پاکستان میں مہنگائی کی شدت اور اُس کے نتیجے میں غریب عوام کی دلخراش صورتحال کا اندازہ اِس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے دنوں وزیراعظم نے خود شکوہ کیا کہ جو تنخواہ اُنہیں ملتی ہے اِس میں گھر کا خرچ پورا نہیں ہوتا۔ وزیراعظم نے پیسہ بنانے کے لئے مہنگائی کرنے والے مافیا کو کیفر کردار تک پہنچانے کا جو عہد کیا ہے وہ لائق تحسین ہے مگر اِس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ مصنوعی ہے یا اصلی؟ اگر اصلی تو اِسکا حل حکومت کے پاس ہے کہ وہ ایسی معاشی حکمت عملی وضع کرے جس سے طلب ورسد کی قوتیں زیادہ غیر متوازن ہو کر نہ تو قیمتوں کو اسقدر بلند کر دیں کہ اشیا خدمات عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو جائیں اور نہ ہی اِسقدر کم ہو جائیں کہ اِن اشیاء کو تیار کرنے والے مینوفیکچررز کے اخراجات ہی نہ پورے ہوں اور وہ کارخانے فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں تو جہاں ایک طرف مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو تو دوسری طرف بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو جائے۔
معاشیات میں اِس صورتحال کو جمودی افراط زر کہا جاتا ہے۔ آج کے وقت میں کمر توڑ مہنگائی اور بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور اِس پر مستزاد آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور قرضوں کا بے تحاشا بوجھ نے ہماری معیشت میں کو مسلسل سکیڑ کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ چونکا دینے والی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی کی شرح 14.56 فیصد تک پہنچ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ بنک نے ڈسکاؤنٹ ریٹ کو 13.25 فیصد تک برقرار رکھا ہے۔
اس سال مہنگائی کے بارے میں سٹیٹ بنک کا اندازہ 11-12 فیصد ہے۔ مگر زمینی حقائق نے اِن اندازوں کو غلط کر دیا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں افراط زر کی شرح ساڑھے اُنیس فیصد تک پہنچ چکی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ حیران کن طور پر شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی مہنگائی زیادہ ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں خوراک کا بحران اور غیر معمولی گرانی ناقابل فہم ہے ہمارے ہاں منافع خور مافیا ذخیرہ اندوزی کے ذریعے اشیائے صرف کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتیں بڑھا کر بے تحاشا ناجائز منافع کما رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کا محور بھی ضائع ہوتا ہے۔
حالیہ مہنگائی کی لہر، ڈالر کے مقابلے میںروپے کی انتہائی بے قدری نے پوری معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ معمولی اور ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ خصوصاً ہماری خواتین کے زیر استعمال ناگزیر اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ نے اُن کے لیے انتہائی مشکلات پیدا کر دی ہیں اور وہ شرم و حیا کی وجہ سے حکومت سے یہ بھی مطالبہ نہیں کر سکتی ہیں کہ کیوں اِن اشیاء پر سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ غریب طبقہ جو کل آبادی 39.6 کافیصد ہے اور بمشکل روزانہ 1.25 ڈالر کماتا ہے۔ اسکے لیے زندہ رہنا بھی مشکل ہو رہا ہے وہ خود کشیاں کرتے پھر رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو زندہ درگور کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف وفاقی سیکرٹریوں کو تنخواہ کے علاوہ چار لاکھ روپے ماہانہ ایگزیکٹو الاؤنس دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں فیلڈ پوسٹوں پر متعین انتظامی افسران لاکھوںروپے الاؤنس لے رہے ہیں۔دولت کی واضح غیر منصفانہ تقسیم نے معاشرے میں معاشرتی بے چینی میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے۔ نوجوان نسل چوری اور ڈاکہ زنی میں مبتلا ہو رہی ہے۔ عجیب مخمصہ ہے کہ ہمارے ہاں تازہ سبزیوں کی گرانی ایک مستقل روگ بن چکا ہے۔ دس سال پیشتر 10 روپے کلو بکنے والے ٹماٹر، لہسن ، پیاز، مٹر اب اوسطاً 170 روپے فی کلو تک مارکیٹ میں بیچے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ تو خیر عیاشی کے زمرے میں شامل ہو چکی ہیں پھر زندہ رہنے کے لیے انسان کیا کھائے۔ متوسط افراد سبزی دالیں خریدنے کی بجائے ، مرغیوں کے پنجے اور گردنیں خرید کر سالن بنانے پر مجبور ہیں۔ پرانے وقتوں میں غریب پیاز سے روٹی کھا لیتا تھا مگر اب یہ پیاز بھی 80 فیصد غریب اور متوسط افراد کی قوت خرید سے باہر ہے۔ ادارہ شماریات کی سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک ماہ میں ایندھن 26 فیصد، دالیں 20 فیصد، چکن 17 فیصد، انڈے 14 فیصد، گندم 12.63 فیصد پیاز 18 فیصد، ٹماٹر 8 فیصد مہنگے ہوئے ہیں اور اگر ایک سال کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ٹماٹر 157 فیصد، پیاز 125 فیصد، سبزیاں 94 فیصد ، آلو 87 فیصد دالیں 79 فیصد مہنگی ہوئی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات 26 فیصد مہنگی ہوئی ہیں۔ آٹے کی قیمتوں میں 24 فیصد اور گندم کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں جب عام آدمی کی آمدنی کا 80 فیصد حصہ کھانے پینے کی اشیاء پر خرچ ہو جائے گا تو کیسے لوگ دوسری صنعتوں کی اشیاء خرید پائیں گے۔ ایک طرف ناقابل برداشت شرح سود اور دوسری طرف مہنگی بجلی اور گیس کے مصارف کے علاوہ حکومتی ٹیکسوں کی وجہ سے جب صنعتی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے تو پھر خریدار ان کو خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں تو یہ کاروباری ادارے اپنے یونٹس بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور چالاک ہوشیار کاروباری افراد سٹاک ایکسچینج اور رئیل اسٹیٹ میں مندی دیکھ کر اجناس کی ذخیرہ اندوزی، سونے کی خریداری اور غیر ملکی کرنسی میں سرمایہ کاری شروع کر دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بڑا صنعت کار یا ٹریڈر جتنا مرضی مذہبی ہو وہ منافع کمانے سے گریز نہیں کرتا۔ اسلام میں ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون قرار دیا گیا ہے مگر ہمارا کاروباری طبقہ حج اور عمرے تو بہت کرتا ہے مگر ذخیرہ ندوزی کے ذریعے ناجائز منافع کمانے سے باز نہیں آتا ۔ وہ مجبور اور بے کس کسانوں سے سستے داموں گندم، چاول اور دوسری اجناس خرید کر سٹور کر لیتا ہے اور جب ان کی قلت پیدا ہوتی ہے تو پھر ان کو فروخت کر کے اربوں روپے منافع کما لیتا ہے۔ اس دفعہ گندم اور چینی کی خریداری انہی سیٹھوں کے بیوپاریوں نے کی اور حکومتی اداروں نے جان بوجھ کر ان کا ذخیرہ نہیں کیا۔ جب حکومتی ادارے اجناس نہیں خریدیں گے تو پھر یہ سیٹھ حضرات ان اشیاء کو خرید کر ذخیرہ کریں گے اور مصنوعی قلت پیدا کر کے غریب عوام کا خون نچوڑتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ اندوزی کر کے مسلمانوں پر مہنگائی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ کے مرض اور محتاجی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ ذخیرہ اندوز وہ برا بندہ ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ بھائو سستا کرے تو وہ غمگین ہو جاتا ہے اور جب مہنگا کرے تو خوش ہو جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق ذخیرہ اندوزی اتنا گھنائونا فعل ہے کہ ایسے شخص کو آخرت میں تو عذاب ملے گا ہی مگر وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہو گا۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے افراد کو قانون کے مطابق سخت سزا دے جو انسانوں کو بھوک میں مبتلا کرتا ہے۔ رسول کریم کا ارشاد ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت ہوتی ہے جب معاشرے پر لعنت کے اثرات پڑنے شروع ہو جائیں تو پھر برکت کا ہاتھ اُٹھ جاتا ہے۔ وہ ملعون تاجر جو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور عوام کا خون چوستے ہیں ایسے تاجروں کو ارشادات نبوی یاد رکھنے چاہئیں کہ ان کے مال میں برکت نہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں محتاج اور کوڑھ میں مبتلا کردیں گے۔ یہ حرام مال کھائیں گے تو ارشاد نبوی کے مطابق ان کی دعائیں قبول نہ ہونگی۔
ایک طرف مہنگائی اور کساد بازاری کی تباہی تو دوسری طرف ہمیں بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے 41 کھرب 10 ارب روپے کے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ گردشی قرضوں کا حجم 1392 ارب روپے اور خسارے میں چلنے والے قومی ادارے 601 ارب روپے کے مقروض ہوں ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اگر یہی صورتحال جاری رہی تو اس سال 10 لاکھ سے زیادہ افراد بے روزگار ہونگے مہنگائی سے 20 فیصد متوسط افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف عام عوام ماچس کی ڈبیہ سے لے کر یوٹیلٹی بلز تک اشیاء خورد و نوش کی ہر شے پر ٹیکس اداکر رہے ہیں۔ مگر پھر بھی معاشی کساد بازاری بدترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔ گندم اور چینی کے بعد کپاس کی صورتحال بھی بے حد خراب ہے۔ کہیں ہم کپاس کے سب سے بڑے ایکسپورٹر تھے۔ مگر آج ہمیں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے اس سال ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کی کپاس امپورٹ کرنی ہو گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38