رواداری اسلام کا سنہری اصول ہے جس پر عمل کر کے ہم اپنے سماج کو امن اور سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ دنیا کے انسان اس اصول سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں اور برداشت و تحمل کھو بیٹھے ہیں جس کے نتیجے میں ہمیں پوری دنیا میں انتشار اور فساد نظر آتا ہے۔ رواداری کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیںان کو ہم برداشت کریں‘انکے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نقطہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو۔ انہیں انکے اعتقاد سے پھیرنے یا انکے عمل سے روکنے کیلئے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ رواداری اور تحمل ایک بہت احسن عمل ہے جو مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ البتہ خود ایک عقیدہ رکھتے ہوئے جسے ہم حق اور سچ جانتے ہوں دوسروں کے عقیدوں کو بھی حق اور سچ سمجھنا رواداری نہیں ہے بلکہ یہ منافقت کے زمرے میں شامل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں رواداری کے بارے میں بڑی وضاحت سے ارشادات فرمائے ہیں جن پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے سماج سے تشدد نفرت، تعصب، انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کیا جا سکے۔
سورۃ الانعام کی آیت نمبر 108 میں ارشاد ربانی ہے۔" یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر جن دوسرے معبودوں کو پکارتے ہیں ان کو بُرا نہ کہو کیونکہ اسکے جواب میں نادانی کے ساتھ ناحق یہ خدا کو گالیاں دینگے ہم نے تو اسی طرح ہر قوم کیلئے اس عمل کو خوش نما بنا دیا ہے۔ پھر ان سب کو اپنے پروردگار کی طرف واپس جانا ہے وہاں ان کا پروردگار انہیں بتا دے گا کہ انہوں نے کیسے عمل کئے ہیں۔" قرآن کی سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 72 میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا "خدا کے نیک بندے وہ ہیںجو جھوٹ پر گواہ نہیں بنتے اور جب کسی نامناسب فعل کے پاس سے گزرتے ہیں تو خود داری کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔" قرآن پاک کی سورۃ الکافروں کی آیت نمبر 1 سے 6 تک اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا " اے محمدؐ انہیں کہہ دو کہ اے کافرو نہ میں ان معبودوں کو پو جتا ہوں جن کو تم پوجتے ہواور نہ تم اس معبود کو پوجنے والے ہو جس کو میں پوجتا ہوں اور آئندہ بھی نہ میں ان معبودوں کو پوجنے والا ہوں جن کو تم نے پوجا ہے اور نہ تم اس معبود کو پوجنے والے ہو جس کو میں پو جتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے"
ان آیات کے مطابق اللہ تعالی کی رضا یہ ہے کہ ہم اپنے دین کا پیغام دوسروں تک ضرور پہنچائیں مگر زبردستی نہ کریں اور کسی کو اپنے دین کو چھوڑنے کیلئے مجبور نہ کریں تاکہ سماج میں فساد کی صورتحال پیدا نہ ہو۔
اللہ تعالی کا سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 256 میں ارشاد ہے کہ" دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔"قرآن کی سورۃ النحل کی آیت 125 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ہیں کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور انکے ساتھ اچھے طریقے سے سے بحث کرو"قرآن پاک کی ان آیات کے مطابق رواداری کے بارے میں اللہ تعالی کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے حق پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کوحق کی دعوت دیگیں مگر کسی کی دل آزاری نہیں کرینگے نہ ان سے بدکلامی کرینگے ‘اللہ کا بندہ اسکے عقیدے پر حملہ نہیں کریگا اور نہ ہی انکی عبادات اور اعمال میں مزاحمت کریگا۔ کسی کو زبردستی اپنے مسلک پر لانے کی کوشش نہیں کریگا۔ تہذیب شائستگی اور دلیل اسلام کا بہترین اصول ہے جس پر اللہ کے انبیاء اور اولیاء نے عمل کیا مسلمانوں کو بھی دعوت حق دیتے ہوئے یا کسی مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اسی اصول پر عمل کرنا چاہئے۔ افسوس پاکستان کے سب سے بڑے منتخب ادارے پارلیمنٹ میں تحمل اور رواداری کے پرزے اڑائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سماج میں برداشت تحمل اور رواداری کے اصول نظر نہیں آتے جن کی وجہ سے پاکستانی سماج انتشارشدت پسندی اور انتہاپسندی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جس سے مختلف قسم کے سماجی سیاسی اور معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیںجن پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستانی سماج کو مکمل زوال سے بچایا جا سکے۔
سینیٹر سجاد بخاری کا نام پاکستان کی ان معروف شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاست اور صحافت دونوں میں نام کمایا۔ انہوں نے تصنیف و تالیف میں بھی اپنا مقام پیدا کیا‘ وہ پاکستان کی سب سے بڑی قومی جماعت پی پی پی کے ڈپٹی مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے اور اسی جماعت کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ان کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا اعتماد حاصل رہا۔ وہ پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اے پی این ایس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور ملک بھر کے ایڈیٹروں کی قومی تنظیم دی کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز ایسوسی ایشن سی پی این ای کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ سینیٹر سجاد بخاری کو اردو انگریزی اور فرنچ زبانوں پر عبور حاصل ہے انہوں نے ان تینوں زبانوں میں کتب تصنیف کی ہیں۔ وہ اب تک بیس کتب قلم بند کر چکے ہیں اور اب انکی اکیسویں کتاب "خلافت کے آغاز سے سے خلافت کے اختتام تک" مارکیٹ میں آئی ہے جو اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔ یہ کتاب 1330 سالہ تاریخ کی مختصر داستان ہے جو خلافت راشدہ خلافت بنو امیہ خلافت بنو عباس اور خلافت عثمانیہ پر مشتمل ہے۔ اسلامی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے طلباء اور قارئین اس کتاب کا مطالعہ کرکے اسلامی تاریخ کے اہم واقعات سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ سینیٹر سجاد بخاری اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں خلافت اسلامی کی تیرہ سو برس سے زائد عرصہ پر محیط تاریخ کو قلم بند کرنے کیلئے ہزاروں صفحات درکار ہیںاور اسے کسی ایک کتاب میں تفصیل سے بیان کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ اس تصنیف کو صرف خلفاء کے حالات زندگی کے مختصر بیان تک محدود رکھوں اور غیر ضروری تفصیلات میں جانے سے گریز کروں تاکہ تاریخ کے طالب علم کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بنیادی معلومات حاصل کر سکیں۔ یہ کتاب اب تک پبلی کیشنز 151 کیو بلاک جوہر ٹاؤن لاہور نے شائع کی ہے۔ سینیٹر سجاد بخاری کی دیگر معروف کتب میں ذوالفقار علی بھٹو ولادت سے شہادت تک پاکستان کے سترہ وزیراعظم مشرق کی بیٹی بینظیر بھٹو شہید کے آخری 72 دن بھلوال سے ایوان بالا تک لیڈر آف ٹو ڈے اللہ کے فرامین( انگریزی) شامل ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024