قاضی حسین احمد ……ایک شجرِ سایہ دار
محمد اکرم چوہدری
قاضی حسین احمد۔۔۔صاف، شفاف اور پاکیزہ سیاست کے علمبردار تھے۔ وہ ساری زندگی مسلمانوں اور عالم اسلام کی یکجہتی اور وحدت کیلئے سرگرم عمل رہے۔ وہ اسلامی تحریکوں کے لئے راہبراور قائد کا درجہ رکھتے تھے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں انہیں انتہائی عقیدت و احترام حاصل تھا۔عمر کے آخری حصہ میں بھی انہوں نے بیماری اور پیرانہ سالی کے باوجود اللہ اور اس کے سچے رسول ؐ کے روشن دین کی شمع جلائے رکھی۔پاکستان ، عالم اسلام اور دنیا بھر کے اچھے انسانوں کے لئے ان کی قابل قدر اور قابل رشک خدمات مشعل راہ ہیں ۔ہم ان پر عمل پیرا ہوکر دنیا کو امن و امان کا گہواہ بناسکتے ہیں۔
قاضی حسین احمد 1938ء میں خیبرپختونخواہ کے ضلع نوشہرہ کے گائوں زیادت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔وہ اپنے10بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد مولانا قاضی محمد عبدالرب سے حاصل کی۔پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغازدرس و تدریس سے کیا ، سیدوشریف کے ایک کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے چند برس تک طلبا کو پڑھاتے رہے۔اس کے بعد ملازمت چھوڑ کر پشاور میں ذاتی کاروبار شروع کیا۔تھوڑے عرصے میں ان کی شہرت صادق و امین تاجر کے طور پر شہر بھر میں پھیل گئی۔یوں وہ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
کالج میں تعلیم کے دوران ہی وہ اسلامی جمعیت طلباء سے وابستہ ہوگئے ۔قاضی حسین احمد1970میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔8برس بعد 1978ء میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل بنے اور پھر1987ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب کرلئے گئے۔ان کااعزاز ہے کہ وہ چار مرتبہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے ۔ان کی بہادری اور دلیری کی وجہ سے لوگوں میں’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ کا نعرہ بے حد مقبول ہوا، جو آج بھی ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کے اسی نعرہ نے جماعت اسلامی کو ایک عوامی سیاسی جماعت کے طور پر مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ صرف ایک نعرہ ہی نہیں تھا بلکہ جماعت اسلامی کی سوچ اور فکر میں آنے والی ایک تبدیلی بھی تھی۔قاضی حسین احمد نے اس دور میں ’’قبضہ مافیا‘‘ کیخلاف تحریک شروع کی ۔وہ تھانوں میں مظلوموں کی مدد کیلئے پہنچ جاتے اور ظالمو ںکے خلاف مورچہ زن ہوجاتے۔ قاضی حسین احمد کی حق اور سچ کی اس بے باک پالیسی نے جماعت اسلامی کو قومی دہارے کی ایک اہم سیاسی جماعت بنادیا۔ایک ایسی جماعت جس پر ایک خاص نظریے کی چھاپ تھی انہوں نے اس جماعت کے چہرے سے یہ لیبل اُتار کر اسے تبدیلی کی علامت بنادیا۔قاضی حسین احمد کے اس انقلابی کردار کو خود جماعت اسلامی کے اندر بھی بے حد سراہا گیا جس کے نتیجے میں انہیں جماعت اسلامی کی دوبارہ امارت سونپ دی گئی۔قاضی حسین احمد کا ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی تخلیق میں بھی بنیادی اور کلیدی کردار تھا۔ یہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ایک ایسا اتحاد تھا جس نے ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں اور اتحادوں پر لرزا طاری کردیا۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت خیبرپختونخواہ میں ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘نے صوبائی حکومت بنائی اور قومی اسمبلی میں قابل ذکر نشستیں حاصل کیں۔اگرچہ بعض وجوہات کی بناپر ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے اتحاد سے توقعات پوری نہ ہوسکیں ۔کئی مسائل کی وجہ سے ان کی حکومت کوئی قابل ذکر کام نہ کرسکی جس کے ذمہ دار ان کے اتحادی مولانا فضل الرحمن کو قرار دیا جاتا ہے جو ہر عہد اور ہر دور میںاپنے جثہ سے زیادہ حصہ پانے کے عادی ہیں۔
قاضی حسین احمد1985ء میں سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔اسی طرح1992ء میں بھی انہیں دوبارہ سینیٹر منتخب کرلیا گیا۔2002ء کے قومی الیکشن میں وہ 2حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔مسلمانوں کیخلاف ہنود اوریہود کے مذموم ہتھکنڈوں کیخلاف وہ ہمیشہ حالت جنگ میں رہتے تھے۔ان کیخلاف بھرپور احتجاج کرتے جس کی پاداش میں انہیں کئی بار گرفتار کیا گیا۔ وہ حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کیخلاف بھی سراپا احتجاج رہتے۔انہیں شاعر مشرق کا کلام ازبر تھا۔اپنی تقاریر میں اقبال کے شعروں کا حوالہ دیتے ۔انہوں نے جماعت اسلامی کی روائتی سیاست کو نیا انداز اور نیا ڈھنگ دیا۔مذہبی یگانگت کیلئے بھی ان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔وہ مذہبی جماعتوں کیساتھ تعلقات مسلک کی سیاست سے ہٹ کر آگے لیکر گئے۔قاضی حسین احمد انتہائی ایماندار اور ہر قسم کی منافقت سے پاک ایک شاندار شخصیت تھے۔ راقم کی ان سے کئی ملاقاتیں رہی وہ پاکستانیوں اور سیاسی کارکنوں کیلئے ایک شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی رحلت کے بعد جماعت اسلامی میں پہلی جیسی آن ،بان اور شان نہیں رہی ۔ایک بار پھر وہ اپنی پہلی ڈگر پرچل نکلی ہے جوان کے امیر منتخب ہونے سے قبل تھی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکن قاضی حسین احمد کی برسی پر ان کے فلسفہ سیاست کو ایک بار پھر آگے بڑھانے کا عہد کریں تاکہ جماعت اسلامی ملکی سیاست میں فعال کردار اداکرسکے۔