
پچھلے دنوں ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ ایک مرغ کے اعزاز میں اس کے مالکان نے مجرے کا اہتمام کیا۔ وجہ مرغوں کی لڑائی میں مرغ کی شاندار فتح۔ رقص و سرور کی محفل سجی ھوئی ہے اور ککڑ پر نوٹوں کی بارش ہو رہی ہے۔ پھر منظر تبدیل ہوتا ہے۔ ہزاروں غریب لوگ سستا آٹا فروخت کرنے والے ٹرک کے ارد گرد جمع ہیں۔ دھکم پیل ہو رہی ہے اور اسی دوران چھوٹے چھوٹے پانچ بچوں کا باپ جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ لیکن ٹھہریے ، ابھی مزید مناظر تواتر سے آرہے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں سات ماہ گزرنے کے باوجود جوں کی توں ہیں۔ کبھی کوئی سیاستدان لاکھوں روپے کے جوتے پہن کر ننگے پاؤں والے بے سائبان بچوں کے ساتھ تصویر کھنچوا رہا ہے۔ پھر ایک کثیرالتعداد حکومتی وفد جنیوا کی یاترا کو روانہ ہوا، مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرا، قیمتی لباس زیبِ تن کیئے اور پوری دنیا کے سامنے کشکول لے کر کھڑا ہو گیا۔ ترس کھا کر جو امداد دی گئی وہ بیشتر قرض کی صورت میں صرف وعدہ کی گئی۔ کتنی آتی ہے کہاں اور کیسے خرچ ہوتی ہے، یہ منظر ابھی دیکھنا باقی ہے۔کچھ عرصہ قبل پاکستان میں فلم بینی کا رجحان عام تھا۔ وحید مراد، ندیم اور محمد علی کی فلمیں کھڑکی توڑ ہفتہ مناتیں۔ چھپ چھپاکر بھائی لوگ کہیں نہ کہیں غیر اخلاقی فلمیں بھی دیکھنے پہنچ جاتے لیکن اس طرح کی فلموں کا شرفاء کی محفل میں ذکر نہ کیا جاتا۔ یہ راز ہی رہتا کہ کسی نے کیا دیکھا۔ اب ہم نے ترقی کرلی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران اور سیاستدانوں کی انتہائی نجی ویڈیوز اتنی باآسانی دستیاب ہیں کہ بازار جا کر خریدنے کی بھی ضرورت نہیں۔ کوئی نہ کوئی واٹس ایپ گروپ میں بھیج ہی دے گا۔ ٹی وی پر اینکر حضرات ان ویڈیوز پر لمبی گفتگو فرمائیں گے اور سب گھر والے ایک ساتھ بیٹھ کر ان کے متعلق مزید آگاہی حاصل کریں گے۔ ایک خاتون سیاستدان نے فرمایا کہ ان کے پاس اور بھی ویڈیوز ہیں۔ اب سب اس انتظار میں ہیں کہ وہ خاتون اپنے بڑوں کے ہمراہ کب نئی اور چٹ پٹی خبریں مارکیٹ میں لاتی ہیں۔ آہ! کیسا زوال کو عروج نصیب ہوا۔
پاکستان بنانے والے بتاتے ہیں کہ سرکاری دفاتر میں کاغذوں کو نتھی کرنے کے لئے ببول کے کانٹے استعمال ہوتے کیونکہ نومولود مملکت خداداد کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ پن خریدی جائیں۔ سادہ ماحول تھا، ایئر کنڈیشن، قالین اور بڑی بڑی گاڑیاں ابھی منظر عام پر نہ آئی تھیں۔ اعلیٰ افسران بھی سائیکل پر دفتر آتے۔ نہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام اور نہ ہی ورکنگ لنچ جیسی کوئی اصطلاح ایجاد ہوئی۔ پھر وقت بدلا، آدھا ملک جدا ہو گیا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ کروڑوں آبادی والے ملک میں ایک بھی شخص ایسا نہ ملا جس کو ذمہ دار ٹھہرا کر تختہ دار پر لٹکایا جاتا۔ ملک غریب سے غریب اور کرپشن بڑھتی گئی۔ پہلے تنخواہیں قلیل اور طرز زندگی سادہ تھا۔ اب مہنگائی کے رونے کے ساتھ ساتھ شاہانہ انداز نمایاں ہے۔ چمکتی دمکتی گاڑیاں، شادی بیاہ پر اصراف، ناچ گانا لیکن اندر سے سب کھوکھلے۔ ایسا کب تک چلے گا؟
