عوام کی باری کب آئے گی۔۔۔؟

ملک کو درپیش معاشی ،سیاسی اور سماجی عدم استحکام سے نکالنے کیلئے اگرچہ حکومت کی جانب سے کفایت شعاری کمیٹی بناکر حکومتی اخراجات میں کمی لانے کیلئے مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں، مختلف اخبار ی اطلاحات کے مطابق قومی کفایت شعاری کمیٹی (اے این سی) مختلف تجاویز پر غور کررہی ہے جن میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ، وزارتوں اور ڈویژنوں کے اخراجات میں 15 فیصد کمی اور وفاقی اور وزرائے مملکت اور مشیروں کی تعداد 78 سے کم کرکے اسے 30 پر لانا شامل ہے۔ان سب کے باوجود اگر اربوں روپے اراکین پارلیمنٹ کو دئیے جائیں گے تواس کا فائدہ بھی انہی اراکین اسمبلی کو ہوگا ۔ اگروزیروں اور مشیروں کی فوج ظفرموج کو کم ترین سطح پر رکھاجائے تبھی اس پروگرام کا فائدہ ہوگا ورنہ اس قومی کفایت شعاری پروگرام کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پہلے ہی اراکین اسمبلی کوپیٹرول، بجلی اور بعض دیگر مدوں میں اربوں روپے مراعات کی شکل میں مل رہے ہیں جبکہ قومی اداروں کا برا حال ہے۔پی آئی اے ، پاور سیکٹر ، پاکستان اسٹیل ملز اور پاسکو سمیت نقصان میں جانے والے بعض دیگر اداروںکو پرائیویٹ کرنے کی بجائے انہیں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے بھی چلایاجاسکتاہے۔ان اداروں کو مکمل فروخت کرنے کی بجائے ان اداروں کواپنے پیروں پر کھڑاکرنے کی ضرورت ہے، پرائیویٹ شراکت داری کے ذریعے ان اداروں کو خسارے سے نکالا جاسکتاہے جس طرح بہت سے اراکین اسمبلی اور سیاستداں اپنی کمپنیوں کو منافع بخش بنارہے ہیں اور اپنی دولت میں اضافہ کررہے ہیں اسی طرح سر کاری اداروں کو بھی منافع بخش بنایاجاسکتاہے، اگرچہ فی الوقت ملک کی معاشی صورتحال دگرگوںہے لیکن اگر مخلص قیادت اس ملک کو میسر آجائے تو سارے نظام کو درست کیا جاسکتا ہے۔دوسری جانب اس قومی کفایت شعاری پروگرام کی یہ تجویز کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی لائی جائے تو یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سرکاری ملازمین کا وہ طبقہ جو درمیانہ اور نچلی سطح پر کام کررہاہے ان کا گزارا تو موجودہ تنخواہ میں مشکل ہوچکاہے اگر نچلے یا درمیانے طبقے کی تنخواہوں میں کمی کی گئی تو اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ حکومت کو نچلے طبقے کے ملازمین کی تنخواہیں کم کرنے بجائے کوئی اور آپشن استعمال کرناچاہیے۔ پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط اورمستحکم بنانے کیلئے جس قیادت کی ضرورت تھی وہ شاید ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوسکی ہے، پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کیلئے سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے کچھ کیاہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے یہی سوچا کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرکے ملک پر حکومت کرتے رہیں گے اور پھر کافی عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کے زیرسایہ مختلف سیاسی جماعتیں ملک پر جمہوری اور غیر جمہوری طریقوں سے حکومت کرتی رہی ہیں جس کے باعث ملک میں بہت سی غیر جمہوری روایتیں رائج ہوچکی ہیں جو آج اس قدر مضبوط اور پائیدار ہوچکی ہیں اب انہیں غیر جمہوری سمجھنا بھی جمہوریت کی نفی محسوس ہوتا ہے ۔ دوسری طرف اس وقت تک ملک میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان نورا کشتی چلتی رہی جب تک کوئی دوسری بڑی جماعت ان کے مقابلے میں نہیں آئی تھی لیکن جب انہوں نے دیکھا ان کے سامنے عوامی طاقت کے ذریعے ایک ایسی قوت آچکی ہے جسے پی ٹی آئی اور عمران خان کہتے ہیں تو انہوں نے ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرناشروع کردیا ،عمران خان سے دوران اقتدار میں غلطیاں ضرور ہوئیں ہیں اور انہوں نے اس کااعتراف بھی کیاہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کی حکومت کوہی مختلف غیر اخلاقی طریقوں سے ختم کردیاجائے ، جن لوگوں نے عمران خان کی حکومت کو ختم کیا وہ اب ضرور پچھارہے ہونگے۔ حالانکہ جب عمران خان کی حکومت کوختم کیا گیا اس وقت معاشی ماہرین بتارہے تھے کہ عمران خان کی حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے صحیح ٹریک پر آچکی ہے،ماہرین کاکہناتھا کہ ملکی معیشت درست سمت میں چل پڑی ہے، پھر اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ ان کی حکومت کو ختم کرنے کو ہی ملک کی بقاکیلئے ضروری سمجھ لیاگیا لیکن اب انہیں اقتدارسے ہٹانے والے یعنی(Regime change) کرنے والے موجودہ حکومت سے کیوں نہیں پوچھتے کہ جو دعوے موجودہ سیٹ اپ نے اقتدار سنبھالنے سے قبل کئے تھے وہ انہیں پورا کیوں نہیں کرسکے ہیں ظاہر سی بات ہے موجودہ سیٹ اپ کے پاس ملک کو ترقی دینے کیلئے کوئی واضح ویژن نہیں ہے ، اس لئے یہ ہر شعبے میں ناکام ہونے کے بعد ہرچیز کا ذمے دار سابق حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ اگر موجودہ سیٹ اپ ملک اور عوام سے مخلص ہے اور وہ ماہرین پر مشتمل ہے تو انہیں ملک سے مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کردیناچاہیے تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام نہیں ہوئے بلکہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے ہیں یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے اس لئے یہ خود بھی حکومت کی تبدیلی(Regime change) سے پچھتارہے ہیں لیکن شرمندگی کے باعث اس کا اظہار نہیں کررہے۔ پاکستان میں مختلف ادوار میں ملک کی دو بڑی مختلف جماعتیں اقتدار میں رہیں، جو اس فلسفے پر چلتی رہیں کہ تیری باری اب میری باری ،،اور دونوں ہی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف یہ بھی کہتی رہیں کہ فلاں نے ملک کو تباہ کردیا ہے اگر یہ حکومت مزید رہی تو ملک مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا،اور پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کو ایک دوسرے کے خلاف اقدا م اٹھانے کیلئے خطوط لکھے جاتے رہے، سابق ادوار میں فوج کے سربراہوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب یہاں تک کہہ دیا گیا کہ اگر فلاں حکومت کو فوری طور پرختم نہ کیا گیا تو ملک دوبارہ اپنے پیروں کبھی کھڑا نہیں ہوسکے گا اور اس کی ذمے دار ی فوج پر بھی عائد ہوگی کیونکہ وہ اس میں مداخلت نہیں کررہی، سیاستدان نے وقتا فوقتا اسٹیبلشمنٹ کو ایک دوسرے کی حکومتوں کے خاتمے کیلئے بھی اکسایااور انہیں استعمال بھی کیا گیا ، ماضی میں کچھ جماعتوں نے وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچنے کیلئے جن بیساکھیوں کا سہارا لیاوہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سیاستدانوں نے ہی فوج کو سیاست میں لانے کیلئے اہم کردار ادا کیااور جب فوج ان نالائق سیاستدانوں کی باتوں میں آکر اقتدارسنبھال لیتی ہے تو یہی سیاستداں اسٹیشبلشمنٹ پر سارا ملبہ ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ہوئے عوام میں جاکر اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہر عام انتخابات سے قبل مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے پر مختلف الزامات عائد کئے جاتے ہیں ،جن میں کرپشن ، لاقانونیت ، سیاسی انتقام، عہدوں سے ناجائز فائدے اٹھانا،ملک کے بجائے اپنے ذاتی کاروبار کو فروغ دینااور اسی طرح کے دیگر الزامات شامل ہیں۔ عجیب بات تو ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود وہ مل بیٹھتے ہیں اگر کسی کے ضمیر میں ذرا سی بھی رمق ہوتو وہ اس پرضرور شرمندگی محسوس کرے گا مگر افسوس کہ اتنا کچھ ایک دوسرے کے خلاف بولنے کے باوجود انہیں کوئی شرمندگی ہے نہ پچھتاوا کیونکہ انہوں نے آئندہ بھی یہی کچھ کرنا جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگ اقتدار حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ آج کی پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں بھی ایک دوسرے کے مدمقابل ہونگی اور نظریہ ضرورت اس وقت ختم ہوچکاہوگا۔ شاید جبھی کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ساری سیاسی جماعتیں اپنی اپنی باریاں لے چکی ہیں ،اب پاکستانیوں کی اکثریت یہ سوچ رہی ہے عوام کی باری کب آئے گی۔۔۔؟