کبھی کبھی میرے دل میں بھی یہ خیال آتا ہے کہ آزادی کے 77 برس گزارنے کے باوجود دنیا میں اپنے آپ کو ہم ’’باوقار قوم‘‘ کیوں نہیں بنا پائے؟ بڑی طاقتیں دنیا بھر میں ہمیں ہی شک کی نگاہ سے آخر کیوں دیکھتی ہیں؟ ایٹمی قوت اور دنیا کی بہترین افواج کے باوجود پاکستان میں آج تک معاشی، اقتصادی اور سیاسی استحکام کیوں پیدا نہیں ہو سکا؟ ترقی یافتہ قومیں ہمیں غیرترقی یافتہ کہنے پر کیوں مجبور ہیں؟ وہ کونسی بنیادی وجوہات ہیں جو من حیث القوم ہمیں احساس محرومی سے دوچار کئے ہوئے ہیں؟ خیال یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطاء کردہ خوبصورت ترین برف پوش پہاڑوں اور سرسبز و شاداب حسین وادیوں سے مالامال وطن پاکستان کو نوجوان آخر کیوں چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ غیرقانونی طریقوں سے جعلی ایجنٹوں کو لاکھوں کروڑوں روپے دیکر اپنے آپ کو دنیا کے انتہائی خطرناک سمندروں کی نذر کیوں کر رہے ہیں؟ ذہن اور قلم جب تھک ہار جاتے ہیں اور پھر مذکورہ بالا خیالات و سوالات کے جواب کیلئے کوئی راستہ دستیاب نہیں ہوتا تو اپنی قومی بے بسی پر سوائے آنسو بہانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور مغموم ہوجاتا ہوں۔
سوچتا ہوں قائداعظم اور علامہ اقبال کے دیئے پاکستان کی سالمیت‘ عزت و وقار‘ ترقی اور استحکام کیلئے جو امور بحیثیت قوم ہم نے خود سرانجام دیئے تھے‘ ان کاموں کو کرنے کی توقع ہم آج غیروں سے لگائے بیٹھے ہیں اور یہی ہماری وہ قومی بدقسمتی ہے جو دنیا بھر میں ہمیں شرمندگی اور ندامت سے دوچار کئے ہوئے ہے۔ اندازہ آپ خود لگا لیں کہ سابق وزیراعظم اور بانی تحریک انصاف عمران خان کو جس روز سے 190 ملین پائونڈ کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے 14 برس قید 10 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا اور انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات برس قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے‘ اندرون اور بیرون ملک پاکستانیوں میں چہ میگوئیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ سوال کرنے والے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ معزز جج صاحب نے بہت پہلے فیصلہ جب محفوظ کرلیا تو اس فیصلے کو سنانے کیلئے بار بار التواء کے عمل سے انہیں کیوں گزرنا پڑا؟ بعض سوالات جج صاحب کے ماضی میں مبینہ طور پر دیئے گئے بعض فیصلوں کے حوالے سے بھی کئے جا رہے ہیں اور یہی وہ غیریقینی صورتحال ہے جس سے بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد اب مختلف سیاسی دھڑوں میں منقسم ہو رہی ہے۔ ایسے حالات سے ملکی معیشت پر ہی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ملک و قوم کا وقار بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں امریکہ میں ہونے والے حالیہ انتخاب کی سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں ہمارے حکمران ہی نہیں‘ بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماء بھی ٹرمپ انتظامیہ کے قریب تر ہونے کیلئے ہر وہ طریقہ آزما رہے ہیں جس سے امریکہ کا پاکستان پر اعتماد دوبارہ بحال ہو سکے۔ قارئین کرام کا حافظہ اگر کمزور نہ ہو تو انہیں یاد ہوگا کہ 2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جب صدارت کا حلف اٹھایا تو پاکستان سے دوستانہ تعلقات کے حوالے سے بغیر لگی لپٹی انہوں نے کہہ دیا کہ امریکہ نے پندرہ برس تک پاکستان کو 33 ارب ڈالر دیئے مگر پاکستان نے مبینہ طور پر بے وفائی کی۔ یہ افغان جنگ کا دور تھا۔ ہم دہشت گردوں کو پکڑ رہے تھے اور پاکستان نے ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دیں جس سے امریکہ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ مگر 20 جنوری 2025ء کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی‘ اب ایک اہم نقطہ ہے۔ جہاں تک سابق وزیراعظم عمران خان کی فوری رہائی کا معاملہ ہے تو میری اطلاعات کے مطابق اپنی صدارتی کمپیئن کے دوران بعض ریاستوں میں ٹرمپ امریکی پاکستانیوں سے عمران خان کی فوری رہائی کے بارے میں مبینہ طور پر چونکہ وعدہ کرچکے ہیں اس لئے لگتا یہی ہے کہ پاکستان سے پراعتماد تعلقات کی ازسرنو بحالی سے قبل عمران خان کے کیس پر وہ موجودہ کولیشن حکومت سے بات ضرور کرینگے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا معاملہ بلاشبہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے مگر افسوس! ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام‘ غیرجمہوری رویوں اور غلط حکمت عملی کی بناءپر گھر کا یہ معاملہ اب برطانیہ اور امریکہ تک پہنچا دیا گیا ہے اور یوں دنیا بھر میں اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کیلئے حکومت پاکستان سے مذاکرات کرنے جا رہے ہیں؟؟
جہاں تک امریکہ اور پاکستان کے دیرینہ دوستانہ تعلقات کا معاملہ ہے تو ان تعلقات کی مضبوطی اور کامیابی کا انحصار ہمیشہ ’’ڈومور‘‘ اور کبھی Enough is Enough پر رہا ہے۔ آئندہ چند روز بعد امریکی پاکستانیوں کی ایک مضبوط لابی کانگرس ارکان سے ملاقاتوں کے بعد عمران خان کی فوری رہائی اور مبینہ طور پر قرارداد جمع کروانے جا رہی ہے۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ’’گل مزید ودھ گئی اے‘‘۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے ہم جنس پرستوں پر بجلی گرا کر امریکہ میں صرف مرد اور عورت کی جنس کو ہی تسلیم کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ وہاں کرپٹ اسٹیبلشمنٹ سے امریکہ کو فوری چھٹکارا دلانے کے لیئے سابق صدر جوبائیڈن کے تمام ایگزیکٹو آرڈرز منسوخ کرنے اور پانچ کروڑ غیرقانونی تارکین وطن کو امریکہ سے نکالنے کا واضح اعلان بھی کیا ہے۔ اعلانات اور بھی بہت سے کئے گئے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس مرتبہ سنجیدہ امریکی صدر کی حیثیت سے امریکہ کو معاشی اور اقتصادی طور پر دنیا کا مزید طاقتور ملک بنانے کا عہد کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے حکم نامہ میں دنیا کے بیشتر ممالک کو دی جانے والی امریکی امداد پر تین ماہ کیلئے پابندی عائد کرنے کا اعلان بھی کیا ہے جبکہ اس امداد کا انحصاراب امریکی شرائط پر ہوگا۔ افسوس کہ پاکستان بھی انہی مذکورہ ممالک میں شامل ہے۔ جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف پہلے ہی پاکستان کو ڈومور کا پیغام دے چکا ہے۔ میرے منہ میں خاک‘ مگر لگتا یہی ہے کہ معاملہ ’’وینٹی لیٹر‘‘ بند کرنے کی جانب رواں دواں ہے کیونکہ ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ’’رچرڈ گرینیل‘‘ کے ہوتے ہوئے مجھے اور کسی کی ضرورت نہیں۔
امریکی مفادات میں صدر ٹرمپ کے غیرمعمولی فیصلے
Feb 06, 2025