ہمارا بچپن سرکاری سکول و کالج میں سے گزرا۔ اب ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے کی فیس لینے والے سکول و کالج موجود ہیں۔ سرکاری سکولوں میں تعلیم کا یہ حال ہے کہ اْلّْو بول رہا ہے۔ نارتھ ناظم آباد کراچی میں اپنے وقت کے مشہور کالج کے میدان میں بڑی سی سٹون کریشنگ مشین لگی ہوئی ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محکمہ تعلیم کی ترجیح کس طرف ہے۔ جو لوگ پرائیویٹ کالج کی فیس نہیں دے سکتے وہ مجبوراً اپنے بچوں کو مدرسے بھیج رہے ہیں، جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش اور کھانا بھی فری ہے۔ اور یوں معاشرے میں واضح طور پر دو طبقات ابھرے۔ ایک انتہائی آزاد خیال اور دوسرا قدامت پسند۔ نتیجہ اعتدال کا فقدان۔ پرائیویٹ اداروں کے اعلیٰ افسران کی تنخواہیں لاکھوں میں، سرکاری عہدے داروں کے شاندار بڑے بڑے دفاتر اور غریب کی تنخواہ صرف بیس پچیس ہزار روپے اور گدھوں کی طرح کام۔ کہاں رہے کیا پہنے اور کیا کھائے؟ بجلی اور گیس کے بل کیسے ادا کرے؟ پھر جرائم کیوں نہ پروان چڑھیں۔ ایک صاحب بجلی کے محکمہ میں ملازم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کے مضافات اور اندرون شہر گنجان آبادی والے علاقوں میں سب بجلی چوری کر رہے ہیں اور بجلی چوری کی قانون میں ایف آئی آر کی گنجائش نہیں۔ اب بجلی کا محکمہ اپنا خسارہ کیسے پورے کرے اور یوںآئے دن بجلی کا بحران آتا رہتا ہے۔
ہمارے ایک دوست نے چاول کا کاروبار کرنے کا ارادہ کیا۔ مل والے سے 25 روپے فی کلو کے حساب سے مال اٹھایا اور بازار فروخت کے لئے پہنچ گئے۔ دوکاندار نے جواب دیا کہ یہی چاول آپ مجھ سے 25 روپے کا لے لیں۔ یہ سٹپٹائے اور مل والے کے پاس شکایت کرنے واپس پہنچے۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ جو چاول آپ مجھ سے لے رہے ہیں اس کو اسی طرح مارکیٹ میں فروخت کر دیں۔ بھائی اس میں اٹھارہ روپے والا چاول شامل کرو گے اور پچیس کا کہہ کر فروخت کرو گے تب کامیاب ہو گے۔ انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور اس کاروبار سے توبہ کی۔
پچھلے دنوں کراچی میں نیسلہ ٹاور کا خوب چرچا ہوا۔ یہ عمارت بلڈر اور کرپٹ افسران کی مدد سے غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی، لوگوں نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر اس میں اپارٹمنٹ خریدے اور رہنا شروع کردیا۔ عدالتی حکم آیا کہ بلڈنگ کو گرا دیا جائے۔ چونکہ بلڈنگ میں عام اور سفید پوش لوگ مقیم تھے، آہ و بکا کے باوجود عمارت گرا دی گئی۔ نہ بلڈر کو کوئی نقصان ہوا اور نہ ہی کسی کرپٹ افسر کے خلاف کوئی کارروائی۔ صرف غریبوں کے سر سے سایہ چھن گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے طاقتور لوگوں کی کثیر المنزلہ غیر قانونی عمارتیں جوں کی توں رہیں اور اب بھی دھڑا دھڑ بن رہی ہیں۔
سیاسی اختلافات اپنی جگہ اور پارٹی تبدیل کرنا ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ پہلے بھی اپنا ضمیر بیچ کر کچھ لوگ وفاداریاں تبدیل کرتے رہے۔ لیکن چونکہ اب بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ کس کی کیا قیمت لگتی ہے، انہوں نے ٹی وی پر آکر ڈھٹائی سے اپنا دفاع بھی شروع کر دیا ہے۔ کیا اس زوال کے عروج کو زوال نصیب ہوگا؟