ ایک صاحب نے جھٹ سے فتویٰ دیا کہ سورہ فاتحہ غلط پڑھی گئی۔ سو نماز نہیں ہوئی۔ میں بولا تم سب بھاڑ میں جائو اور نماز دوبارہ پڑھ لو۔ میری نماز ہو گئی ہے۔ میں چلا۔ یہاں انہوں نے سب بھاڑ میں جائو نہیں فرمایا تھا، ان کی سلیس پنجابی ناگفتنی ہے۔ بس آپ اسی اردو ترجمے پر گزارہ کریں۔ میرا ایمان ہے کہ ان کی نماز ضرور قبول ہو گئی ہو گی۔ ایمان کی ساری رنگت سادگی اور معصومیت میں ہے۔ اب عیاری اور مکاری کے مناظر دیکھیں۔ ان دنوں ٹی وی سکرین پر کیا کچھ نظر نہیں آیا تھا۔ جج صاحب پوچھ رہے ہیں۔ سورہ فاتحہ سنائیں؟ سورہ اخلاص سنائی جا رہی ہے۔ سوال ہے دوسرا کلمہ؟ جواب ہے ہمیں پہلا کلمہ ہی کافی ہے۔ باسٹھ تریسٹھ کی کھرپی لے کر کچھ نہیں نکال باہر کیا۔ اب مولانا طاہرالقادری 2013ء کے آخری دنوں میں قوم کو ایک اور بھولی بسری بات یاد کروانے آ گئے ہیں۔ ہم تو بھول ہی گئی تھے کہ یہ بھی ہمارا کوئی مسئلہ ہے۔ میں نے بار بار لکھا ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے جاگیرداری اور ملکیت کا مسئلہ چھیڑا تک نہیں۔ پورے الیکشن میں اس کا ذکر سننے میں نہیں آیا۔ یار لوگ سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ مسئلہ حل ہو گیا۔ جناب عابد منٹو ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، اسے سپریم کورٹ لے جا چکے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے، وہاں سے ابھی اصغر خان کو کیا ملا ہے جو یہ جھولی بھر لائیں گے۔اب جناب حضرت مولانا طاہرالقادری فرما رہے ہیں کہ زمین کی حد ملکیت مقرر کی جائے بس پچاس ایکڑ فی خاندان۔ کیا نعرہ مستانہ ہے کہ اس نے اونچی حویلیوں میں ایک بھونچال سا پیدا کر دیا ہے۔ کراچی بلاول ہائوس جانے والے راستے بند تھے کہ ہمارے قائدین کو حفاظت کی کچھ زیادہ ہی ضرورت ہے۔ وہاں جیالوں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں جھگڑا ہو گیا۔ لڑائی مار کٹائی، سر پھٹول۔ بہادر ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی اپنے کارکنوں کے ساتھ اگلے مورچوں پر تھے۔ وہ بھی جیالوں کے تشدد کا شکار ہوئے۔ اس موقع پر عمران خان کا بیان اخبارات میں شائع ہوا۔ ’’شہر قائد میں پرامن مظاہرین پر جاگیردارانہ ذہنیت والوں کے تشدد سے دھچکا لگا۔‘‘ ہم اپنے قائد عمران خان کے منہ سے جاگیردارانہ ذہنیت کا لفظ سن کر خوشی سے پاگل ہو گئے ہیں۔ تبدیلی لانے والے عمران خان یہ لفظ ہی بھول گئے تھے۔ پھر ایک بات اور بھی تو ہے کہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ لفظ جاگیردارانہ ذہنیت کچھ زیادہ ہی ’’مجا دیوے‘‘ ہے۔ چلو بات چل نکلی ہے اب کہیں نہ کہیں ضرور پہنچے گی۔ نئے سال کے ساتھ حالات اور ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ہر طرف جاگیرداری کا شکر چھڑ گیا ہے۔ زندگی کا ایک حصہ بھٹو فیملی کے ساتھ گزارنے والے اور ان دنوں میاں نواز شریف کے چھپر سائے تلے دن کاٹنے والے ادیب اور کالم نگار راجہ انور نے انکشاف کیا ہے کہ ’’محترمہ بینظیر بھٹو کسی جاگیردار سے شادی کے حق میں نہیں تھیں۔‘‘ شاید اس لئے کہ جاگیردار سیاست میں بھی من مانی کرتا ہے اور ازدواجی زندگی میں بھی۔ اب اسے کیا کہا جائے کہ اس نے ایک مڈل کلاسئے سے شادی کی لیکن وہ بھی جاگیردار بن بیٹھا۔ ہندوستان سے کالم نگار افتخار گیلانی لکھتے ہیں ’’ہم دعا گو ہیں کہ اردند کجری وال جو ایک مسیحا بن کر آئے ہیں کامیابی سے ہمکنار ہوں اور ایک ایسے انقلاب کی داغ بیل ڈالیں جو خاندانی سیاست اور جاگیرداری سے مبرا ہو۔‘‘ جاگیرداری اور خاندانی سیاست واہگہ کے دونوں اطراف پاکستان میں بھی ہندوستان میں بھی یہی شور۔ اب ہم ناصر بشیر کی بات کیسے مان لیں… ’اے نئے سال ترے پاس نیا کچھ بھی نہیں‘۔ الطاف حسین نے ٹھیک کہا ہے کہ 2014ء میک یا بریک کا سال ہے۔ یعنی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن اب ہماری چال ڈھال سے لگتا ہے جیسے اب ہم درست سمت چل پڑے ہوں۔ یہ سچ ہے کہ مولانا طاہر القادری نے پچاس ایکڑ فی خاندان حد ملکیت مقرر کر کے ایک راستے کا تعین کر دیا ہے۔ یہ راستہ امن، سلامتی، خوشحالی اور معاشی انصاف کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمیں برسوں پہلے مرزا غالب کا کہنا زیادہ حسب حال لگتا ہے کہ ’اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔‘ اب دیکھئے عشاق بتوں سے کیا فیض پاتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024