جی ایس پی + روزگار اور زرمبادلہ میں اضافے کا ذریعہ
عبدالقدوس فائق
پاکستان کی طویل جدوجہد رنگ لائی اور یورپی یونین نے کثرت رائے سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دے دیا ہے۔ اس سے قبل یورپی یونین نے یہ درجہ بنگلہ دیش اوردیگر پسماندہ افریقی ممالک کو دے رکھا تھا۔ پاکستان نے جب یورپی یونین سے افغان جنگ میں اتحادی ہونے کے ناطے بھاری معاشی نقصانات کی تلافی کیلئے جی ایس پی پلس کادرجہ دینے کا مطالبہ کیا تو بھارت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش نے ہر مرحلہ پر پاکستان کو جی ایس پی پلس دیئے جانے کی مخالفت کی ۔اس مخالفت کی وجہ سے یورپی پارلیمنٹ میں رائے شماری ہوئی تو اکثریت نے پاکستان کوجی ایس پی پلس کا درجہ دینے کی حمایت کر دی۔ بنگلہ دیش کی اس سخت مخالفت کا سبب بنگلہ دیش میں بھارت نواز حسینہ واجد کی حکومت ہے۔ بنگلہ دیش جو جی ایس پی پلس کے درجہ کی وجہ سے یورپی منڈیوں میں اب تک ٹیکسٹائل‘ لیدر کی بھاری برآمدات کر رہا تھا اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آیا۔ کیونکہ اب پاکستان کی ٹیکسٹائل سمیت دیگر معیاری مصنوعات بنگلہ دیش کے مقابلہ میں یورپی منڈیوں میں زیادہ برآمد ہوں گی۔ بنگلہ دیش نے شکست کے بعد جھنجلاہٹ میں ملا عبدالقادر کی پھانسی اورپاکستان کے خلاف جو مہم شروع کی ہے۔ اس کے نتیجہ میں پاکستانی صنعتکار جنہوں نے بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کے شعبہ میں بھاری سرمایہ کاری ہے اور100سے زائد ٹیکسٹائل کی صنعتیں جن میں سپننگ ویونگ‘پروسیسنگ‘ گارمنٹس یونٹ لگائے ہیں، حسینہ واجد کی اس مہم کے نتیجہ میں ان کا مستقبل بھی تاریک ہو گیا ہے ۔بہت سے پاکستانی صنعتکار اس صورتحال میں پریشان ہیں۔ پاکستان کے بعض صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ اپنے ملک کے بجائے دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا مستقبل غیر محفوظ ہوتا ہے۔ انہوں نے طمع اور لالچ کی بناء پر بنگلہ دیش سے بغیر ڈیوٹی یورپی یونین اور دیگر ممالک کو برآمدات کیلئے جو سرمایہ کاری کی تھی وہ ڈوب رہی ہے۔ صنعتکاروں نے مجبوراً بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اب ان کی صنعتیں بنگلہ دیش میں محفوظ نہیں۔ پاکستان کے بعض بڑے صنعتکاروں کا اندازہ ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کی برآمدات ایک ہی سال میں 60سے 70فیصد کم ہوسکتی ہیں اس لئے کہ بنگلہ دیش کی صنعتوں کیلئے کاٹن سے دھاگہ اورکپڑا تک پاکستان سے جاتا ہے صرف دھاگہ بند ہونے سے بنگلہ دیش کی 50فیصد سے زائد برآمدات بند ہو جائیں گی وہ بھی اس لئے کہ چین‘ تائیوان‘ ہانگ کانگ‘ کوریا‘ تھائی لینڈ کی صنعتیں بھی پاکستان سے سوتی دھاگہ درآمد کرتی ہیں اور اس قیمت پر اسے بھارت یا دوسرے کسی ملک سے دھاگہ نہیں مل سکتا اور اگر وہ کسی اورملک سے دھاگہ اورکپڑا خریدے تو پیداواری لاگت زائد ہونے سے یورپی اور امریکی منڈیوں میں مسابقت نہیں کرپائے گا۔ صنعتکاروں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ جی ایس پی پلس کے ذریعہ ہم آئندہ 3سال میں یورپی مارکیٹوں میں مزید 5ارب ڈالرکی برآمدات میں آسانی سے اضافہ کرسکتے ہیں۔ اپٹما کے سابق چیئرمین اوربرسراقتدار گروپ کے سربراہ گوہر اعجاز کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ہم آئندہ 3سالوں میں یورپ کو اپنی برآمدات میں 5ارب امریکی ڈالر تک اضافہ کریں گے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے پاس نہ تو کاٹن ہے نہ دھاگہ جبکہ پاکستان کاٹن ، دھاگہ‘کپڑے ‘ گارمنٹس ‘پراسسنگ سمیت تمام شعبوں میں نہ صرف خود کفیل بلکہ اعلیٰ مہارت اورمعیاری مصنوعات تیارکرتا ہے۔ ہمیں صرف اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ دوسری طرف ایک گروہ نے ان کے اس دعویٰ کی نفی کی ہے اورکہا ہے کہ ایک طرف تو ملک میں بجلی اورگیس کی ایسی قلت ہے کہ پنجاب میں ہفتہ میں محض 2دن گیس فراہم کی جارہی ہے تو ساتھ ہی ان کی بلند وبالا قیمتیں ہیں۔ اس صورتحال میں پیداوار میں اضافہ ممکن نہیں اورجب پیداوار فاضل نہ ہو تو برآمدات میں کس طرح اضافہ ہوگا۔ ساتھ ہی وزیرخزانہ نے امریکی ڈالر کے بھائو میں کمی کا جو دعویٰ کیا تھا اس کے نتیجہ میں اگر ڈالر کابھائو 90/98روپے ہوگیا تو اس کے بھی برآمدات پر برے اثرات مرتب ہورہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں برآمدکنندگان کو بھی برآمدات کی رقم سے کم پاکستانی روپے ملیں گے۔ ان مختلف آراء سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان سے فوری طورپر بنگلہ دیش کو دھاگہ اور کپڑے کی برآمد معطل کرنا ہو گی۔ ساتھ ہی گیس کی قلت جسے ماضی میں خود میاں نواز شریف مصنوعی قرار دیتے تھے ختم کرنی ہو گی۔ اس کے لئے بند کئے گئے گیس کے16کنویں دوبارہ کھولے جائیں۔ کے ای ایس سی اوردیگر کو بند بجلی گھر چلانے کا پابند کیاجائے کیونکہ کے ای ای سی صرف اپنے وہ ہی بجلی گھر چلارہی ہے جن کیلئے اسے فرنیس کے مقابلہ میں انتہائی کم قیمت پر گیس مل رہی ہے اس کے تقریباً 4بجلی گھر بند ہیں۔ اسی کے ساتھ گیس اوربجلی کی شرح میں بھی کمی کی جائے تاکہ صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہوسکے۔ جی ایس پی پلس کے بعد برآمدات میں آئندہ 3سال میں اگر5ارب امریکی ڈالرز کا اضافہ ہوجائے تو آئندہ 3سال بعد پاکستان کی برآمدات جو اب مشکل سے 25ارب امریکی ڈالرز ہیں بڑھ کر آسانی سے 35 ارب امریکی ڈالرز ہوسکتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں پاکستان میں ایک طرف تو روزگار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا نئی صنعتیں لگیں گی۔ بند صنعتوں میں کام شروع ہوگا تو کوئی وجہ نہیں کہ 10سے 15 لاکھ افراد کو روزگار نہ ملے ۔ دوسری طرف برآمدات میں اضافہ سے پاکستان کا تجارتی خسارے میں کمی ہوگی اور40سے 42 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلہ میں 35ارب امریکی ڈالر کی برآمدات کے نتیجہ میں تجارتی خسارہ گھٹ کر7سے 10ارب امریکی ڈالر رہ جائے گا۔ جسے ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات جو اس سال تقریباً 15ارب ڈالرز تک جاپہنچیں گی اور آئندہ 3سالوں میں 19 سے 20ارب امریکی ڈالرز ہوجائیں گے۔ اس خسارہ کو پورا کرکے بھی ہمارے پاس 9سے10ارب امریکی ڈالرز سالانہ فالتو ہوں گے جو ہمارے لئے غیر ملکی قرضوں اوران کے سود کی ادائیگی کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا ذریعہ ہو گے۔