
قلمی چغلیاں…… شفقت رانا
alirazabcn@gmail.com
پاکستان کی ہر آنے والی حکومت کو مہنگائی کا سامنا ہوتا ہے اور وہ یقیناً اْس پر قابو نہیں پا سکتی جس کی وجہ سے عوام الناس کا رد عمل اْس حکومت کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔پاکستان میں پٹرول، بجلی،ڈالرز کا ریٹ کوئی سربراہ یا حکومت شوق سے نہیں بڑھاتی بلکہ وہ آئی ایم ایف سے طے کی گئیں اْن شرائط کی وجہ ہوتی ہے کہ حکومتوں کو عوام پر یہ میزائل گرانے کی ترغیب دیتی ہیں، ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کو الزام دیتی ہے کہ یہ سب کچھ اْن کا کیا دھرا ہے پھر یہ شور پانے والے جب چلے جاتے ہیں تو نئی حکومت آکر یہی واویلہ شروع کر دیتی ہے۔ پاکستان کے ’’بھولے بادشاہ‘‘ عوام آج تک یہی نہیں جان سکے کہ وہ لیا قرضہ جاتا کہاں ہے؟ یا وہ اربوں ڈالرز کون لے جاتا ہے؟ خیر یہ تو ہماری عوام سمجھنا ہی نہیں چاہتی وہ تو صرف اپنی اپنی پارٹی سربراہ کے سامنے نعرے مارنے اور بھنگڑے ڈالنے میں مصروف ہیں، حالانکہ اِس بار پاکستان کی موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اْسے نئی شرائط کا سامنا کرنا پڑا، باقی تمام شرائط تو پاکستانی عوام کا ’’کچومر‘‘ نکالنے کے لئے ہیں جبکہ دو شرائط ایسی ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے عوام کے فائدے میں جا سکتی ہیں۔پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ آئی ایم ایف میں کوئی محب وطن پاکستانی بیٹھا ہے جس نے یہ نئی شرائط رکھی ہیں۔پہلے تو آئی ایم ایف نے یہ کہا کہ اگر آپ کو قرضہ چاہیئے تو ڈالر کا ریٹ ہماری مرضی کا لے کر آئیں،بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے، گیس کی قیمت اور ٹیکس کی وصولی میں اضافہ کریں تو ہم آپ کو قرضہ دے سکتے ہیں۔ اسی طرح نئی رکھی گئیں دو شرائط میں ایک شرط یہ ہے کہ جتنے گورنمنٹ ملازمین ہیں جو گریڈ 17یا اس سے اْوپر کے ہیں، سیاستدان جن میں ایم پی اے، ایم این ایز اور منسٹرز شامل ہیں وہ سب اپنے اثاثوں کو پبلک کریں خواہ اْن کے وہ اثاثے ملک میں ہیں یا ملک سے باہر ہیں انہیں سامنے لایا جائے۔پاکستان میں یہ قانون بھی ہے کہ ایف بی آر کو جو ڈیٹا یا اثاثے دیئے جاتے ہیں وہ پبلک نہیں کئے جا سکتے اِس کے لئے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ نئی قانون سازی کی جائے اور اْن اثاثوں کو پبلک کرنے کے لئے پالیسی بنائی جائے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری حکومت آئی ایم ایف سے کوئی ایسی ’’ڈیل‘‘ کر لے کہ اثاثے پبلک نہیں کئے جا سکتے تو اور بات ہے۔آئی ایم ایف نے تو 17گریڈ کے اْوپر ملازمین کی بات کی ہے جب کہ اگر پہلے گریڈ کو بھی دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وطن عزیز میں کتنی کرپشن ہو رہی ہے۔بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے پیسہ تو اکھٹا ہوتا ہے لیکن اِس سے غریب عوام کوانتہائی مخدوش حالات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، آج تک اگر آئی ایم ایف کی شرائط کو دیکھا جائے تو وہ جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے آفیسرز کا تحفظ کرتی ہیں جبکہ سارا نزلہ غریب عوام پر نکال دیا جاتا ہے، اس بار حکومت اگر محب الوطنی کا مظاہرہ کرے تو آئی ایم ایف کی نئی شرط مان کر بغیر کسی ’’ڈیل‘‘ کے تمام افراد کے اثاثے پبلک کرنے کے حوالے سے مان جائے تو کرپشن پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے، قرضہ بھی مل جائے گا اور غریب عوام بھی سْکھ کا سانس لیں گے۔لیکن ایسا کرے گا کون؟ کیونکہ ایسا کرنے والے تو اثاثے پبلک کر نے سے خود ننگے ہو جائیں گے اور اْن کے ’’کچے چٹھے‘‘ سب کے سامنے آ جائیں گے یہ اثاثے کرپشن سے بنتے ہیں اور پھر انہی اثاثوں کو چھپانے کے لئے کرپشن کرنا پڑتی ہے۔اِس کے ساتھ ساتھ ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ پانچ ہزار، ہزار اور پانچ سو کا نوٹ بند کر دیں پھر دیکھتے ہیں کہ سو اور پچاس کے نوٹوں کی کتنے ٹرک بھر کر ایک دوسرے کو رشوت دی جا تی ہے جب ایسا ہو گا تو وہ ٹرک چھوٹے نوٹوں سمیت پکڑے جائیں گے ورنہ ابھی تو کسی کو دس لاکھ رشوت دینی ہو تو وہ پانچ ہزار نوٹوں کی دو ’’کاپیاں‘‘ جیب میں رکھ کر دی جا سکتی ہیں۔ساتھ ساتھ وزرائ اور سرکاری ملازمین کا مفت پٹرول اور پروٹوکول بند کر دیا جائے اِس طرح بھی اخراجات کو روکا جا سکتا ہے اور قومی خزانے پر پڑنے والا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ وزرائ اور مشیر جب دوسرے ممالک کا ٹوور کریں تو اْن کے ساتھ ایک یا دو افراد ہوں، درجنوں کے حساب سے ساتھ جانے والے قافلے اخراجات میں زیادتی کا باعث بنتے ہیں اور یہ تھوڑی رقم نہیں بنتی بلکہ لاکھوں ڈالرز کا تخمینہ ہے۔بنگلہ دیش کو دیکھ لیں وہ ہم سے بعد میں آزاد ہوا اور آج اْس کی ترقی سب کے سامنے ہے، بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف کی شرائط پر باقاعدہ عمل کیا ہے بغیر امیر اور غریب کی تمیز کے، انہوں نے اپنے بازار شام چھ اور 7بجے بند کرنے آرڈرز کئے جس سے اْن کوبجلی کی بچت کی مد میں سالانہ لاکھوں ڈالرز کا فائدہ ہوا۔ ایسے احکامات سے کچھ افراد متاثر بھی ہوں گے لیکن پاکستان کا قومی خزانہ سیراب ہو گا اور عوام الناس کو ریلیف ملے گا۔پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کو ملنے والا مفت پٹرول بند کیا جائے، بجلی اور گیس کے بل سرکاری ادارے اور ملازمین بھی بروقت ادا کریں، انکم ٹیکس کی وصولی بلا امتیا زکی جائے، کرپشن ختم کی جائے تو ہمارا ملک معاشی بحران سے نکل سکتا ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو وہی بات کہ میرے ابا جان رشوت لینے کے الزام میں پکڑے ھئے اور جیل چلے گئے، پھر رشوت دے کر جیل سے باہر آگئے۔